Episode 11 - Kashmir Ka Almiya By Asrar Ahmed Raja

قسط نمبر 11 - کشمیر کا المیہ - اسرار احمد راجہ

بلتی اور گلگتی لوگ انتہائی ذہین،سادہ دل اور قناعت پسند ہیں۔ یہ لوگ قانون کی پاسداری کرنیوالے اور سادہ زندگی گزارنے کی عادی ہیں۔وہ آسائیشوں کو قدرت کا تحفہ اور تکالیف کو گزر جانے والا لمحہ تصور کرتے ہیں۔ قبائلی روایات اور خاندانی وقار ان کی زندگیوں کا اہم حصہ ہیں۔ 
بلتستان اور گلگت کی کوئی داستان علی شیر انچن،ملکہ جوار خاتون اور راجہ گوہر امان کے ذکر کے بغیر مکمل نہیں ہوتی۔
علی شیر انچن بھی ابراہیم مقپون کی اولاد میں سے تھا۔ وہ بائیسویں اور دوسرے مسلمان حکمران شیرشاہ کاپڑپوتا تھا۔شکل و صورت، وجاہت اور وقار میں اپنے جداعلیٰ ابراہیم مقپون سے کسی طور کم نہ تھا۔ بلتستان کے لوک گیتوں میں علی شیرانچن کا ذکر ایک ایسے ہیرو کے طورپر کیا جاتا ہے جس کی مردانگی، وجاہت، دلیری اور جرأت ضرب المثال تھی۔

(جاری ہے)

علی شیر ایک ایسا دیوتا صفت انسان تھا جس پر عورتیں تو کیا پریاں بھی فدا تھیں۔

بلتستان کی ہر لڑکی کی آج بھی خواہش ہوتی ہے کہ اس کا جیون ساتھی علی شیر جیسی کم از کم ایک خوبی سے مزین ہو۔بلتی لڑکیوں نے کسی عاشق مزاج کو ٹھکرانا ہو کہہ دیتی ہیں کہ کیا تم اپنے آپ کو علی شیر سمجھتے ہو۔ بلتی کلچر، شعرو ادب پر علی شیر انچن کی اتنی گہری چھاپ ہے جسے سن کر لگتا ہے کہ شاید یہ لوگ دل ہی دل میں اس کی پوجا بھی کرتے ہوں۔
علی شیر کا گلگت، بلتستان، یٰسین اور چترال میں وہی مقام ہے جو کشمیر کے سلطان شہاب الدین کا تھا۔علامہ اقبال نے سلطان شہاب الدین کے متعلق لکھا ہے کہ۔
عمر ہاگل رخت بر بست وکشاد
خاکِ ما دیگر شہاب الدین نزاد
 



بہاریں آتی اور جاتی رہیں، پھولوں نے کئی لباس پہنے او راتار دیے مگر ہماری زمین پر دوسرا شہاب الدین پیدا نہیں ہوا۔
سلطان شہاب الدین اور سلطان زین العابدین نے قبل از اسلام کے دو نامور کشمیری حکمرانوں للتادت اور اونتی و رمن کی طرح بلتستان ،گلگت اور چترال کے عوام پر کوئی ظلم نہ ڈھایا اور نہ ہی انہیں ہجرت پر مجبور کیا۔للتادت نے تبت، بدخشاں اور قنوج تک کے علاقوں کو فتح کیا اور پڑوسی ملک چین سے دوستانہ تعلقات قائم کئے۔ دردستان اور بلورستان کے راجگان ان سلاطین کے احسان مند تھے۔
دردوں اور بلوروں کو بوقت ضرورت سلاطین کشمیر کی طرف سے ہر طرح کی معاونت حاصل تھی۔ تبت سے بدخشاں تک پھیلی کشمیری سرحد اور تجارتی راستوں کی حفاظت ان کے ذمے تھی جس کے بدلے میں ان کی اندرونی خودمختاری کا احترام کیا جاتا تھا۔اس باہمی رشتے اور احترام کی بڑی وجہ شاہی خاندانوں کے درمیان رشتہ داریاں تھیں۔انہی خونی رشتوں کی وجہ سے کشمیری تاجر، ہنرمند اور دستکار شمالی علاقوں میںآ تے اور اپنے فن کے انمٹ نقوش چھوڑتے رہے جو آج بھی گلگت، بلتستان اور چترال کی تہذیب و تمدن کا خزانہ ہے۔
گلگت اور بلتستان کے بائیس حکمران خاندانوں کا تعلق کشمیری نسل سے تھا جبکہ ستر سے زیادہ تبتی نسل کے حکمران جنہوں نے سارے کشمیر، نصف ہندوستان اور شمالی افغانستان بشمول گلگت، بلتستان اور چترال پر کئی صدیوں تک حکومت کی، سلاطین کشمیر ہی کہلاتے تھے۔
مشہور کشمیری مورخ خواجہ سیف الدین پنڈت کی مرتب کردہ تاریخ میں اسلامی دور سے پہلے 162کشمیری حکمرانوں کا ذکر ہے جنہوں نے چار سو چوالیس سال تک سارے کشمیر بشمول شمالی علاقوں اور تبت پر حکمرانی کی۔
اشوک اعظم نے اکاون سال تک ان ہی علاقوں پر حکومت کی جس کے دور حکمرانی میں سارا کشمیر اور تبت عظیم ہندی سلطنت کا حصہ رہا۔
بعض مورخین نے اپنی سی کوشش میں شمالی علاقہ جات کو کشمیر سے الگ اکائیوں میں تقسیم کرنے کی کوشش کی اور بدقسمتی سے آج بھی ایک ایسا طبقہ موجود ہے جو مسئلہ کشمیر کو گلگت بلتستان سے الگ کرنے اور مقدمہ کشمیر کو کمزور کرنے کی کوشش میں تاریخ کے من گھڑت، فروعی اور فرسودہ حوالے دے کر بھارت نوازی کا حق ادا کرتا ہے۔
اس سلسلے کی پہلی کوشش میں جنرل ضیأ الحق نے گلگت و بلتستان کے سکولوں اور سرکاری اداروں سے آزادکشمیر کا پرچم اتروا دیا جو کشمیر سے آنے والی ان ہواوٴں سے لہراتا تھا جس میں کشمیری، گلگتی اور بلتی شہیدوں کے خون کی خوشبو شامل تھی۔
یہ ضیأالحق ہی تھا جس کے دور میں شمالی علاقوں میں شیعہ سنی فسادات کی ابتدأ ہوئی جس کا زیادہ تر نقصان سنی العقیدہ کشمیریوں کو ہوا۔ ضیأالحق نے ہی آزاد کشمیر کا ترانہ پڑھنے پر قدغن لگائی تاکہ شمالی علاقوں میں بسنے والوں کا کشمیر سے روحانی رشتہ ختم ہوجائے۔

Chapters / Baab of Kashmir Ka Almiya By Asrar Ahmed Raja