Episode 111 - Bheegi Palkon Par By Iqra Sagheer Ahmed

قسط نمبر 111 - بھیگی پلکوں پر - اقراء صغیر احمد

”شیری بیٹا! کیا تم ٹھیک ہو ؟یہ آپ کا چہرہ اتنا سرخ کیوں ہورہا ہے طبیعت تو ٹھیک ہے نا آپ کی ؟“مسز عابدی نے ہاتھ میں پکڑی کتاب ٹیبل پر رکھی اور عینک درست کرتی ہوئی اس سے مخاطب ہوئیں جو خراب موڈ کے ساتھ داخل ہوا تھا۔ 
”میں ٹھیک ہوں ممی!“اس نے اکھڑ لہجے میں جواب دیا۔ 
”میری بات تو سنیں، ابھی آئے ہیں اور کمرے کی طرف جانے کی لگ گئی ہے “وہ کہتا ہوا رکا نہیں تھا اسے جاتے دیکھ کر مسز عابدی نے کہا ۔
 
”ایک ضروری بات کرنی ہے آپ سے مجھے، آپ ہیں کہ موقع ہی نہیں دیتے بات کرنے کا “ان کے انداز میں ایک دم خفگی در آئی تھی ۔ 
شیری جو اس وقت سخت ذہنی بوجھ کا شکار تھا وہ شدت سے ان تمام سوچوں سے بے خبر ہوجانا چاہتا تھا جو پری طغرل کو لے کر اس کے دل میں طوفان مچائے ہوئے تھے جس سے چھٹکارا مدہوشی میں ہی تھا مگر وہ جب سے ماں کی ہارٹ کنڈیشن سے واقف ہوا تھا جب تے اس کی یہی کوشش تھی کہ ماں کو کوئی فکر و پریشانی نہ ہو ۔

(جاری ہے)

 
”اچھا ممی بتائیے! کیا بات کرنا چاہتی ہیں آپ ؟“
”پہلے یہ بتائیں آپ نے شادی کے بارے میں کیا سوچا ہے ؟فیوچر پلاننگ کیا ہے آپ کی ؟لائف پارٹنر کے بارے میں؟“ان کے سوالات پر وہ بے ساختہ مسکرا کر گویا ہوا۔ 
”ممی! میں ابھی میرڈ لائف اسپنڈ کرنا نہیں چاہتا، ابھی آپ مجھے اس بور لائف سے دور ہی رہنے دیں تو بہتر ہے “
”بہت آزاد رہ لیے آپ بیٹا، اب کوئی بہانہ نہیں چلے گا پھر آپ کی عمر اب شادی کی ہوچکی ہے اس عمر میں شادی کرلینی چاہیے “
”اوہ ممی! پلیز آپ مجھے فورس مت کریں “
”میں فورس نہیں کر رہی شیری! یہ میرا حق ہے میری زندگی کا کوئی بھروسہ نہیں اس دنیا سے جانے سے قبل میں آپ کی شادی دیکھنا چاہتی ہوں کیا مجھے اپنا سہرا دیکھنے کی خوشی نہ دیں گے بابا ؟“وہ بے حد جذباتی ہورہی تھیں۔
 
”ایسی باتیں مت کریں ممی، مجھے پسند نہیں ہے“ان کی جدائی کا خیال اس کے سخت دل کو پگھلارہا تھا۔ 
”ہماری پسند ناپسند سے حقیقت بدلتی نہیں ہے بابا! جو دنیا میں آیا اس کو واپس جانا بھی ہے موت سے فرار کس کو ممکن ہے بھلا “
”میں جانتا ہوں، اس حقیقت کو اور مانتا بھی ہوں “
”پھر کیوں وقت ضائع کر رہے ہیں ؟میں آپ کی پسند سے واقف ہوں صرف آپ کی ہاں کا انتظار کر رہی ہوں ورنہ مجھے تو فیاض بھائی سے بات کرنے میں کوئی لمحہ نہ لگے گا“وہ اس کی بات اچک کر بے صبری سے گویا ہوئی۔
 
”فیاض انکل سے کیا بات کریں گی آپ ؟“
”آپ کا پرپوزل دوں گی ان کو آپ کس کو پسند کرتے ہیں یہ میں اچھی طرح جانتی ہوں بیٹا!“وہ سرشار لہجے میں کہہ رہی تھیں۔ 
”کس کے لیے میرا پرپوزل دیں گی آپ ؟“وہ حیران پریشان، اس کو معلوم ہی نہ تھا کہ اس کی ماں اور بہنیں اس کے جذبات و احساسات سے اس کی پسندیدگی کو جان چکی ہیں۔ 
”پری کے لیے …آپ پسند کرتے ہو نا اس کو اور وہ تو ہم سب کو ہی بے حد پسند ہے میری تو دلی تمنا ہے پری کو بہو بنانے کی “
وہ اپنی دھن میں کہہ رہی تھیں، پری کے نام پر اس کا چہرہ دھواں دھواں ہورہا تھا۔
دکھ اور اذیت کی لہر تھی جو اس کے دل سے نکلی اور اس کو سرتاپا لرزا گئی تھی ۔ وہ جس آسیب سے بچنے کے لیے گھر آیا تھا وہ یہاں اس سے پہلے پہنچ گیا تھا اس کا دل چاہا وہ یہاں سے اٹھے اور کہیں دور بھاگ جائے ۔ 
”پری کو میں نے دیکھتے ہی پسند کرلیا تھا، ایسی نیک سیرت اور باادب لڑکی اس دور میں چراغ لے کر ڈھونڈنے سے بھی نہ ملے گی “
”ممی! آپ کیا جانیں چراغ تلے کتنا اندھیرا ہے۔
وہ نیک سیرت نہیں ہے بدسیرت لڑکی ہے ۔ وہ منافق ہے ، ظالم ہے، اپنے چہرے پر منافقت و سادگی کا نقاب لگا کر آپ جیسے سادہ لوح لوگوں کو دھوکہ دیتی ہے۔ عادلہ کی بات پر میں نے پکا بھروسہ نہیں کیا تھا مگر آج جو میری آنکھوں نے دیکھا ہے وہ کس میں جھٹلاسکتا ہوں“
”کن سوچوں میں گم ہوگئے ہو بیٹا! میں پرپوزل لے کر جاؤں آپ کا ؟“مسز عابدی نے تذبذب سے اس کی سنجیدگی دیکھ کر دریافت کیا۔
 
”مجھے کچھ ٹائم دیں ممی!“وہ کہہ کر اٹھ کر چلا گیا۔ 
###
رات گہری ہورہی تھی وہ شام سے کمرے میں بند تھی، رات کا کھانا بھی اس نے گول کردیا تھا، طغرل کے رویے نے اس کے اندر یاسیت و محرومی کا الاؤ ایک بار پھر بھڑکادیا تھا وہ اپنے ہی گھر میں خود کو اجنبی محسوس کرنے لگی تھی، پہلے گھنٹوں دادی کے عبادت والے روم میں دل کی بھڑاس آنسوؤں کے ذریعے نکلاتی رہی پھر دادی دوسرے روم سے باہر گئیں تو وہاں آکر بیڈ پر دراز ہوگئی رضائی اوڑھ کر جلتی آنکھوں پر بازو رکھ لیا، دو تین مرتبہ خیرون کھانے کے لیے بلانے آئی تو اسے سوتی دیکھ کر واپس چلی گئی ۔
خیرون کو ڈاج دینے میں وہ کامیاب ہوگئی تھی ، مگر دادی کو وہ ڈاج نہ دے سکی تھی ۔ 
”پری…او پری! کہاں کی نیند آگئی تم کو ایسی، جو کھانے پر بھی نہیں آئیں، ارے اٹھو میری بات سنو“ وہ بیڈ پر بیٹھتے ہوئے اس سے مخاطب ہوئی تھیں لیکن وہ ٹس سے مس نہیں ہوئی اس طرح سوتی بنی رہی اس کو معلوم تھا وہ اس کا رویا چہرہ دیکھ کر رونے کا سبب پوچھیں گے اور وہ کیا بتائے گی ۔
اگر حقیقت بتابھی دے گی تو وہ کس طرح یقین کریں گی ۔ اسی لمحے دروازہ ناک ہوا اور طغرل اندر آیا تھا اور ان سے بولا۔ 
”دادی جان ! آپ کو کسی چیز کی ضرورت تو نہیں ہے ؟“وہ بات دادی سے کر رہا تھا پر نگاہیں دادی کے برابر میں دراز پری پر تھیں جو اس کی آہٹ پاکر رضائی میں خود کو ملفوف کرچکی تھی ، دادی دیکھ نہ سکی تھیں مگر طغرل نے بخوبی دیکھا تھا۔
 
”نہیں بیٹا!جاکر سو جاؤ، سارے دن کے تھکے ہوئے ہو، کھانا بھی ڈھنگ سے نہیں کھایا تم نے یہ پورا ہفتہ ویسے بھی کاموں میں گزرے گا، مجھے فخر ہے جس طرح تم نے ایسے اہم موقع پر فیاض کو بیٹے کی کمی محسوس نہیں ہونے دی، بیٹا بن گئے ہو اس کا “
”آپ شرمندہ نہ کریں دادی جان! مجھے اچھا لگ رہا ہے یہ سب کرنا، آپ بتائیں کسی اور چیز کی ضرورت ہو تو میں مارکیٹ سے لے آؤں “وہ خاصا اپ سیٹ تھا اس کی خود اعتمادی غائب تھی ۔
 
”ادھر آؤ، میرے پاس میرے بچے !“دادی نے اسے پاس بلا کر اس کے ماتھا پر ہاتھ رکھا پھر کہا 
”بخار تو نہیں ہورہا ہے تمہیں جو بہکی بہکی باتیں کر رہے ہو “
”کیا مطلب دادی جان! کیا کہہ رہی ہیں آپ ؟“ان کے انداز پر وہ سخت حیران ہوکر گویا ہوا۔ 
”کھانے کے دوران سے اب تک تم کئی مرتبہ مجھ سے یہ سوال کرچکے ہوں اور میں بتاچکی ہوں مجھے کسی چیز کی ضرورت نہیں بیٹا، تم جاکر آرام کرو بخار جب سر پر چڑھ جاتا ہے تو یہی حال ہوتا ہے۔
شکر ہے اللہ کا تم کو بخار نہیں ہے لیکن کوئی پریشانی ضرور ہے “دادی اس کی طرف دیکھتے ہوئے کہہ رہی تھیں۔ 
”پریشانی نہیں ہے کوئی بھی میں آپ کے خیال سے معلوم کر رہا تھا “ان کی چہرہ شناسی پر وہ ششدر رہ گیا تھا کس سرعت سے دادی نے اس کی بے چینی بھانپ لی تھی وہ شام سے ہی مضطرب تھا پری کے ساتھ ہونے والی نادانستہ حرکت نے اس کو پہلے ہی بے کل کیا ہوا تھا اور پری کو کھانے کی ٹیبل پر نہ پاکر اس کی ندامت اور بڑھ گئی تھی جس کی وجہ سے وہ کھانا بھی نہ کھاسکا تھا۔
 
”پارس نے ڈنر نہیں کیا ہے ، طبیعت ٹھیک ہے اس کی ؟“
”ہاں طبیعت ٹھیک ہے، دراصل آج سارا دن تمہارے ساتھ ماری ماری پھری ہے سارا سامان ماشاء اللہ میری سوچ سے بھی بڑھ کر لائی ہے ، تھکن کی وجہ سے سوگئی ہے یہ اس کی بچپن کی عادت ہے، جب تھکتی ہے تو بھوک پیاس اڑ جاتی ہے اس کی “
رضائی میں وہ آنکھیں کھولے ان کی باتیں سن رہی تھی، طغرل کے لہجے کی اضطرابی کیفیت اس نے محسوس کی تھی لیکن بدگمانی اس حد تک بڑھی ہوئی تھی کہ وہ اس کی موجودگی بھی گوارا نہ کر رہی تھی ۔
 
”جاؤ میرے بچے جاکر سوجاؤ تھکے ہوئے ہو تم بھی “وہ جھکا تو دادی نے پیشانی چومتے ہوئے کہا وہ کچھ سوچ کر بولا۔ 
”دادی جان! ایک مشورہ کرنا ہے آپ سے زیادہ ٹائم نہیں لوں گا “
”صبح کرلینا اب ٹائم تو دیکھو “
”مجھے نیند نہیں آئے گی دادی جان!میں شام سے بہت پریشان ہوں “اس کے وجیہہ چہرے پر یاسیت ابھر آئی تھی ۔ 
”خیرت ہے نا میں دیکھ رہی ہوں شام سے تمہارا منہ اترا ہوا ہے جبھی کہہ رہی ہوں کوئی گڑ بڑ ہے ضرور، تم پریشان لگ رہے ہو۔
یہاں بیٹھو میرے پاس اور بتاؤ کیا معاملہ ہے کسی سے جھگڑا ہوا ہے ؟“انہوں نے اس کا ہاتھ پکڑ کر اپنے قریب بٹھاتے ہوئے پوچھا۔ 
”جھگڑا نہیں ہوا، وہ میری ایک غلطی سے میرا ایک دوست ناراض ہوگیا ہے مجھ سے، رئیلی دادی جان! مجھ سے غلطی ہوگئی ہے میں نے خود سے نہیں کی تھی “وہ دانستہ پری کو سنا رہا تھا تاکہ وہ اس کی نیت پر شک نہ کرے ۔
”ہاں ہاں! غلطی تو غلطی سے ہی ہوتی ہے خود سے کون کرتا ہے تم نے اپنے دوست کو بتایا نہیں جو ہوا وہ محض اتفاق تھا ؟“وہ پوری توجہ سے سنتے ہوئے کہہ رہی تھیں۔
 
”وہ موقع ہی نہیں دے رہا میں تو اس سے معافی مانگنے کو تیار ہوں حالانکہ میں نے جان بوجھ کر کچھ نہیں کیا“
”ہوں یہ تو اعلیٰ ظرف لوگوں کا وطیرہ ہے جو اپنی غلطی نہ ہوتے ہوئے بھی تم معافی مانگنے کو تیار ہو خیر فکر مت کرو۔ مان جائے گا وہ خود ہی جب اسے تم بے خطادکھائی دوگے“ان کی گہری نظریں اس کا جائزہ اس طرح لے رہی تھیں جیسے کوئی ماہر تیراک سمندر کی تہہ سے قیمتی موتی تلاش کر رہا ہو۔
 
”اوکے دادی جان ! آپ دعا کیجیے گا شب بخیر!“وہ ان کا گال چوم کر وہاں سے نکل گیا۔ اماں اس کے جانے کے بعد کئی لمحوں تک اسی طرح سوچوں میں گم رہی پھر ہاتھ بڑھاکر انہوں نے پری کے چہرے سے رضائی ہٹاتے ہوئے کہا۔ 
”مجھے معلوم ہے تم جاگ رہی ہو اٹھ جاؤ “
”کس طرح سوسکتی ہوں میں آپ کی اور آپ کے اس پرنس کی میٹنگ کی آوازیں کان میں آرہی ہوں تو خاک نیند آئے گی “وہ بڑبڑاتی ہوئی اٹھی ۔
”شرم نہیں آتی ان کو اس ٹائم روم میں آتے ہوئے، یہ معلوم ہے ان کو میں بھی یہاں سوتی ہوں، یہ کوئی شرافت ہے ان کی بھلا ؟“
”پہلی بار تو وہ آیا ہے یہاں اس ٹائم، ورنہ وہ تمہاری موجودگی میں گریز کرتا ہے وہ بھی بے حد پریشانی میں…“ ان کی بات پر اس کا دل بری طرح دھڑکا وہ جانتی تھی وہ سب اس کو ہی سنا رہا تھا لیکن اسے یقین تھا وہ اپنی حرکت پر پشیمان نہیں ہے وہ اس بات سے خوف زدہ ہے اس کی سگریٹ نوشی کا دادی کو معلوم نہ ہوجائے اسی وجہ سے وہ بے چین ہے ۔
 
”مجھے کیوں سنا کر جائیں گے ؟میرا کوئی جھگڑا نہیں ہوا “
”پری! میرا تجربہ تمہاری عمر سے بھی دگنا ہے تمہاری سوچوں تک رسائی حاصل ہے مجھے، تم کو اور طغرل کو اچھی طرح جانتی ہوں میں ، بچپن سے آج تک تم دونوں نے ایک دوسرے سے بیر رکھا ہے “
”پلیز دادی جان! میں کہہ رہی ہوں ایسی کوئی بات نہیں ہے “اس نے مسکراتے ہوئے ان کا ہاتھ تھام کر کہا۔ 
”میری دعا ہے ایسا ہی ہو “وہ سنجیدگی سے بولیں۔ 

Chapters / Baab of Bheegi Palkon Par By Iqra Sagheer Ahmed

قسط نمبر 25

قسط نمبر 26

قسط نمبر 27

قسط نمبر 28

قسط نمبر 29

قسط نمبر 30

قسط نمبر 31

قسط نمبر 32

قسط نمبر 33

قسط نمبر 34

قسط نمبر 35

قسط نمبر 36

قسط نمبر 37

قسط نمبر 38

قسط نمبر 39

قسط نمبر 40

قسط نمبر 41

قسط نمبر 42

قسط نمبر 43

قسط نمبر 44

قسط نمبر 45

قسط نمبر 46

قسط نمبر 47

قسط نمبر 48

قسط نمبر 49

قسط نمبر 50

قسط نمبر 51

قسط نمبر 52

قسط نمبر 53

قسط نمبر 54

قسط نمبر 55

قسط نمبر 56

قسط نمبر 57

قسط نمبر 58

قسط نمبر 59

قسط نمبر 60

قسط نمبر 61

قسط نمبر 62

قسط نمبر 63

قسط نمبر 64

قسط نمبر 65

قسط نمبر 66

قسط نمبر 67

قسط نمبر 68

قسط نمبر 69

قسط نمبر 70

قسط نمبر 71

قسط نمبر 72

قسط نمبر 73

قسط نمبر 74

قسط نمبر 75

قسط نمبر 76

قسط نمبر 77

قسط نمبر 78

قسط نمبر 79

قسط نمبر 80

قسط نمبر 81

قسط نمبر 82

قسط نمبر 83

قسط نمبر 84

قسط نمبر 85

قسط نمبر 86

قسط نمبر 87

قسط نمبر 88

قسط نمبر 89

قسط نمبر 90

قسط نمبر 91

قسط نمبر 92

قسط نمبر 93

قسط نمبر 94

قسط نمبر 95

قسط نمبر 96

قسط نمبر 97

قسط نمبر 98

قسط نمبر 99

قسط نمبر 100

قسط نمبر 101

قسط نمبر 102

قسط نمبر 103

قسط نمبر 104

قسط نمبر 105

قسط نمبر 106

قسط نمبر 107

قسط نمبر 108

قسط نمبر 109

قسط نمبر 110

قسط نمبر 111

قسط نمبر 112

قسط نمبر 113

قسط نمبر 114

قسط نمبر 115

قسط نمبر 116

قسط نمبر 117

قسط نمبر 118

قسط نمبر 119

قسط نمبر 120

قسط نمبر 121

قسط نمبر 122

قسط نمبر 123

قسط نمبر 124

قسط نمبر 125

قسط نمبر 126

قسط نمبر 127

قسط نمبر 128

قسط نمبر 129

قسط نمبر 130

قسط نمبر 131

قسط نمبر 132

قسط نمبر 133

قسط نمبر 134

قسط نمبر 135

قسط نمبر 136

قسط نمبر 137

قسط نمبر 138

قسط نمبر 139

قسط نمبر 140

قسط نمبر 141

قسط نمبر 142

قسط نمبر 143

قسط نمبر 144

قسط نمبر 145

قسط نمبر 146

قسط نمبر 147

ذقسط نمبر 148

قسط نمبر 149

قسط نمبر 150

قسط نمبر 151

قسط نمبر 152

قسط نمبر 153

قسط نمبر 154

قسط نمبر 155

قسط نمبر 156

قسط نمبر 157

قسط نمبر 158

قسط نمبر 159

قسط نمبر 160

قسط نمبر 161

قسط نمبر 162

قسط نمبر 163

قسط نمبر 164

قسط نمبر 165

قسط نمبر 166

قسط نمبر 167

آخری قسط