Episode 113 - Bheegi Palkon Par By Iqra Sagheer Ahmed

قسط نمبر 113 - بھیگی پلکوں پر - اقراء صغیر احمد

”تم بہت باہمت ہو مثنیٰ ، کتنی جرات و صبر سے تم اپنی بیٹی کی جدائی کا دکھ سہہ کر جیتی رہی صرف میری کھوکھلی انا و کمزور برداشت کے باعث تم نے اپنی مامتا و محبت کو روندھے رکھا تھا “انہوں نے ٹرانکولائزر کے زیر اثر سوتی مثنیٰ کو دیکھتے ہوئے سوچا۔ 
”ہمیشہ اپنی غلطی کا ادراک وقت گزرنے کے بعد ہی کیوں ہوتا ہے ؟جب وقت ہمارے ہاتھ میں ہوتا ہے بھلائی اور گمراہی کے راستے ہمارے اختیار میں ہوتے ہیں تو کیوں ہم بغض و خود غرضی کو اپنی بہتری، اپنا حق جان کر گمراہی کی راہ پر چل پڑتے ہیں اور پھر جب وقت پلٹتا ہے اپنا بویا کاٹنے کا وقت آتا ہے تو خار ہی خار، نقصان ہی حصے میں آتا ہے “وہ نم آنکھوں سے ان کا چہرہ دیکھتے ہوئے خود سے اعتراف کر رہے تھے ۔
تب ہی عشرت جہاں ملازمہ کے ہمراہ وہاں آئی تھیں۔

(جاری ہے)

 

”ابھی بیدار نہیں ہوئی مثنیٰ “وہ صوفے پر ان کے قریب بیٹھ گئیں۔ 
”نہیں بیٹر ہے ابھی یہ سوتی رہے، بے حد اپ سیٹ ہوگئی ہے “
”ہاں! اپ سیٹ تو ہوگی میری بچی کے نصیب میں اولاد کی جدائی کا دکھ ہی لکھا ہے ۔ پری کی طرف سے اب کچھ مطمئن ہونے لگی تھی کہ سعود نے تو اسے ادھ مرا ہی کرڈالا “عشرت جہاں بے سدھ پڑی بیٹی کے زرد چہرے کو دیکھتے ہوئے گویا ہوئیں ۔
ملازمہ ان کو کولڈ ڈرنک سرو کرکے جاچکی تھی ۔ 
”آنٹی! مجھے لگتا ہے یہ سب پریشانیاں ہماری وجہ سے ہیں۔ ہم نے شاید فیاض اور مثنیٰ کو جدا کرکے بہت برا کیا، یہ سب اس کی ہی سزا ہے جو ہم وہ خوش گوار زندگی گزار ہی نہ سکے جس کے میں نے آپ اور مما نے خواب دیکھے تھے، ہم میں سے آج کوئی بھی پرسکون زندگی نہیں گزار رہا، علیحدہ علیحدہ دکھوں کی کسک ہماری زندگیوں کو بے سکوں کیے ہوئے ہے ہم نے جن پھولوں کو اپنے دامن میں بھرا تھا، وہ خار بن گئے “عشرت جہاں نے کانپتا ہوا ہاتھ ان کے شانے پر رکھتے ہوئے آزردگی سے کہا۔
 
”ان پچھتاوؤں کی اذیت ناک تکلیف میں ، میں بھی دن گزارتی آئی ہوں بیٹا! مثنیٰ کی خوشیوں کو تاراج کرنے میں، میں سب سے آگے تھی، اس وقت میں بیٹی کی محبت میں اس قدر خود غرض بن گئی تھی کہ سب فراموش کر بیٹھی اس کی خوشی میں ہی میری خوشی ہونی چاہیے تھے لیکن میں جانتی تھی وہ مڈل کلاس کا پروردہ لڑکا فیاض میری بیٹی کو وہ بہترین آسائشات بھری زندگی نہ دے سکے گا جو آپ اس کو دیتے اور وقت نے ثابت کیا آپ نے وہ کیا ہے بس ایسے میں وہ سب کرتی چلی گئی“
”لیکن آنٹی! میں مثنیٰ کو پاکر بھی کہاں پاسکا ہوں، مجھے اس کی ادھوری محبت حاصل ہوئی ہے، اس کے لبوں پر میں آج تک وہ مسکراہٹ و خوشی نہیں دیکھی جو فرسٹ ٹائم اس کے چہرے پر دیکھی تھی “
”ہماری خطائیں ہمارے ساتھ ہیں، ہم ندامت و پچھتاوؤں کا بھاری پتھر سینے پر رکھ کر جس طرح جی رہے ہیں وہ ہم ہی جانتے ہیں بیٹا مگر سارا قصور ہمارا ہی نہیں ہے ہم سے زیادہ فیاض کے گھر والے اس رشتے کو ناپسند کرتے تھے اگر ہم یہ نہ کرتے تو مثنیٰ کو فیاض کے ساتھ بسنے بھر بھی نہ دیا جاتا، وہاں سے اجڑنا اس کا مقدر تھا “افسردگی ان کے چہرے پر بھی چھائی ہوئی تھی ماضی کے شعلوں جیسے لمحات ان کی بوڑھی آنکھوں کو بھی نم کر گئے تھے۔
 
”آپ بھی افسردہ ہوگئی ہیں آنٹی! سعود کی غیر ذمہ داریوں نے میری آنکھوں سے کئی پردے ایسے ہٹائے ہیں جن سے میں آشنا ہی نہ تھا، اس وقت میں نے یہی سیکھا ہے کہ ہم غلطیاں انجانے میں کریں یا از خود سزا ان کی ہم کو برابر ملتی ہے اس درد سے ہمیں بھی واقف ہونا پڑتا ہے جو بے خبری میں ہم دوسروں کو دیتے ہیں “
”ہوں ! یہ لین دین ساری زندگی کا معاملہ ہے مکافات عمل سے بچنا ناممکن ہے میں سوچ رہی ہوں چند دنوں کے لیے پری کو بلوالوں بہت عرصہ ہوگیا اس کو یہاں آئے ہوئے اسے دیکھ کر مثنیٰ سنبھل جائے گی “
###
”تم مجھے کال نہیں کرسکتی تھیں ؟کیا ضرورت تھی چچا جان سے کہنے کی کہ وہ شوفر کو بھیجیں ؟“وہ مین روڈ کی طرف ٹرن لیتے ہوئے بگڑے لہجے میں بولا اس کے چہرے پر خلاف معمول گہری سنجیدگی تھی ۔
 
”میں نے کال نہیں کی دادی جان نے مما سے کال کرنے کو کہا تھا “
”سو واٹ؟تم خود کال نہیں کرسکتی تھیں مجھے ؟کسی کا احسان لینے کی ضرورت ہی کیا ہے اور وہ بھی اس بندے کا جو فیس سے ہی ڈفر لگ رہا ہے “اس کے چہرے کا تناؤ لہجے میں بھی موجود تھا۔ 
”میں نے آپ سے کہا نا وہ شوفر میری مرضی سے نہیں آیا تھا “اس کے سخت سرزنش والے لہجے پر وہ بھی ٹیمپر لوز کرگئی تھی ۔
 
”اور وہ گھونچو کس کی مرضی سے آیا تھا ؟یہ وہی شیری صاحب ہیں ناں جنہوں نے پارٹی والے دن آپ کی اجازت کے بغیر تصویریں اتاری تھیں ؟“انداے سی کی کولنگ کے باوجود طغرل کے لہجے سے آگ برس رہی تھی وہ مرد تھا اور پری سے شدید محبت کرتا تھا۔ اب نامعلوم یہ محبت کی کشش تھی یا مردانہ حس کا کمال وہ لمحوں میں شیری کی نگاہوں میں پری کا عکس دیکھ کر اضطراب و طیش میں مبتلا ہوچکا تھا اس کے دل میں شیری کے لیے شدید ناپسندیدگی و غصہ پیدا ہوا تھا۔
 
”جی یہ درست ہے انہوں نے بلااجازت میری تصویریں بنائی تھیں مگر وہ اپنی اس بدتمیزی کی معافی مجھ سے اور دادی سے مانگ چکے ہیں “
”ہوں ، تم نے معاف کردیا ہے اس کو ؟“
”بالکل! جب کوئی خلوص سے معافی مانگے تو معاف کرنا چاہیے “
”رئیلی! تم کسی کو معاف بھی کرسکتی ہو ؟“لمحہ بھر وہ اس کی آنکھوں میں دیکھتا ہوا حیرانی سے گویا ہوا۔
 
”ہاں بالکل! آپ اتنے سرپرائزڈ کیوں ہورہے ہیں ؟“وہ شانے اچکا کر سادگی سے گویا ہوئی ۔ 
”اس لیے کہ تم نے آج تک مجھے معاف نہیں کیا “
”بدتمیزی اور زیادتیوں میں بہت فرق ہوتا ہے طغرل بھائی ! آپ جب سے یہاں آئے ہیں تب سے برابر پریشان کر رہے ہیں مجھے “
”ہونہہ! تمہاری ہمدردیاں دوسروں کے لیے محفوظ ہیں تم مجھے صرف بلیم ہی کرسکتی ہو ، اتنی نفرت کرتی ہو تم مجھ سے؟“ پری نے اس کی بات کا جواب نہیں دیا۔
کھڑکی سے باہر دیکھنے لگی۔ 
###
عادلہ گھر آئی تو اس کا بری طرح موڈ آف تھا وہ ہاتھ میں پکڑے شاپرز کارپٹ پر پھینک کر بیڈ پر بیٹھ گئی اس کے پیچھے ہی صباحت بھی چلی آئیں تھی اور غصے سے گویا ہوئیں۔ 
”تم کو کیا ہوتا جارہا ہے عادلہ، حد ہوتی ہے غیر ذمہ داری کی بھی، دوپہر سے گھر سے نکلی اور اب رات گئے آرہی ہو وہ بھی غبارے کی مانند منہ پھلا کر۔
جانتی بھی ہو یہاں کیسی شادی کی افراتفری مچی ہوئی ہے مگر تم کو کسی بات سے غرض نہیں ہے عائزہ کے سامان میں دلچسپی لے رہی ہو اور نہ ہی تم کو یہ احساس ہے کہ عائزہ کو اس وقت تمہاری کتنی ضرورت ہے “
”کیوں اتنا شور کر رہی ہیں ممی! پری اس کی تمام خواہشات پوری کر تو رہی ہے پھر کیوں آپ مجھے سنارہی ہیں؟“ وہ ان کی طرف دیکھ کر بگڑے لہجے میں گویا ہوئی ۔
 
”یہ ہی کمی رہ گئی تھی مجھ سے زبان درازی کرنے کی، وہ بھی پوری ہوگئی آج۔ شاباش ہے بیٹا! آج زبان چلارہی ہو کل جوتا کھینچ کر مارنا یہی تربیت کی ہے میں نے تمہاری۔ میرے ساتھ یہی ہونا چاہیے تھا ۔ میں نے تم کو اتنی اہمیت دی ہے کہ شاید ہی اس دور میں بیٹیوں سے محبت کی جاتی ہے “عادلہ کے گستاخانہ لہجے پر وہ چراغ پاہوکر گویا ہوئی تھیں۔ 
”میں نے ایسا کیا کہہ دیا ہے جو آپ اس قدر دکھی ہورہی ہیں، میری سیدھی بات کو بھی آپ غلط سمجھ رہی ہیں ممی“وہ شانے اچکا کر خفگی بھرے لہجے میں گویا ہوئی ۔
 
”رہنے دو ، اپنی من مانیوں کو دوسروں کی غلطی قرار دے رہی ہو۔ پری کو دیکھو سوتیلی بہن ہوکر بھی ہر کام کو سنبھالے ہوئے ہے“
”آپ نے شروع سے ہمیں گھر کے کاموں سے دور رکھا اور پری پر ہی ہر کام کی ذمہ داری ڈالی پھر اب کیسے ہم یہ ذمہ داری اٹھاسکتے ہیں۔ یہ بھی تو سوچیں آپ ممی “عادلہ کے جواب نے انہیں لاجواب کرڈالا، وہ گڑبڑاگئیں۔
 
”آپ اپنی شکایتیں لے کر بیٹھ گئیں میرے دل کا حال آپ کو معلوم نہیں ہے، شیری نے بے حددکھی کیا ہے مجھے“غصے و جھنجھلاہٹ کے ساتھ آنسوؤں کی نمی بھی شامل ہوگئی تھی ۔ اس کے لہجے میں ، صباحت کے چہرے پر ممتا امڈ آئی وہ نرمی سے گویا ہوئیں۔ 
”وہ شیری بھی تمہارے حلق میں پھنسی ہڈی بن گیا ہے جس کو نہ تم نگل سکتی ہو اور نہ ہی اگل سکتی ہو۔
عجیب لڑکا ہے وہ، اب کیا کیا ہے اس نے جس سے تم دکھی ہوئی ہو ؟“
”مجھے آج شام اس نے شاپنگ کرانے کا وعدہ کیا تھا اور نہیں آیا میں انتظار کرتے کرتے پاگل ہوگئی تھی ممی! سیل فون بھی آف جارہا ہے اس کا ، میں ٹیلر سے سوٹ لے کر واپس آگئی ہوں اور وہ ابھی تک غائب ہے۔ نہ شرمندگی، نہ معذرت کوئی رسپونس نہیں ہے اس کی طرف سے “وہ دونوں ہاتھوں سے سر پکڑے بے حد پریشان تھی ۔
 
”دفع کرو تم کیوں پروا کرتی ہو اس کی بھول جاؤ اسے “
”بھول جاؤں اس کو ؟یہ آپ کہہ رہی ہیں ممی! یہ آپ کی ہی خواہش تھی آپ ہرقیمت پر اس کو اپنا داماد بنانا چاہتی تھیں “ان کی بات پر وہ چڑ چڑے پن سے گویا ہوئی ۔ 
”عادلہ! تم تو ہر الزام اس طرح مجھ پر لگارہی ہو جیسے تم ذی شعور نہیں ہو، فیصلہ کرنے اور اپنی منوانے کی عادت تم میں نہیں ہے پہلے طغرل کے لیے دیوانی ہورہی تھیں اور اب شیری کے لیے پاگل ہو اور دوش دیتی ہو مجھے، ہر ماں کی طرح میری بھی یہی خواہش ہے میری بیٹیوں کے مستقبل روشن ہوں۔
تم اپنے گھر میں راج کرو “
”اوہو ممی! آپ مائنڈ کرگئیں میرا مطلب یہ نہیں تھا “ان کو کچھ زیادہ ہی برہم دیکھ کر عادلہ نے مسکرا کر ان سے لپٹتے ہوئے کہا۔ 
”بٹرنگ مت کرو، اب مجھے احساس ہورہا ہے میں نے تم لوگوں کو حد سے زیادہ آزادی دے دی ہے عائزہ کی اتنی بڑی لغرش کے بعد بھی میں تم کو روکنے ٹوکنے کے بجائے تمہاری ہاں میں ہاں ملارہی ہوں “ان کا لہجہ شکستہ تھا ۔
 
”تو کیا ہوا ممی! میں نے آپ کے اعتماد کو قائم رکھا ہوا ہے “
”اچھا یہ سب تم فیاض اور اپنی دادی کو بتاسکتی ہو ؟“
”ارے کیا ہوگیا ہے آپ کو ممی! یہ کیسی باتیں کر رہی ہیں آپ ؟“صباحت کا بدلا بدلا رویہ عادلہ کو متحیر کر رہا تھا۔ 
”تم کو معلوم ہے تمہاری خالہ زینب مجھ سے کہہ رہی تھیں کہ مجھ سے تم لوگوں کو تربیت میں کمی رہ گئی ہے۔
تم میری بیٹیاں تو لگتیں ہو مگر فیاض کی بیٹیاں ہرگز نہیں لگتیں، تم میں وہ وقار، تمکنت اور حیا دکھائی نہیں دیتی جو فیاض اور اماں جان کے سراپے سے جھلکتی ہے “
”انہوں نے کہا اور آپ نے سن لیا ؟“اس نے تنک کر کہا۔ 
”پھر کیا کرتی منہ توڑ دیتی اس کا ؟اور پھر کیوں توڑ دیتی وہ غلط ہی کیا کہہ رہی تھی، ہمارے چہرے، ہمارے مزاج ہمارے اندر کا پتا دیتے ہیں ہمارا ایک ایک نقش بتاتا ہے ہمارا آپ بیان کرتا ہے جو ہم میں ہے “
”رہنے دیں ممی! آپ بھی کن کی باتوں میں آرہی ہیں زینب آنٹی کو ہم سے زیادہ پری سے محبت ہے، اس دن دیکھا تھا آپ نے کس طرح اس سے ملی تھیں، بات بات پر اس کو لپٹارہی تھیں اور دادی سے کس طرح گھل مل کر باتیں کرتی رہی تھیں گویا وہ ہم سے نہیں دادی اور پری سے ملنے آئی ہوں “اس نے غصے سے سر جھٹک کر کہا۔
 
”ہاں وہ ہم بہنوں میں سب سے جدا ہے مزاج میں بھی اور خوب صورتی میں بھی“
”وہ اپنی خوب صورتی و مزاج کا جادو صرف سراج انکل پر ہی چلائیں، کم از کم میں ان کی ایسی باتوں سے مرعوب نہیں ہونی والی ہوں “
”اس کے سامنے کچھ کہنے کی ضرورت نہیں ہے، فٹافٹ چینج کرکے اماں کے روم میں آؤ، آصفہ اور عامرہ کے گھر انویٹیشن کارڈ دینے جانا ہے “وہ کہہ کر وہاں سے چلی گئی تھیں۔ 

Chapters / Baab of Bheegi Palkon Par By Iqra Sagheer Ahmed

قسط نمبر 25

قسط نمبر 26

قسط نمبر 27

قسط نمبر 28

قسط نمبر 29

قسط نمبر 30

قسط نمبر 31

قسط نمبر 32

قسط نمبر 33

قسط نمبر 34

قسط نمبر 35

قسط نمبر 36

قسط نمبر 37

قسط نمبر 38

قسط نمبر 39

قسط نمبر 40

قسط نمبر 41

قسط نمبر 42

قسط نمبر 43

قسط نمبر 44

قسط نمبر 45

قسط نمبر 46

قسط نمبر 47

قسط نمبر 48

قسط نمبر 49

قسط نمبر 50

قسط نمبر 51

قسط نمبر 52

قسط نمبر 53

قسط نمبر 54

قسط نمبر 55

قسط نمبر 56

قسط نمبر 57

قسط نمبر 58

قسط نمبر 59

قسط نمبر 60

قسط نمبر 61

قسط نمبر 62

قسط نمبر 63

قسط نمبر 64

قسط نمبر 65

قسط نمبر 66

قسط نمبر 67

قسط نمبر 68

قسط نمبر 69

قسط نمبر 70

قسط نمبر 71

قسط نمبر 72

قسط نمبر 73

قسط نمبر 74

قسط نمبر 75

قسط نمبر 76

قسط نمبر 77

قسط نمبر 78

قسط نمبر 79

قسط نمبر 80

قسط نمبر 81

قسط نمبر 82

قسط نمبر 83

قسط نمبر 84

قسط نمبر 85

قسط نمبر 86

قسط نمبر 87

قسط نمبر 88

قسط نمبر 89

قسط نمبر 90

قسط نمبر 91

قسط نمبر 92

قسط نمبر 93

قسط نمبر 94

قسط نمبر 95

قسط نمبر 96

قسط نمبر 97

قسط نمبر 98

قسط نمبر 99

قسط نمبر 100

قسط نمبر 101

قسط نمبر 102

قسط نمبر 103

قسط نمبر 104

قسط نمبر 105

قسط نمبر 106

قسط نمبر 107

قسط نمبر 108

قسط نمبر 109

قسط نمبر 110

قسط نمبر 111

قسط نمبر 112

قسط نمبر 113

قسط نمبر 114

قسط نمبر 115

قسط نمبر 116

قسط نمبر 117

قسط نمبر 118

قسط نمبر 119

قسط نمبر 120

قسط نمبر 121

قسط نمبر 122

قسط نمبر 123

قسط نمبر 124

قسط نمبر 125

قسط نمبر 126

قسط نمبر 127

قسط نمبر 128

قسط نمبر 129

قسط نمبر 130

قسط نمبر 131

قسط نمبر 132

قسط نمبر 133

قسط نمبر 134

قسط نمبر 135

قسط نمبر 136

قسط نمبر 137

قسط نمبر 138

قسط نمبر 139

قسط نمبر 140

قسط نمبر 141

قسط نمبر 142

قسط نمبر 143

قسط نمبر 144

قسط نمبر 145

قسط نمبر 146

قسط نمبر 147

ذقسط نمبر 148

قسط نمبر 149

قسط نمبر 150

قسط نمبر 151

قسط نمبر 152

قسط نمبر 153

قسط نمبر 154

قسط نمبر 155

قسط نمبر 156

قسط نمبر 157

قسط نمبر 158

قسط نمبر 159

قسط نمبر 160

قسط نمبر 161

قسط نمبر 162

قسط نمبر 163

قسط نمبر 164

قسط نمبر 165

قسط نمبر 166

قسط نمبر 167

آخری قسط