Episode 14 - Kashmir Ka Almiya By Asrar Ahmed Raja

قسط نمبر 14 - کشمیر کا المیہ - اسرار احمد راجہ

مسئلہ کشمیر کو مسئلہ تقدیر بنانے والے دیگر بریگیڈوں میں کشمیر کونسل، وزارت امور کشمیر ، کشمیر کمیٹی اور وزارت خارجہ ہیں جن میں رابطے اور منصوبہ بندی کا فقدان ہے۔پونچھ میں تعینات ہلاکو بریگیڈ اور غلام محمد خان کے سدھن بریگیڈ کے درمیانی علاقوں میں کبھی کبھی پٹرولنگ تو ہوتی تھی مگر اسلام آباد میں مقیم ان بریگیڈوں کے درمیان ایسا بھی کوئی اہتمام نہیں ہے۔
پونچھ کا طویل محاصرہ کرنے والے پانچ بریگیڈوں کی طرح مسئلہ کشمیر کا گھیراوٴ کرنے والے پانچ بریگیڈوں کی اپنی اپنی منصوبہ بندی ہے جس میں سرفہرست عیش و عشرت اور کھابہ خوری ہے۔ پاکستان میں حکومت بدلتے ہی پاکستان کی کشمیر پالیسی بھی بدل جاتی ہے۔ ہر حکومت کی اوّلین کوشش آزاد کشمیر میں اپنی من پسند حکومت کا قیام ہوتا ہے ۔

(جاری ہے)

ظاہر ہے کہ اس حکومت سے سیاسی جماعتوں کے نمائندے اور کارندے بھرپور فائدہ اٹھاتے ہیں۔

اگر کسی کو ان فوائد کا علم نہ ہوتو وہ مولانا فضل الرحمن، محترمہ فریال تالپور، جناب ظفر الحق، محترم سعد رفیق، حامد میر، مشتاق منہاس، چوہدری ریاض، چوہدری مجید اور دیگر معاون چوہدریوں اور سرداروں سے پوچھ سکتا ہے۔یوں تو جناب سردار عتیق الرحمن جیسا نابغہ روزگار ماہر کشمیریات بھی ہمہ وقت دستیاب ہے مگر چوہدری مجید کا تھنک ٹینک اپنی مثال آپ ہے۔
آزادکشمیر اور پاکستان کے سیاسی ٹھیکیداروں کو مسئلہ کشمیر سے زیادہ کشمیر ہاوٴسنگ سکیم، زکوٰة فنڈ، جنگلات اور آزاد منش آزاد کشمیر کے وزیروں، مشیروں اور سرکاری اہلکاروں کی عالیشان رہائش گاہوں میں دلچسپی ہے۔حال ہی میں پیپلز پارٹی کے اہم رہنما بیرسٹر اعتزاز احسن نے اپنے ٹیلی ویژن انٹرویوز میں کئی بار کہا کہ اگر کسی ڈی آئی جی کے بیٹے کے پاس ڈیفنس لاہور میں دوپلاٹ ہوں تو نیب کے قانون کے مطابق ڈی آئی جی کو فوراً نوکری سے برطرف کرکے اس کے خلاف قانونی کارروائی ہوگی۔
جناب اعتزاز احسن نے جان کر ڈیفنس لاہور کا نام لیا چونکہ وہ جانتے ہیں کہ بیوروکریسی ڈیفنس میں نہیں بلکہ بحریہ ٹاوٴن اور دیگر ہاوٴسنگ سکیموں کے علاوہ بیرون ملک انویسٹ کرتی ہے جہاں نیب تو کیا اقوام متحدہ کا قانون بھی نہیں چلتا۔ آزاد کشمیر کی بیوروکریسی البتہ اسلام آباد میں بڑے گھروں کی شوقین ہے جہاں پٹواریوں اور تھانیداروں سے لے کر بڑے افسروں کی عالیشان کوٹھیاں کسی سے ڈھکی چھپی نہیں۔
یہ سب مسئلہ کشمیر کی برکت سے ہے ورنہ مشتاق منہاس جیسا نامور صحافی، دانشور اور ماہر امور کشمیریات کبھی کشمیر ہاوسنگ سکیم کا سربراہ نہ بنتا اور نہ ہی آزادکشمیر اسمبلی کی سیٹ اور وزارت کا حقدار ٹھہرتا۔
اسلام آباد کے وسیع رقبہ پر پھیلی کشمیر ہاوٴسنگ سکیم سونے کے انڈے دینے والی مرغی ہے جس کے انڈے پاکستان میں ہی نہیں بیرون ملک بھی فروخت ہوتے ہیں۔
ادارہ ترقیات میرپور جسے ایم ڈی اے کہا جاتا ہے بھی سونے کے انڈے دینے والی مرغی ہے۔ اس مرغی کے فوائد بیرسٹر سلطان محمود اور چوہدری مجید کے علاوہ چیئرمین ایم ڈی اے سے بہتر کوئی بیان نہیں کرسکتا۔ جناح ٹاوٴن اور نیومیرپور سٹی جیسے منصوبے کس طرح کرپشنلائیز ہوئے اور کس کس نے نوٹوں کو ڈالروں اور پاوٴنڈوں میں تبدیل کرکے بوریاں بیرون ملک بھجوائیں کسی پاکستانی سرکاری ادارے بشمول وزارت امور کشمیر کو اس کی طرف دیکھنے کی جرأت نہ ہوئی۔
وزارت عظمیٰ کے بوجھ سے فارغ ہوکرجناب چوہدری مجید نے نون لیگ آزادکشمیر کی حکومت کو للکارتے ہوئے اعلان کیا کہ اگر کسی میں ہمت ہے تو مجھ سے حساب کرلے۔ جیالوں نے چوہدری صاحب کے اس اعلان کو جٹ دا کھڑاک اور شیر کی للکار سے تشبیہ دی مگر نون لیگ میں سے کسی پرانے بوڑھے کانفرنسیے نے کھنگورا بھی نہ مارا۔
میں نے چندنامور کانفرنسیوں اور لیگیوں سے پوچھا تو فرمانے لگے کہ یہ سب میشاق جمہوریت کا نتیجہ ہے ورنہ ہم کبھی اتنے گئے گزرے بھی نہ تھے۔
کیا کریں معاملہ بڑی سرکار کا ہے۔ میاں صاحب پہلے ہی چوہدری مجید کو بڑا بھائی قرار دے چکے ہیں۔ آزاد کشمیر کے سیاستدانوں نے کرپشن برائے کشمیر کی اصطلاح بھی گھڑ رکھی ہے۔ کچھ لوگوں نے اس نئی سیاسی اصطلاح پر اعتراض کیا تو مستند سیاستدانوں نے کہا کہ اگر سردار عتیق ملٹری ڈیموکریسی جیسی اصطلاح گھڑ سکتے ہیں تو کرپشن برائے کشمیر کیوں نہیں ہوسکتی۔
آزادکشمیر کا بجٹ اتنا نہیں کہ جمہوری حکومتوں کے وزیروں،مشیروں، نمائندوں، درندوں ، پرندوں اور سرکاری کارندوں کے پیٹ بھرے جاسکیں۔ اسمبلی ممبران پچاس کروڑ لگا کر اسمبلیوں میں آتے ہیں۔ اگر سوکروڑ نہ کمائیں تو سیاسی دکانیں ہی بند ہوجائیں۔ آزادکشمیر کی سیاست کے بلیک لیبل،پجیرو اور انٹرکولر کلچر کو بھی تو زندہ رکھنا ہے۔ کشمیر کانفرنس، سیمینار، لیکچر اور بیرون ملک دورے اس کے علاوہ ہیں۔
ان سب لوازمات اور خرافات کے لئے پیسے کی ضرورت پوری کرنے کے لئے کرپشن کرنا کوئی جرم نہیں۔ چوہدری مجید کا نعرہ بے معنی نہیں۔ اس میں بھی کوئی راز ہے جسے میثاق جمہوریت کا کوئی ماہر ہی جان سکتا ہے۔ 
ولّی کاشمیری کہتے ہیں کہ آزادکشمیر ایک ایسا وجود ہے جسے ہر وہ بیماری لاحق ہے جس کے جراثیم پاکستانی قوم، قیادت اور ریاست کے وجود کو نظریاتی، تہذیبی، اخلاقی اور روحانی قوت سے محروم کر رہے ہیں۔
جس طرح پاکستان کمزور ہو رہا ہے اسی طرح آزاد کشمیر کا وجود بھی کمزوری کی طرف مائل ہے۔ بقول مجاہد اوّل مرحوم کے،جب بڑا جہاز ڈوبتا ہے تو اردگرد موجود کشتیاں بھی گرداب میں آکر ڈوب جاتی ہیں۔ نواز شریف، زرداری اور ان کے حواری پاکستان ڈبونے کی پوری کوشش میں ہیں۔ علمائے حق کا کہنا ہے کہ جس طرح پاکستان کا وجود پذیر ہونا ایک معجزہ ہے اسی طرح اس کی حفاظت کا بندوبست بھی ہوگا مگر انتہائی بدترین حالات کا سامنا بھی کرنا پڑیگا۔
جس طرح کشمیر کا مسئلہ المیے میں بدل چکا ہے اسی طرح پاکستان مختلف حادثات کا سامنا کرے گا اور پھر ممکن ہے کہ قائداعظم  کی طرح کوئی مرد حق اس کی حفاظت کے لئے میدان میں اترے۔
نہیں ہے نا اُمید اقبال اپنی کشتِ ویراں سے
ذرا نم ہو تو یہ مٹی بڑی ذرخیز ہے ساقی
(اقبال)

Chapters / Baab of Kashmir Ka Almiya By Asrar Ahmed Raja