Episode 100 - Kashmir Ka Almiya By Asrar Ahmed Raja

قسط نمبر 100 - کشمیر کا المیہ - اسرار احمد راجہ

قائداعظم کی انصاف پسندی، شرعی احکامات کی پیروی اور حقوق العباد کی ادائیگی کا اندازہ ان کی آخری وصیت سے لگایا جاسکتا ہے۔ خواجہ رضی حیدر کی کتاب۔ Retti Jinnah: The story, told and untoldمیں قائداعظم کی آخری وصیّت، مطابق 30مئی 1939ء بمقام بمبئی خصوصی اہمیت کی حامل ہے۔ آپ نے اپنی تمام تر منقولہ و غیر منقولہ جائیداد اپنی بہنوں محترمہ فاطمہ جناح، مریم جناح، شیریں جناح، رحمت جناح، بیٹی دینا جناح اور بھائی احمد علی جناح کے نام ان کی ضروریات اور مستقبل کی مشکلات کے پیش نظر اس طرح تقسیم کی کہ کوئی بھی حصہ دار محتاجی اور مجبوری کا سامنا نہ کرے۔
آپ نے اپنی بہن فاطمہ جناح اور بیٹی کے لئے جائیداد کا زیادہ حصہ چھوڑا چونکہ فاطمہ جناح غیر شادی شدہ اور قائد کے سیاسی اثاثے کی مالک تھیں اور اسی لحاظ سے ان کے اخراجات بھی اضافی تھے۔

(جاری ہے)

اسی کتاب میں محترمہ رتی جناح کے زیورات کی ایک طویل فہرست موجود ہے۔ قائد نے اسی حساب سے محترمہ دینا جناح کا حصہ مقرر کیا چونکہ ماں کی دولت کی حقدار ان کی بیٹی ہی تھی۔


علاوہ اس کے آپ نے اپنی جائیداد کا بڑا حصہ ان مدارس اور تعلیمی اداروں کے نام منتقل کیا جہاں مسلمان طلبأ علم حاصل کرتے تھے۔ قائدعظم نہ کبھی علی گڑھ میں زیر تعلیم رہے۔نہ بمبئی یونیورسٹی اور اسلامیہ کالج پشاور سے تعلق رہا مگر ان اداروں کی اہمیت اور مسلمان طلبأ کی ضروریات کے پیش نظر آپ نے ان اداروں کی بھی مالی معاونت کی۔
اسی طرح محترمہ فاطمہ جناح نے آزاد کشمیر میں خواتین کی تعلیم کے لئے گراں قدر کوششیں کیں مگر ہمیشہ مایوس ہوئیں۔ لکھا ہے کہ عورتوں کی تعلیم کے سلسلہ میں محترمہ نے صدر ریاست بیرسٹر ابراہیم خان سے متعدد بار رابطہ کیا مگر موصوف خواتین کی تعلیم میں زیادہ دلچسپی نہیں رکھتے تھے اور ان کی ترجیحات مختلف تھیں۔ محترمہ کی کوششوں سے دھیر کوٹ آزاد کشمیر میں خواتین کے لئے ایک ہائی سکول قائم ہوا جس کے تمامتر اخراجات آپ نے خود ادا کیے۔
آپ نے شمالی علاقوں اور مقبوضہ کشمیر سے ہجرت کرنیوالی خواتین سے بھی رابطہ قائم رکھا اور جس قدر ممکن ہوا ان کی مالی معاونت کی تاکہ پڑھ لکھ کر یہ خواتین معاشرے میں اچھا مقام بنا سکیں۔
محترمہ ثریا خورشید لکھتی ہیں کہ مادرملت سے ہر روز درجنوں لوگ ملنے آتے جن میں سیاستدان، سماجی کارکن، سول سوسائٹی کے نمائندے اور مختلف پیشوں سے منسلک خواتین و حضرات شامل ہوتے۔
بسا اوقات آپ عام لوگوں کو خود دعوت دے کر بلاتیں اور ان کی باتیں غور سے سنتیں۔ آپ معاشرے میں رواداری اور باہمی اتفاق و اتحاد کی قائل تھیں اور عورتوں کو معاشرتی آداب اور اتحاد کی اہم کڑی خیال کرتی تھی۔
آپ نے فرمایا کہ عورت غریب ہو یا امیر، تعلیم یافتہ ہو یا ان پڑھ، بحیثیت عورت گھر اور معاشرے کو سنوارنے میں وہ ایک اہم اور اٹل کردار ہے۔
ہر عورت اپنے گھر سے لے کر محلے اور گلی کے سب گھروں کے حالات سے واقف ہوتی ہے۔ اگر صرف ایک عورت اپنا گھر مثالی انداز سے چلائے تو ساری گلی اور محلے کی عورتیں اس کی تقلید کریں گی۔ عورتوں میں سیکھنے، سنورنے اور نمایاں ہونے کی صلاحیت مردوں سے زیادہ ہوتی ہے۔ اگر مرد کو صاف ستھرا گھر،بنی سنوری بیوی، صاف بچے اور اچھا کھانا نصیب ہو تو وہ کوئی لمحہ ضائع کئے بغیر گھر کی طرف کھچا چلا آتا ہے۔
ثریا خورشیدلکھتی ہیں کہ محترمہ ایک دن میرے کمرے میں آئیں اور کمرے کا ماحول دیکھ کر خوش ہوئیں۔ کہنے لگیں کہ میں نے خورشید کی دیکھ بھال کے لئے الگ نوکر کا انتظام کر رکھا تھا مگر میں نے اس کا کمرہ اس قدر صاف اور سلیقے سے ترتیب دیا ہوا کبھی نہ دیکھا۔ تمہارے آنے سے میں خورشید اور ان کے رہن سہن میں واضح تبدیلی دیکھ رہی ہوں۔ ایک بیوی کو اسی طرح گھر اور خاوند کا خیال رکھنا چاہیے۔
گلگت سے تعلق رکھنے والی یاسمین میر نے بتایا کہ پاکستان بنا تو میری عمر آٹھ سال تھی۔ میں اپنی والدہ اور دیگر کشمیری خواتین کے ہمراہ کئی بار محترمہ کے ہاں گئی۔ محترمہ کشمیری، بلتی اور گلگتی خواتین کو اکٹھے مدعو کرتیں۔ محترمہ کا چہرہ اس قدر نورانی تھا کہ بچے خاموشی سے انہیں دیکھتے رہتے اور عورتیں ان کی گفتگو میں محورہتیں۔ محترمہ کو کشمیر کی ساری تاریخ ازبر تھی۔ وہ اکثر کہتی کہ قائداعظم کو کشمیر سے خصوصی لگاوٴ تھا مگر مفاد پرست سیاستدانوں نے قائد کی بات سنی ان سنی کردی اور انگریز افسروں کی مرضی و منشأ سے کشمیر بھارت کے حوالے کر دیا۔

Chapters / Baab of Kashmir Ka Almiya By Asrar Ahmed Raja