Episode 9 - Bheegi Palkon Par By Iqra Sagheer Ahmed

قسط نمبر 9 - بھیگی پلکوں پر - اقراء صغیر احمد

خواب گاہ اسے بے حد پسند آتی تھی، بالکل اس کی مرضی و پسند کے مطابق تھی۔ بے حد نفاست لیکن سادگی سے آراستہ روشن، ہوا دار اور کشادہ، اس کی دونوں کھڑکیاں باہر لان میں کھلتی تھیں۔ بیڈپردراز ہونے کے بعد بھی اور نج خوشمنا پھولوں سے لدے درخت نظر آتے تھے، دوسری کھڑکی سے ناریل کے پیڑ کی چھدری شاخوں سے آسمان پر چمکتا چاند کسی شرمیلی دوشیزہ کی مانند بادلوں کی اوٹ میں چہرہ چھپا رہا تھا۔
طغرل بیڈپر دراز اس چاند کو تک رہا تھا۔
ایک عرصے بعد وہ اپنے وطن، اپنے گھر کی فضاؤں میں سانس لے رہا تھا۔ جب یہاں سے گیا تھا تو جدائی اور دوری جیسے احساسات کا ادراک ہی نہ تھا اور جب کئی دوں تک اس کی اپنی عزیز ترین ہستیوں یعنی دادی جان اور چچا جان سے ملاقات نہ ہو سکی تو اس نے جانا جدائی کتنا بڑا کرب ہے۔

(جاری ہے)

ایک ایسا درد جو کسی گیلی لکڑی ک مانند اندر ہی اندر سلگاتا رہتا ہے، تڑپا تارہتا ہے۔

وہاں سیٹ ہونے کے لیے اس کو طویل عرصہ کی جدوجہد کرنی پڑتی تھی۔ دادی جان، چچا جان اور دیگر رشتے داروں اور کزنز کی یادوں سے اسے نکلنے میں مکمل کامیابی تو حاصل نہ ہو سکی تھی البتہ وقت رفتہ کے ساتھ وہ سمجھوتا کر بیٹھا تھا۔ تعلیم اور کھیلوں کے ساتھ اسے دوستوں اور کزنز کی دوستی وہاں بھی مل گئی تھی کہ اس کی مما کی فیملی یعنی آدھا میکہ وہاں رہائش اختیار کیے ہوئے تھا۔
نانا، نانی، تین ماموؤں اور دو خالاؤں کے گھرانوں کے علاوہ دیگر رشتے داروں اور دوست احباب سمیت ایک وسیع حلقہ وہاں رہائش پزیر تھا۔ جن سے عموماً علیک سلیک رہتی تھی، وہ فطرتاً آزاد خیال تھا ور لوگوں سے قربتیں، دوستیاں نبھانے کا ازحد شوقین تھا۔ وہاں کی آزاد فضاؤں میں اسے سیٹ ہونے میں وقت نہ لگا تھا لیکن جن ہستیوں نے اس کو مضطرب رکھا تھا ان میں ایک اس کو جان سے بڑھ کر عزیز تھیں تو دوسری جانی دشمن!
وہ پھولے پھولے گالوں اور موٹی موٹی بے حد چمکیلی آنکھوں والی پری جس کی اس سے کبھی بنی ہی نہ تھی۔
وہ دھونس ودھاندلی والی طبیعت کے باعث سب کزنز پر رعب جما کر فائدہ اٹھاتا تھا۔ چچا اور پھوپیوں کے بچے جو سب ہی تقریباً ہم عمر تھے پر حکومت کرتا تھا ان میں فقط ایک وہ تھی جو اس کی کسی دھونس، دھمکی ورعب میں نہ آتی تھی۔
وہ اس کی ہم مزاج ہم فطرت تھی۔
اس کی طرح ہی جنگجو وسرپھری، کسی کے عب میں نہ آنے والی نڈر لڑکی کھیل کا میدان ہویا گھر کا ماحول، وہ ایک دوسرے سے سمجھوتا نہ کرتے تھے۔
ویسے تو ان میں کانٹے کا مقابلہ رہتا ہی تھا مگر…… جب بات دادی کی ہوتی تھی تو پھر ایک زبردست جنگ ہوتی تھی کہ دونوں ہی دادی کو اپنی اور صرف اپنی جاگیر گردانتے تھے۔ حالانکہ دادی بڑی دیانت داری کے ساتھ دونوں کو اپنے بازوؤں می دبا کے یگانگت وبرابری کا درس دیتی تھیں۔ ان کے انداز می پیار بھری یکسانیت ہوتی تھی جس کو وہ تسلیم کرنے کو راضی نہ ہوتے تھے اور عموماً اس بات پر لڑائی چھڑ جاتی تھی، جب دادی کسی کی پیشانی پہلے چوم لیتی تھیں۔
طغرل قد میں پری سے لمبا ہونے کے باعث فائدہ اٹھالیا کرتا تھا جب بھی دادی پری کی پیشانی چومنا چاہتیں وہ بڑھ کر جھٹ اپنی پیشانی آگے کر دیا کرتا تھا اور اس بے ایمانی پر گھمسان کا رن پڑتا پھر پری غصے میں کسی جنگلی بلی کی مانند اس پر حملہ کر دیتی تو جواباً وہ بھی شدت سے اس کے بال کھینچ ڈالتا۔ دھکا دیتا تھا پھر کئی مرتبہ وہ ڈیڈی سے اس کی وجہ سے مار کھا چکا تھا۔
ڈانٹ تو اس کی اکثر ہی پڑا کرتی تھی کہ وہ اگر دادی، مما اور چچا کالاڈالا تھا تو وہ اس کے ڈیڈی کی ازحد لاڈلی تھی۔ اس کے ڈیڈی سب بچوں پر اس کو فوقیت دیتے تھے۔ ڈیڈی کی اس کو اتنی فکر بھی نہ تھی کہ ساری چاہتوں، الفتوں، محبتوں کا پیکر دادی جان تھیں اور وہ نہیں چاہتا تھا کہ دادی جان پری کو پیار کریں اور اس نے ان سے وعد ہ لیا تھا کہ وہ سب سے زیادہ پیار پری سے نہیں، اس سے کریں اور ایک دن دادی نے اسے چپکے سے بتایا تھا کہ وہ سب سے زیادہ پیار اس سے کرتی ہیں۔
پری سے بھی زیادہ……اور وہ اس دن بہت ہی خوش ہوا تھا مگر دادی سے اسے وعدہ کرنا پڑا تھا کہ وہ یہ بات کسی کو نہیں بتائے گا اور پری کو بالکل بھی نہیں…ورنہ وہ اس سے دوستی توڑ کر پوری کی پوری پری کی دادی بن جائیں گی اور ان کی یہ دھمکی اس کو خوفزدہ کر گئی تھی ورنہ کسی کو تو نہیں پری کو وہ ضرور بتاتا کہ دادی اس سے زیادہ اس سے پیار کرتی ہیں اور جواباً وہ روتی۔
اس کی غلافی آنکھوں سے گرتے آنسو اسے بڑی خوشی دیتے تھے۔ جب وہ یہاں سے گیا تو اسے دادی سے بچھڑنے کے دکھ کے ساتھ ساتھ یہ بھی دکھ تا کہ اب پری دادی پر قبضہ جمالے گی۔ دادی پوری کی پوری اس کی ہو جائیں گی۔ ان کا سارا پیار وہ حاصل کرلے گی۔ اس نے بہت ضد کی دادی کو ساتھ لے جانے کی ، مما ڈیڈی نے بھی کہا مگر دادی کسی طور اپنا گھر، اپنا ملک چھوڑنے کو تیارنہ ہوئی تھی۔
وہ خفا خفا سا یہاں سے گیا تھا۔ مگر وہاں جا کر دادی کی یاد نے ساری خفگی بھلا دی تھی۔ وہ ان کو باقاعدگی سے فون کرتا تھا…ان کی یاد سے زیادہ اسے یہ احساس مضطرب و مشتعل رکھتا تھا کہ پری خوب دادی کی محبت کے مزے لوٹ رہی ہے۔ عادلہ اسے ہر بات سے آگاہ رکھتی تھی۔ یہاں رہتے تھے تو ان کے درمیان لڑائیاں کرانے والی عادلہ ہی تھی، وہاں بھی وہ ہر بات سے اس کو آگاہ رکھتی تھی۔
تمام کزنز سے اس کی دوستی وقت گزرنے کے ساتھ مضبوط ہو گئی تھی، سب کی تصاویر اس کے پاس تھیں ماسوائے پری کے ……نہ ہی کبھی اس سے بات ہوئی تھی اور نہ ہی اسے کبھی خواہش محسوس ہوئی تھی۔ بقول عادلہ کے وہ بدتمیز، بد زبان اور بد اخلاق لڑکی تھی جس کو کئی طرح کے احساس کمتری لاحق تھے۔ بدلتے وقت اور عمر نے بھی اس پر کوئی اثر نہیں ڈالا تھا۔ وہ جانتا تھا وہ بچپن ہی سے ایسی تھی، گستاخ اور کسی کو خاطر میں نہ لانے والی…اب بھی وہ دودن گزرنے کے بعد بھی ملنے نہیں آتی تھی۔
مما تو از خود ہی اس سے ملنے چلی تھی تھیں اسے بھی کہا تھا مگر وہ سنی ان سنی کرکے بیٹھا رہا تھا۔ اسے کوئی شوق نہیں تھا اس سے ملنے کا۔
###
”توبہ ہے! آپ کی بہنیں گھر آجائی تو واپسی کا راستہ ہی بھول جاتی ہیں۔“ بھابی اور طغرل جب سے آئے ہیں گھر کا ماحول ہی بدل کر رہ گیا ہے۔ پہلے ان کی نازبرداریوں میں لگے رہو۔ پھر ان سے ملنے آنے والوں کی خاطر داریوں میں۔
”صباحت کاٹن کے نئے نکور پر نٹڈ تھری پیس سوٹ میں ملبوس تھیں، فیاض صاحب سے مخاطب ہوئی تھیں جو حسب عادت مطالعے میں مصروف تھے۔ عموماً وہ ان کی باتوں پر سنی ان سنی کر دیا کرتے تھے۔ مگر اس وقت انہوں نے جوان کے قریبی رشتوں کے متعلق جس نوعیت کی گفتگو کی تھی وہ ان کو برہم کرنے کے لیے کافی تھی۔ وہ ان رشتوں کو دل و جان سے چاہتے تھے۔
”میری بہنوں نے کون سے یہاں پڑا ؤڈال لیے ہیں جو آپ کو فکر لاحق ہو گئی ہے؟ چند گھنٹوں کے لیے آتی ہیں ہفتوں بعد……تم کو وہ بھی برداشت نہیں ہے…پھر اس معاملے میں میں آپ کی بھابی صاحبہ کی برداشت و حوصلے کو داددوں گا جو آپ اور آپ کی بہنوں کی ہر دوسرے دن آمد پر ماتھے پر شکن لائے بنا خندہ پیشا نی سے پیش آتی ہیں۔
”واہ! بہنوں کے معاملے میں آپ کی زبان کیسے کترکتر سروتے کی مانند چل رہی ہے و گرنہ منہ سیے بیٹھے رہتے ہیں۔“ وہ دل ہی دل میں جل اٹھی تھیں۔
”یہ دو غلاپن چھوڑ دو جو اللہ کو بالکل بھی پسند نہیں ہے۔“
”میں نے کون سا دو غلاپن کیا؟“ وہ مارے غصے کے سرخ ہو کر گویا ہوئیں۔
”بھابی بیگم اور طغرل کے سامنے آپ اور بچیاں ازخود ہی بچھی جاتی ہی، وہ لوگ تو باہر کے ملک میں وقت گزارنے کے باوجود بھی سادہ وبے تکلف ہیں۔
وہ نازبرداریا کروانے والے نہیں ہیں۔“ انہوں نے تیکھے انداز میں جواب دیا۔
””جب کوئی اپنوں سے دور غیروں میں رہتا ہے تو اپنوں کی قدر کرنی آجاتی ہے۔“
”تو پھر تو میرے حساب سے غیروں میں رہنا زیادہ سود مند ہے۔“
”اچھا…وہ کیوں بھلا؟“ وہ چڑ کر گویا ہوئیں۔
”اپنوں میں رہ کر جب حسد کرتے ہیں۔ ناراض رہتے ہیں، کینہ پالتے ہیں۔
ایک دوسرے کو نیچا دکھانے کی کوششوں میں لگے رہتے ہیں۔ اس کے بجائے اگر ہم ایک دوسرے سے پورے خلوص کے ساتھ محبت کرنے لگیں، رشتے اپنی اصل خوب صورتی کے ساتھ باہم مربوط ہو جائیں تو جدائی کی قربانیاں رائیگاں نہیں جائیں گی۔“
”آپ تو ایسی ہی باتیں کرتے ہیں گو یا خدانخواستہ آپس میں جنگیں لڑی جا رہی ہوں ہماری‘اور ہم ایک دوسرے کی شکلیں دیکھنے کے روادارنہ ہوں۔
”دوسرے لوگوں کے متعلق تو مجھے معلوم نہیں ہے مگر آپ کے بارے میں میں حلفیہ کہہ سکتا ہوں کہ میرے رشتے دار یہاں آکر اپنی شکلیں نہ دکھا جائیں تو آپ کبھی ان کے گھر جانے اور ان کی شکلیں دیکھنے کی روادارنہ ہوں۔“ فیاض صاحب بڑے ٹھنڈے لہجے میں طنز فرما رہے تھے اور صباحت ایسے شعلوں میں گھر گئی تھی جس کی آگ تو دکھائی نہ دے رہی تھی پر وہ بری طرح جھلس رہی تھی۔
”اچھا…! ابھی تو آپ مجھے آئے روز بھابی کے ہاں جانے کا طعنہ دے رہے تھے بلکہ میری ان بہنوں کو بھی گھسیٹ لیا تھا جو دل وجان سے آپ کی عزت کرتی ہیں اور اب …آپ یہ طعنہ دے رہے ہیں کہ میں کسی کے ہاں جانے کی روادار نہیں ہوں۔ منافقت میرے اندز ہے یا آپ کے طرز افکارمیں؟“
”میں اپنے میکے کی نہیں…آپ کے میکے کی بات کر رہا ہوں۔ اپنے میکے تو آپ سر کے بل چل کر جاتی ہیں، خواہ صبح وشام کیوں نہ جانا پڑے۔
”ارے مرد کا میکہ کہاں ہوتا ہے؟“ وہ غصہ بھول کر اچھے سے بولیں۔
”لڑکی کے رشتے داروں کو جب میکہ کہا جا سکتا ہے تو مرد کے رشتے داروں کو کیوں نہیں؟“
”بات کا بتنگڑ بنانا تو کوئی آپ سے سیکھے۔ نامعلوم کیا کیا الٹی سیدھی باتیں آپ سوچتے رہتے ہیں مرد کا میکہ…!“ وہ ہنس پڑی تھیں۔
###
وردہ کا اصرار ہر گزرتے دن کے ساتھ بڑھتا جا رہا تھا۔
سلمان اس سے ملنے کے لیے تڑپ رہا ہے، اس سے ملنے کے لیے بے چین ہے۔ وہ اس کے پیغامات کی ترسیل کا ذریعہ بنی ہوئی تھی اور رجاء کے دل کی حالت ابتری کا شکار ہو جایا کرتی تھی اور وہ پر کٹے پرندے کی مانند بسی محسوس کرنے لگتی تھی اور سنی کی یاد اس پر اداسی بن کر چھانے لگتی تھی۔ بے کلی بن کر اس کے دل کی دھڑکنوں میں اضطراب پیدا کرنے لگتی تھی۔
یہ کیسی محبت تھی؟
یہ کیسا جذبہ تھا؟
یہ کیسا احساس تھا؟
جو چند دنوں کا شناسا تھا مگر……صدیوں کی واقفیت محسوس ہونے لگتی تھی۔ اس سے ملنے کی چاہ دل میں ہمکنے لگی تھی۔ ایک طرف دل کے تقاضے تھے تو دوسری جانب ایک مسئلہ درپیش تھا۔ وہ تھیں سامنے والی پڑوسن کی پر اسرار سی حرکتیں تھیں۔ اس کے کمرے کے سامنے والی دیوار میں اوپری حصے میں شیشے کی کھڑکی تھی جس کے پٹ نہ تھے صرف سفید شیشہ لگا تھا کیوں کہ اس کا کمرا اس طرز پر تعمیر ہوا تھا کہ گھر کے آخری حصے میں تھا۔
اس وجہ سے وہاں دن میں بھی نیم اندھیرارہتا تھا اور روشنی اس شیشے والے حصے سے اندر آکر کمراروشن کر دیتی تھی۔ انہیں یہاں رہتے ہوئے برسوں گزرگئے تھے۔ پہلے دادا پھر اس کے ابو کی نماز وپر ہیز گاری، شرافت و نیک نامی کے باعث سب محلے کے لوگ ان کی بے حد عزت کرتے تھے۔ کسی کی جرأت نہ تھی کہ ان کے گھر کی طرف کوئی میلی نگاہ سے دیکھ سکے۔ اس سامنے والے دو منزلہ گھر میں بھی سینکڑوں کرائے دار آئے اور گئے مگر کسی نے بھی اس طرف کھلنے والی کھڑکی یا بالکونی استعمال نہ کی تھی۔
وہ عورت جو محلے کی اچھی نگاہ سے نہ دیکھی جا رہی تھی کہ جو جس قدر حسین تھی اتنا ہی مگر وہ اس کا کردار رہا تھا۔ محلے کی کوئی عورت اس سے دوستی کرنے کی خواباں نہ تھی تو مرد بھی مجبور اس لیے اس کو برداشت کررہے تھے کہ مالک مکان بنا اطلاع دیئے ملک سے باہر جا چکا تھااور اس کی آمد تک سب کو اس عورت کو برداشت کرنا تھا اور اس عورت کا اپنی ذات میں دلچسپی لینا اس کو فکر میں مبتلا کر گیا تھا۔
وہ اکثر بالکونی میں کھڑی ہو کر اس کے کمرے میں جھانگتی رہتی یا کھڑکی میں اسے گھوار کرتی تھی۔ اس کی نگاہیں اسے کوئی پیغام دیتی محسوس ہوتی تھیں۔ وہ پیغام کیا تھا…؟ اور وہ اس سے کیا چاہتی تھی؟ اس کے لیے سمجھنا ناممکن تھا۔ وردہ ابھی آئی تھی اور آتے ہی اس نے سنی کی باتیں شروع کر دی تھیں تب اس نے اپنی اس نئی پریشانی سے آگاہ کر کے مشورہ مانگا تھا۔ 

Chapters / Baab of Bheegi Palkon Par By Iqra Sagheer Ahmed

قسط نمبر 25

قسط نمبر 26

قسط نمبر 27

قسط نمبر 28

قسط نمبر 29

قسط نمبر 30

قسط نمبر 31

قسط نمبر 32

قسط نمبر 33

قسط نمبر 34

قسط نمبر 35

قسط نمبر 36

قسط نمبر 37

قسط نمبر 38

قسط نمبر 39

قسط نمبر 40

قسط نمبر 41

قسط نمبر 42

قسط نمبر 43

قسط نمبر 44

قسط نمبر 45

قسط نمبر 46

قسط نمبر 47

قسط نمبر 48

قسط نمبر 49

قسط نمبر 50

قسط نمبر 51

قسط نمبر 52

قسط نمبر 53

قسط نمبر 54

قسط نمبر 55

قسط نمبر 56

قسط نمبر 57

قسط نمبر 58

قسط نمبر 59

قسط نمبر 60

قسط نمبر 61

قسط نمبر 62

قسط نمبر 63

قسط نمبر 64

قسط نمبر 65

قسط نمبر 66

قسط نمبر 67

قسط نمبر 68

قسط نمبر 69

قسط نمبر 70

قسط نمبر 71

قسط نمبر 72

قسط نمبر 73

قسط نمبر 74

قسط نمبر 75

قسط نمبر 76

قسط نمبر 77

قسط نمبر 78

قسط نمبر 79

قسط نمبر 80

قسط نمبر 81

قسط نمبر 82

قسط نمبر 83

قسط نمبر 84

قسط نمبر 85

قسط نمبر 86

قسط نمبر 87

قسط نمبر 88

قسط نمبر 89

قسط نمبر 90

قسط نمبر 91

قسط نمبر 92

قسط نمبر 93

قسط نمبر 94

قسط نمبر 95

قسط نمبر 96

قسط نمبر 97

قسط نمبر 98

قسط نمبر 99

قسط نمبر 100

قسط نمبر 101

قسط نمبر 102

قسط نمبر 103

قسط نمبر 104

قسط نمبر 105

قسط نمبر 106

قسط نمبر 107

قسط نمبر 108

قسط نمبر 109

قسط نمبر 110

قسط نمبر 111

قسط نمبر 112

قسط نمبر 113

قسط نمبر 114

قسط نمبر 115

قسط نمبر 116

قسط نمبر 117

قسط نمبر 118

قسط نمبر 119

قسط نمبر 120

قسط نمبر 121

قسط نمبر 122

قسط نمبر 123

قسط نمبر 124

قسط نمبر 125

قسط نمبر 126

قسط نمبر 127

قسط نمبر 128

قسط نمبر 129

قسط نمبر 130

قسط نمبر 131

قسط نمبر 132

قسط نمبر 133

قسط نمبر 134

قسط نمبر 135

قسط نمبر 136

قسط نمبر 137

قسط نمبر 138

قسط نمبر 139

قسط نمبر 140

قسط نمبر 141

قسط نمبر 142

قسط نمبر 143

قسط نمبر 144

قسط نمبر 145

قسط نمبر 146

قسط نمبر 147

ذقسط نمبر 148

قسط نمبر 149

قسط نمبر 150

قسط نمبر 151

قسط نمبر 152

قسط نمبر 153

قسط نمبر 154

قسط نمبر 155

قسط نمبر 156

قسط نمبر 157

قسط نمبر 158

قسط نمبر 159

قسط نمبر 160

قسط نمبر 161

قسط نمبر 162

قسط نمبر 163

قسط نمبر 164

قسط نمبر 165

قسط نمبر 166

قسط نمبر 167

آخری قسط