Episode 3 - Kashmir Ka Almiya By Asrar Ahmed Raja

قسط نمبر 3 - کشمیر کا المیہ - اسرار احمد راجہ

 نمی دانم

 اسرار احمد راجہ سے ہماری آشنائی اور برسوں پر محیط ہمنوائی ہولناک زلزلے کی تباہی سے برآمدکارفرمائی کا خوش گوارنتیجہ ہے،پس ثابت ہوا کہ تخریب کے پہلو میں بھی ایک صورتِ تعمیر ہوتی ہے۔اس خوبرو،خندہ لب اورتازہ فکر نوجوان کو ریڈیو پاکستان کے اجڑئے گلستان میں مہکتے دیکھا تو ایک امید حد گماں عبور کرتے ہوئے شہر یقین میں مداخلت بے جا کی مرتکب ہوئی کہ یہ بیدار مغز ہنرمند اس تیرہ بخت ہنر کدے میں نئی صبح کی ضوفشاں کرن ثابت ہوگا جس کی ہر شاخ پر ایک سے بڑھ کر ایک” دانشور “بیٹھا اونگھ رہاہے، شایدقدرت اس ہنر کدے کو ظلمت کدہ رکھنا ہی منظور تھا کہ ہمارے بے حد اصرار کے باوجود اسرار ریڈیو کی اس ملازمت کے لات مار روانہ ہوا جسے ہما شما شدید خواہش کے باوجود فقط ایک ادھ د دلتی جھاڑ کے خاموشی کی چادر تان لیتے ہیں ۔

(جاری ہے)

انہی دنوں ایک نجی ٹیلی وژن کی پروگرام ڈائریکٹری خواہ مخواہ ہمارے گلے پڑ گئی ہم نے کھینچ تان کر اسرار کی گردن بھی اس میں برابرکرنا چاہی کہ بے ہنروں کے اس تا لاب میں ہمیں کسی شناور کی سخت طلب تھی لیکن اُس کی نگا ہ کی جولان گا ہ میں بے جہتوں کی یہ آماجگاہ نہیں سمائی چنانچہ ” رسیوں سے جکڑے اب نہیں ٹھہرے “کے مصداق وہ ہماری محبت کی رسی توڑ کسی نادیدہ منزل کی جانب گامزن ہوا۔
مدت بعد خبر گرم ہوئی کہ موصوف صحافت کی ڈور سے بندھے لاہور اور اسلام آباد کے درمیاں معلق ہیں ۔ اللہ رے صحافت کے میدان میں کودنا ہی مطلوب و مقصودِ مومن تھا تو ایم اے کی ڈگری کا تردد جھیلنا کیا ضروری تھا؟ اس تماشہ گا ہ میں باکثرت وہی شہ زور کسرت کرتے ہیں جو پڑھائی سے پاک اور پنجہ آزمائی میں طاق ہوتے ہیں پس راجہ جی پڑھے بغیر بھی بے تحاشہ لکھ کر راج کر سکتے تھے ۔
پھر چشم ِفلک نے دیکھا اور گوش ِملک نے سنا کہ ہمارا یہ یار طرہ دارصحافت کی تنگ نائے کے ساتھ اب نائے وطن کو تیاگ کر تارک الوطن ہو ا،اس کی افتاد طبع کو کون سی منزل مقصود تھی اس پہ ہم فقط یہ کہہ سکتے تھے۔ ” نمی دانم چہ منزل بود “۔بیچ میں کہیں یہ افواہ بھی عام ہوئی کہ اس تیز رو جادہ پیماء کے پیروں میں نکاح کی زنجیر پہنا کر شادی کے قید خانے میں مقید کر دیا گیا ،قفس بندی کی اس تقریب میں ہم شامل نہیں ہو پائے کہ بقلم خود بھی آوارگی کی دارپر مصلوب ہوئے شمالی کوہساروں پرسفری ز چگیاں سہہ رہے تھے ۔
خیر اُس کی شورش ِجنوں کے آ گے یہ اسیری بھی بند نہ باندھ پائی۔ 
 زنداں میں بھی شورش نہ گئی اپنے جنوں کی 
 اب سنگ مداواہے اس آشفتہ سری کا 
اسرا ر کی آشفتہ سری اور مضطرب طبیعت کسی ارفع منزل کی مخبری کر رہی تھی پھر ایک دن جب ہم حسب معمول آوراہ گردی کی لت میں مبتلا روہی کے دشت میں سیاحتی دہشت گردی میں ملوث تھے تواسرار راجہ نے بر طانیہ کے برف زاروں سے فون پہ اطلاع دی کہ وہ صاحب ِکتاب ہوا چاہتے ہیں گویا ہمارا یارِ غار المعروف راجہ اسرار آخر کار ایک اعلیٰ منزل کی معراج سے ہمکنار ہو ہی گیا ، یوں محسوس ہواجیسے تپتے صحراء میں یک دم برکھا رم جھم برسے اور پھول کھلاتی چلی جائے ۔
ہم ہنوزصحرا نوردی کا شکار تھے کہ اسرا راجہ کی کتاب کا مسودہ عمار راجہ ہمارے دفتر کی میز پر دھرتے یہ فرمائش کر گئے کہ ہم اپنی کور ذوقی کے بل بوتے پہ اِس سے جو اخذ کریں وہ صفحہ قرطاس پر بھی نقل کریں ،ہم پیشہ ور نقاد ہوتے تو وہیں ریگزاروں میں پڑے کتاب دیکھے بغیرکئی صفحات کا تبصرہ لکھ مارتے۔ کتاب کا موضوع بھی ایسا کہ اس پرہم کئی بارآ نکھ بند کر کے تبصرہ آرائی فرما بیٹھے تھے ، مسئلہ کشمیر پر انیس سو سنتالیس سے اب تک سیاست کاروں نے ایک ہی نوع کی ایسی بے محابہ تقریریں اور قلم کاروں نے ایک ہی طرز کی اتنی بے تحاشہ تحریر یں اُگلی ہیں کہ ہر کس وناکس کو منہ زبانی یاد ہو گئیں ہیں ، نوبت ایں جا رسید کے اب کشمیر کا ہر باشندہ اس موضوع پر دو گھنٹے کی تقریر دا غنے اور دو سو صفحات کی کتاب لکھنے کی صلاحیت پیدا کر چکا ہے جس پر ہم جیسا کم علم بھی گھنٹوں بلاتکان تبصرہ کر سکتا ہے۔
لیکن اسرار احمد راجہ کی کتاب ہاتھ آئی تو ہاتھوں کے طوطے اڑ گئے کہ اس نے موضوع پر اس مضبوطی سے ہاتھ ڈالاتھا کہ پڑھے بغیر تبصرے سے ہا تھاپائی ممکن نہیں تھی ، ورق گردانی کا آغاز ہوا تو طبع کی گرانی شاد مانی کی فراوانی سے اٹ گئی ،اسرار نے ایک روایت زدہ اورستم رسیدہ موضوع کے دریدہ بدن کو اپنے علمی تجرد اور تحقیقی ذوق کی ایسی دل آویز قباء پہنائی تھی کہ ہم جو اس حوالے سے کسی سیاسی شعبدہ گر کی تقریر کا ایک لفظ سننے اور کسی نقال مورخ کی کتاب کا ایک جملہ بھی پڑھنے کے روادار نہیں تھے اسرار احمد راجہ کی پوری کتاب پڑھنے کے لیے بقائمی حوش و حواس ِخمسہ با رضا و رغبت کمر بستہ ہو گئے ،ظاہر ہے اس معیار ی تحقیق و تخلیق کے لئے ہمیں ”پاکستان کے معیاری وقت کے مطابق“ اچھی خاصی مہلت درکارتھی جس کی ہمارے پاس ہمیشہ سے قلت رہی ہے ،پس اس کتاب کی اشاعت میں تاخیری حربوں کے جرم میں ہمیں پبلشر سمیت برابر کا شریک سمجھا جائے ۔
اسرار کی تحقیق کی گہرائی،تحریر کی گیرائی اور لہجے کی سچائی نے یہ کتا ب ہم سے کئی بار پڑھوائی ،یعنی کہ ہوئی تاخیر تو کچھ باعث تاخیر بھی تھا۔

Chapters / Baab of Kashmir Ka Almiya By Asrar Ahmed Raja