Episode 43 - Kashmir Ka Almiya By Asrar Ahmed Raja

قسط نمبر 43 - کشمیر کا المیہ - اسرار احمد راجہ

مجاہد اوّل بھٹو مخالفت میں جیل گئے تو ضیاء الحق، نوازشریف اور پرویز مشرف کی قربت سے فیض یاب بھی ہوئے۔ سردار سکندر حیات اور سردار عتیق پر خاندانی سیاست کا بوجھ پڑا تو سردار عتیق نے سکندر مخالف ٹولے کا سہارا لیا مگر مفاد پرست پورس کے ہاتھی بن کر مسلم کانفرنس کی تباہی کا باعث بن گئے۔ مسلم کانفرنس میں بھی کوئی ایسا لیڈر نہ بچا جسے عوام کا دکھ درد ہو او رریاستی معاملات درست کرنے کا حوصلہ ، ہمت اور تجربہ ہو۔
مسلم کانفرنس نے سردار عتیق کی قیادت میں پیپلز پارٹی کا روپ دھار لیا جس کی وجہ خود سردار عتیق کا دوغلہ پن اور مفاداتی سیاسی کردار ہے۔
سردار عتیق کے قریبی دوستوں میں پیپلز پارٹی کے وہ لوگ شامل ہیں جو بدکرداری، بداخلاقی اور بے حیائی کا زندہ ثبوت ہیں۔

(جاری ہے)

ٹن وزیروں اور مشیروں کا سردار عتیق سے گہرا تعلق ہے جسے عوام نے پسند نہیں کیا۔

بہت سے لوگوں کا خیال ہے کہ اگر سردار عتیق خود بدکردار ٹولے کا ساتھی ہے تو کیوں نہ اسی ٹولے میں شامل ہو کر بلیک لیبل کے مزے لیے جائیں۔
مرحوم مجاہد اوّل کی سیاست کا ایک پہلو صوفیانہ اور درویشانہ بھی تھا مگر اولاد کا مفاد اور سیاسی مستقبل ان کے تصوف کی راہ میں حائل ہوگیا۔ امام غزالی کے مطابق پیغمبروں کے بعد صوفیاء اور علمائے حق کی سیاست ہے۔
تیسرے درجے پر حکماء کی اور چوتھے درجے پر عام لوگوں کی سیاست ہے۔ اسلامی اصولوں کے معیار پر پرکھا جائے تو قائداعظم، علامہ اقبال، سید جلال الدین افغانی ، مولانا حسرت موہانی،مولانا محمد علی جوہر، مولانا ظفر علی خان، علامہ عنایت اللہ مشرقی، سید قطب شہید، حسن البنا، شاہ فیصل شہید، امام خمینی اور دور حاضر میں ماتیر محمد اور احمدی نثراد عام لوگوں میں شمار ہوتے ہیں۔
رسولوں، نبیوں، صوفیأ اور علمائے حق کی سیاست کبھی ناکام نہیں ہوتی۔ حکمأ اور علمائے دین سیاست کے اصول مرتب کرتے ہیں اور خود اقتدار کے خواہاں نہیں ہوتے۔ افلاطون، ارسطو، لاوٴزے، کنفیوشس، شاہ ولی اللہ، سید محمد ابن علی السنیوسی اور دیگر کا شمار اس زمرے میں آتا ہے۔ چانکیہ کوتیلہ، میکاؤلی اور کارل مارکس بھی حکمائے سیاست میں شمار ہیں جن کے فکرو فلسفے نے عالمگیر شہرت حاصل کی ۔
وہ حکمأ اور علمائے سیاست جن کا دین و مذہب اور انسانی اخلاقی اور روحانی اقدار سے کوئی رشتہ و تعلق نہیں وہ اسلامی نظریہ سیاست کی ضد ہیں جس سے عالم انسانیت کو کبھی کوئی فائدہ نہیں ہوا اور نہ ہی آئندہ زمانوں میں ان کے نظریات سے انسانیت کو کوئی فائدہ پہنچ سکتا ہے۔ کشمیر کے حوالے سے دیکھا جائے تو حضرت عبدالرحمن، بلبل شاہ، حضرت شاہ ہمدان، حضرت مولوی محمد امین صاحب کشمیری مُلّا طاہرغنی کاشمیری، حضرت قبلہ نور الدین اویسی، سید حسن شاہ پشاوری، حضرت مولانابرکت اللہ جھاگوی اور حضرت قبلہ سید عبدالشکور شاہ  کا شمار ان صوفیائے کرام اور علمائے حق میں ہوتا ہے جن کی نگاہ کیمیأ نے اپنے اپنے وقت میں کشمیر کی سیاست کا رخ بدلا اور لوگوں کے دلوں پر روحانیت کے گہرے نقوش چھوڑے۔
اولیأ اللہ کی سیاست کا الگ اور انوکھا مزاج ہے جسے سمجھنا آسان نہیں۔ عام لوگوں کا ذکر کیا جائے تو چوہدری غلام عباس، اللہ رکھا ساغر، راجہ محمد اکبر خان، چوہدری حمید اللہ، سردار محمد ابراہیم خان اور مرحوم کے ایچ خورشید کا سیاسی کرداراور اصول نمایاں ہیں۔
ابن خلدون اور امام غزالی  کی سیاست کی بنیاد الٰہی قوانین پر استوار ہے جس کا منبع و مخزن قرآن کریم ہے۔
قرآن کریم میں فرمان ہے کہ اے نبی ﷺانہیں کہہ دیں کہ میں نے ان ہی میں سے نبی اور رسول بھیجے جو ان کی اصلاح کریں۔ جس طرح نبی اور رسول انسانوں میں سے ہی پیدا ہوئے اسی طرح اولیائے کاملین ہر امت میں پیدا ہوئے جنہیں کتاب اللہ سے روحانی علم عطا ہوا۔ رسولوں، نبیوں، صوفیأ اور علمائے حق اولیائے کاملین کی سیاست کا مقصد انسان کی ظاہری اور باطنی اصلاح ہے تاکہ وہ ظاہری زندگی خدائی احکامات کی روشنی اور الٰہی قوانین اور اصولوں کے مطابق گزارے۔

Chapters / Baab of Kashmir Ka Almiya By Asrar Ahmed Raja