Episode 83 - Kashmir Ka Almiya By Asrar Ahmed Raja

قسط نمبر 83 - کشمیر کا المیہ - اسرار احمد راجہ

مغربی تہذیب کے خدوخال دیکھے جائیں تو تہذیب یا تہذیبوں کی معنی و مطالب کے مطابق یہ کوئی تہذیب ہے ہی نہیں۔ حقیقت میں یہ مختلف تہذیبوں، نظریات اور فکری سوچ کا مجموعہ ہے۔ قرآنی تاریخ کا مطالعہ کیا جائے تو اسلام پندرہ سو سال نہیں بلکہ لاکھوں سال پہلے تخلیق کائنات کے الٰہی حکم اور ارادے کی صورت میں نازل ہوا۔ حکمأ کے نزدیک سب سے پہلی پیدائش عقل کل یعنی نور محمدﷺ اور حضرت جبرائیل امین  کی ہوئی۔
انسانوں اور دیگر مخلوق میںآ پﷺ کی ذات مبارک ہی وہ اعلیٰ ترین ہستی ہے جنہیں معراج کی صورت میں قرب الٰہی حاصل ہوا۔ فرشتوں میں یہ اعزاز حضرت جبرائیل علیہ السلام کو حاصل ہے کہ ان کی رسائی سدرةالمنتہیٰ تک ہے۔ حکمأ کا کہنا ہے کہ اللہ کے حکم سے عقول عشرہ یعنی دس مقدس فرشتوں نے کائنات تخلیق کی اور پھر اللہ کی طرف سے سلامتی اور عدل کا حکم نازل ہوا۔

(جاری ہے)


جیسا کہ پہلے عرض کیا ہے کہ حضرت آدم پر چھ صحیفے نازل ہوئے جوا نسانی تہذیب ، تمدن، ثقافت، علم، اصلاح اور فلاح کا چارٹر اور صراط مستقیم پر چلنے کا ہدایت نامہ تھا۔انسانوں اور حیوانوں کے درمیان فرق و تفریق کے لئے حدود کا تعین ہوا تاکہ انسان صراط مستقیم پر چل کر فلاح پا سکے۔ سورة التین میں فرمایا کہ ہم نے انسان کو بہترین ساخت پر پیدا کیا اور پھر اسے الٹا پھیر کر سب سے نیچوں سے نیچ کر دیا۔
سید مودودی لکھتے ہیں کہ جب تم دنیا کے چھوٹے چھوٹے حاکموں سے عدل و انصاف کی امید رکھتے ہوتو کیا وہ ربّ جس نے تمہیں تخلیق کیا ایسا نہیں کرے گا۔ وہ سب حاکموں کا حاکم ہے اورسزا و جزا کا نظام بھی اُ سی کی تخلیق ہے۔ صراط مستقیم وہ راستہ ہے جس پر چلنے والے ہی الٰہی انعامات،رحمت، سلامتی اور عدل کے مستحق ہیں۔
شیخ الاسلام حضرت مولانا شبیر احمد عثمانی لکھتے ہیں کہ جن پر انعام کیا گیا اور وہ صراط مستقیم پر چلے ان میں نبی،رسول، صدیقین، شہدأ اور صالحین شامل ہیں۔
وہ لوگ جو گمراہ ہوئے ان میں ایک حلقہ وہ ہے جو عدم علم کی وجہ سے گمراہ ہوا اور دوسرے وہ ہیں جنہوں نے جان کر یہودونصاریٰ کی تقلید کی۔ فی احسن تقویم اور اسفل سافلین کی شرح میں لکھتے ہیں کہ اللہ نے انسان کو قویٰ و ا عضأ کے علاوہ ان گنت خوبیوں اور صلاحیتوں سے مزیّن کیا۔ اس کی رہنمائی کے لئے پیغمبر مبعوث کئیے اور الہامی کتابوں کا نزول ہوا۔
اسے قلم کے ذریعے علم سکھایا اور کائنات کی ہر چیز کو اس کے لیے مسخر کیا۔ اللہ کی ان نصیحتوں کے باوجود ایک گروہ علم سے دور ہوا اور دوسرا منکر ٹھہرا۔ ایک نے صراط مستقیم کا راستہ اختیار کیا اور دوسرا بے خبری میں یا پھر علم و شعور کے باوجود باغی ہوا اور درجہ انسانیت سے گر کر پستیوں میں چلا گیا۔ سورة الانعام میں ان لوگوں کا ذکر ہوا جو قرآنی آیات کو جھٹلاتے ہیں اور خدائی احکامات کا مذاق اڑاتے ہیں۔
حالانکہ یہ لوگ بظاہر علم بھی رکھتے ہیں اور دنیا کے معاملات میں بڑے با خبر اور دانشور ہیں مگر باوجود اس کے ان کی عقلوں پر کفر، شرک، تکبر، رعونت، علمّیت، مال و دولت، حکومت اور ہوس کا اندھیرا ہے۔ فرمان ربیّ ہے کہ (سوجس کو اللہ چاہتا ہے کہ ہدایت کرے تو اس کا سینہ کھول دیتا ہے کہ وہ اسلام قبول کرے اور جس کو چاہتا کہ گمراہ کرے کردیتا ہے اس کے سینے کو تنگ بلکہ نہایت تنگ گویا کہ وہ زور سے آسمان پر چڑھتا ہے۔
اسی طرح ڈالیگا اللہ عذاب کو ایمان نہ لانے والوں پر اور یہ ہے سیدھا راستہ تیرے ربّ کا)۔
سیدھے راستے پر چلنے والا ہمیشہ سرخرو ہوتا ہے اور دین و دنیا کے معاملات میں درستگی کا نام ایمان، عقیدہ اور تہذیب ہے۔ اگر کوئی شخص سیدھے راستے پر چلتا ہوا اپنے عقیدے پر قائم رہے، قوت ایمانی سے عدل و انصاف کا معیار برقرار رکھے، دوسروں کو سیدھے راستے پر چلنے کی دعوت دے، اپنے کردار و گفتار میں میانہ روی کو ملحوظ خاطر رکھے، شیریں سخن ہو اور انسانی ہمدردی کا جذبہ اس کے دل میں موجزن رہے تو ایسا انسان مہذب اور معتبر کہلانے کا حقدار ہے۔

Chapters / Baab of Kashmir Ka Almiya By Asrar Ahmed Raja