Episode 91 - Kashmir Ka Almiya By Asrar Ahmed Raja

قسط نمبر 91 - کشمیر کا المیہ - اسرار احمد راجہ

گاندھی اور محمد علی جناح کی سیاسی جدوجہد کا بھی کوئی موازنہ نہیں۔ گاندھی کی انڈین نیشنل کانگرس کی بنیاد خود انگریزوں نے رکھی اور اس کی آبیاری کے لئے وسائل اور سیاسی ریکروٹمنٹ کا بھی انتظام کیا۔ اس کے بر عکس مسلم لیگ کی بنیاد رکھنے والوں کے پیش نظر مسلمانوں کی بد حالی، معاشرتی مسائل، سیاسی بیگانگی، تنگدستی اور حکومتی چیرہ دسیتاں تھیں۔
اگرچہ قائداعظم نے اپنی سیاسی زندگی کا آغاز کانگرس کے پلیٹ فارم سے کیا مگر جلد ہی وہ گاندھیانہ آمریت اور کانگرس کی حکومت نواز پالیسیوں سے دلبرداشتہ ہو کر کانگرس سے الگ ہوگے۔ ایک دور ایسا بھی تھا جب قائداعظم ہندو مسلم اتحاد اور آزاد ہندوستان کے سب سے بڑے داعی تھے۔ہندو سیاستدانوں کی تنگ نظری، مسلم دشمنی اور حکومت نوازی نے قائداعظم کی سوچ بدل دی۔

(جاری ہے)

قائد نے ڈرائنگ روم سیاست کو خیر باد کہا اور میدان عمل میں اترنے کا فیصلہ کیا۔ قدم قدم پر رکاوٹوں، بے اعتنائیوں اور بدعہدیوں اور مخالفتوں کے پہاڑ ا ایک نحیف اور جسمانی لحاظ سے کمزور مگر قوت ارادی سے بھرپور شخص کے سامنے آئے اور ریت کے ذروں کی طرح بکھر گئے۔ قائداعظم عزم صمیم اور اعلیٰ ظرفی کی مثال بن کر اُبھرے اور آنے والی نسلوں کے لئے جہد وجہد مسلسل اور عزم و استقلال کی روشن مثال بن گئے۔
 
قائداعظم نے ایک ایسے پاکستان کی بنیاد رکھی جہاں ایک مثالی اخلاقی،دینی اور فلاحی معاشرے کا قیام ممکن ہوسکے اور حقیقی،الٰہی قوانین اور اصولوں سے مزیّن تہذیب کا اجرأ ہو۔وہ ملائیت، مغربیت، فرسودہ روایات اور جاہلانہ رسومات سے پاک اسلامی معاشرے کا قیام چاہتے تھے۔ قائداعظم کے نزدیک ایک فرد کی آزادی، اخلاقی اور تہذیبی معیار ساری قوم کا آئینہ دار ہے۔
فرد،آزادی، اخلاق اور تہذیب ایک ہی جسم کے مختلف اجزأ ہیں جس کے بغیر فرد، معاشرہ اور ریاست مکمل نہیں ہوسکتی۔ ایک آزاد شخص کے لئے ضروری ہے کہ مہذب اور با اخلاق ہو۔ وہ الٰہی قوانین کے دائرے میں رہنے کا پابند ہو ورنہ انسانی اور حیوانی معاشرے میں کوئی فرق نہیں رہتا۔ آج جو قومیں آزاد ہیں وہ نہ تو مکمل مہذب، بااخلاق اور الٰہی قوانین کے تابع فرمان ہیں۔
یہی وجہ ہے کہ سائنسی ترقی کے عروج کے باوجود وہ ان دیکھی قوتوں کے غلبے سے خوفزدہ دیگر اقوام پر عرصہ حیات تنگ کئے ہوئے ہیں۔ بقول پی ہنگٹن کے، آئی۔ایم۔ ایف، ورلڈ بینک اور کسی حد تک یو۔این۔او۔ جیسے ادارے استحصالی قوتوں کے ہاتھ مضبوط کرنے اور دیگر اقوام کی آزادی پر غلبہ حاصل کرنے کے لئے بطور ہتھیار استعمال ہو رہے ہیں۔
مغربی معاشرہ اور تہذیب نہ تو مہذب ہے اور نہ ہی اخلاقی اقدارکی حامل ہے۔
بی ہنگٹن اور دوسرے محققین اس بات پر نازاں ہیں کہ اہل مغرب نے سب سے پہلے مذہب سے نجات حاصل کی اور پھر ایسا معاشرہ قائم کیا جہاں پیدا ہونے والے بچوں کی اکثریت کو اپنے باپ کا ہی پتہ نہیں۔ اگر ہے بھی تو ایک عمر کے بعد ماں باپ سے تعلق رکھنا ضروری نہیں۔
یہی سوال حضرت ولّی کاشمیری سے کیا گیا تو آپ نے فرمایا کہ جس طرح خیروشر دونظریے ہیں ایسے ہی اصلی اور مصنوعی تہذیب کے دو الگ دھارے ہیں۔
مصنوعی تہذیب میں بھی خیر کا کچھ عنصر اور حقیقی تہذیب کے کچھ اجزأ شامل ہوتے ہیں جس کی قوت کے سہارے مصنوعی تہذیب تب تک قائم رہتی ہیں جب تک یہ عنصر و اجزأ مکمل طورپر زائل نہ ہوجائیں یا پھر زمین کے کسی حصے پر اسلامی معاشرے کا قیام اور حقیقی تہذیب کا اجزأ نہ ہو۔
امام غزالی کا یہ قول پہلے بھی نقل ہوچکا ہے کہ اگر ربّ ِکائنات سارا قرآن اٹھا لے اور صرف ایک لفظ اعدلو(عدل کرو) باقی رہنے دے تو تب بھی کائنات کا نظام چلتا رہے گا۔
آج ظلم و بربریت کرنے والی اقوام اور کمزور ملکوں اور قوموں کا استحصال کرنے والے معاشروں میں عدل و انصاف، انسانی حقوق کا احترام اور معاشرتی مساوات کسی حد تک مثالی ہے۔یہ اور بات ہے کہ وہ دیگر اقوام پر عرصہ حیات تنگ کرنے اور انہیں اپنی غلامی میں رکھنے لے لئے لگاتار منصوبہ بندی کرتے ہیں جس کی ذمہ دار خود محکوم، مجبور اور غلامانہ ذہنیت کی حامل اقوام اور ان کے قائدین ہیں۔

Chapters / Baab of Kashmir Ka Almiya By Asrar Ahmed Raja