Episode 22 - Kashmir Ka Almiya By Asrar Ahmed Raja

قسط نمبر 22 - کشمیر کا المیہ - اسرار احمد راجہ

فرمان الہٰی ہے کہ اے نبی ﷺ یہ لوگ آپ ﷺ سے روح کے متعلق پوچھتے ہیں ۔کہہ دوکہ روح امر ربیّ ہے مگر تمہیں بہت تھوڑا علم دیا گیا ہے ۔ اسی طرح سورة کہف میں فرمان ہے کہ اگر سارے سمندر سیاہی بن جائیں تو تم اللہ کی باتیں لکھو تو تمہیں ایسے اور سمندر بھی میسرہوں تو اللہ کی باتیں ختم نہ ہونگی ۔ یعنی اسرار الہٰی انسانی عقل و بیان سے باہر ہیں۔ لاؤز ے بھی اسی بات کی تصدیق کرتاہے اور اپنی بے بسی کا اظہار کرتا ہے ۔
لاؤزے کو جتنا علم عطا ہوا وہ اسے نیکی اور خیر کا علم کہتا ہے اور نیکی کا راستہ اختیار کرنے کی تلقین کرتا ہے۔ لاؤز ے کے اقوال زندگی کے تمام تر پہلوؤں کا احاطہ کرتے ہیں۔ وہ روز مرہ زندگی سے لیکر امور سلطنت چلانے ، رعایا اور حاکم کے تعلق اور دیگر شعبوں میں نیکی پر مبنی عدل کے نظام کی تلقین کرتا ہے۔

(جاری ہے)

 

لاؤزے خیالی ریاست (یوٹوپیا) کا قائل نہیں ۔
وہ سچائی ، دانش ، حقیقت اور طاقت کا مبلغ ہے ۔ قرآن کریم کے بیان کے مطابق بنی اسرائیل نے کئی صدیوں تک سرداری نظام حکومت کا تجربہ کیا۔ وہ ایک بادشاہ اور ریاستی نظام سے باغی ہوئے تو طرح طرح کی مصیبتوں اور حادثات کا شکار ہو گے ۔ آخر تنگ آکر وہ قت کے پیغمبر حضر ت شموئیل  کے پاس گئے اور عرض کی کہ کسی ایسے شخص کو بادشاہ بنا دیا جائے جو ہمیں ان مصیبتوں سے نجات دلائے ۔
مرسل حق نے حضرت طالوت  کو بادشاہ نامزد کیا تو اسرائیلی سرداروں نے اعتراض کیا ۔ اُن کا کہنا تھا کہ طالوت عام آدمی ہیں ۔وہ نہ تو جاگیر دار ہیں نہ کسی بڑے قبیلے کے سردار یا پیغمبر ہیں۔ آپ  نے فرمایا کہ بادشاہ یا حاکم کے لیے قبیلے کا سردار ، جاگیردار ، دولت مند یا پیغمبر ہونا ضروری نہیں۔ بادشاہ یا حاکم کے لیے ضروری ہے کہ وہ نیک و پار سا ہو ، عقلمند اور طاقتو ر ہو ۔
طالوت  میں یہ خوبیاں موجود ہیں۔ پیغمبر  کے بیان پر بنی اسرائیل متفق ہوئے تو حضرت طالوت  کی رہنمائی میں تین سو تیرہ جانبازوں نے دنیا کے طاقتور بادشاہ جالو ت کو شکست دی اور جالوت حضرت داؤد کے ہاتھو ں قتل ہوا ۔ حضرت داؤد ، حضرت طالوت  کی فوج میں کمسن سپاہی تھے جنکا قصہ بھی قرآن کریم میں بیان ہوا ہے۔ 
موازنہ کیا جائے تو لاؤز ے کا حکمران بھی ان ہی خوبیوں سے مزین ہے۔
اسے نیکی کا مجسمہ ، پارسا، عادل ، عوام دوست اور صاحب علم ہونا چاہیے۔ جس قوم کو ایسا حکمران میسر نہ ہو وہ کبھی سرخرو نہیں ہوسکتی۔ 
لاؤز ے کی موت کے بعد تقریباً تین سو قبل مسیح میں عظیم چینی دانشور ،محقق اور مصنف کنفیوشس پیدا ہوا۔ کنفیوشس نے لاؤز ے کے اقوال جمع کیے اور انہیں کتابی شکل میں عوام الناس تک پہنچایا ۔ کنفیوشس اس بات کا معترف ہے کہ صدیوں بعد جن علماء ،شعرا ء اور حکما ء سے یہ علمی خزانہ دستیاب ہوا وہ اپنے دور کے بہترین اور سچے انسان تھے مگر پھر بھی اس بات کا احتمال ہے کہ شاید لاؤز ے کے اصل الفاظ بدل گئے ہوں اور حکما ء نے ان الفاظ کی تشریح میں اپنے خیالات ، اعتقاد اور مذہبی رسومات کو بھی بروئے کار لایا ہو ۔
کنفیوشس کہتا ہے نیکی ، سچائی ، عدل اور مساوات کا منبع و مخرن خالق کائنات ہے۔ یہ وہ ہی ہستی ہے جسکا ذکر لاؤز ے نے کالے پردے کے پیچھے رہنے والے، ہر لمحے ہر جگہ موجود ہونے والے کا کیا ہے۔ ابن خلدون اور امام غزالی  کے فکر و فلسفہ کا لاؤزے سے موازنہ کیا جائے تو نہ صرف خیالات و افکار میں مماثلت ہے بلکہ فکر و نظر کا نقطہ آغاز و اختتام بھی ایک ہی ہے۔
 
لاؤز ے کے افکار کا مبلغ کنفیوشس ہے۔ کنفیوشس نے لاؤزے کے فکری اثاثے کی تشریح کی اور وقت اور حالات کے مطابق نہ صرف عوام بلکہ خواص کو بھی نیکی ، عدل و مساوات اور سادگی کا درس دیا ۔ لاؤزے کی طرح کنفیوشس نے بھی بیان سادہ ، مدلل اور بامعنی رکھا۔ وہ حاکم کو محض حکم جاری کرنیوالا دیوتا نہیں بلکہ ایک با عمل عالم اور عام آدمی کی صحبت میں رہنے والا انسان سمجھتا ہے۔
کنفیوشس کے مطابق قوانین کی بھر مار قوانین کے نفاذ سے انحراف کے مترادف ہے۔ وہ ایسے قانون کی وکالت کرتا ہے جو ہموار ، سادہ اور قابل عمل ہوں ۔ کنفیوشس کہتا ہے کہ بھیڑیوں کی نسل ختم کرنے سے بھیڑیں محفوظ نہیں ہوتیں۔ ضروری ہے کہ گلہ بان کو بھیڑوں کی حفاظت کا طریقہ سمجھایا جائے تاکہ بھیڑیے جنگلوں تک ہی محدود رہیں۔ اگر جنگلوں میں بھیڑیوں اور شیروں کی بہتات ہوگی تو چور، ڈاکو اور ریاست کے دشمن وہاں پناہ نہیں لینگے اور نہ ہی لوگ جنگلات کا صفایا کر سکیں گے ۔
اُسکے نزدیک زمین کا حسن جنگلوں ، پہاڑوں ، دریاؤں ، باغوں ، کھیتوں اور انسانوں سے ہے۔ زمین کا حسن توازن اورمساوات پر مبنی ہے جسے ہر حال میں برقرار رکھا جائے۔ کنفیوشس علم سیکھنے اور سکھانے کو اوّلیت دیتا ہے۔ اسی طرح ابن خلدون اور امام غزالی بھی ظاہری اور باطنی علوم کی افادیت پر زور دیتے ہیں ۔ دونوں کے نزدیک علم ہی انسان کو حیوان سے افضل اور الگ مخلوق ثابت کر تاہے ۔
وگرنہ انسان بھی حیوانات کی طرح ہی ایک مخلوق ہے۔ خدا نے انسان کو علم سے میزّن کیا اور اسے اشرف المخلوقات کا شرف نصیب ہوا ۔ 
میکاؤلی صرف علم حرب کا مبلغ ہے۔ اس کے نزدیک امیر سلطنت کا مقصد سوائے جنگ ، اُس کے نظام اور ترتیب کے کچھ نہیں ہونا چاہیے۔ وہ کہتا ہے کہ جو بادشاہ رفاہ عامہ کے کام کرتے ہیں وہ اپنی حکومت گنوا بیٹھے ہیں۔ میکاؤلی فلاحی ریاست کا دشمن ہے۔
وہ عوام کو علوم تک رسائی کا حق نہیں دیتا ۔ میکاؤلی حکمران کو روباہ صفت ، وعدہ خلاف اور مہیب ہونے کی نصیحت کرتا ہے۔ وہ کہتا ہے کہ اگر حکمران وعدے کا ایفا نہ کر سکے تو اسے قانونی حیلے بہانے اختیار کر کے عوام کا دل بہلانے کاہنر آنا چاہیے ورنہ وہ ناکام ہو کر حاکمیت کا حق کھو دیگا۔ وہ مثال میں سکندر طاؤس کو پیش کرتا ہے جو بد عہدی میں بے مثال تھا۔ 

Chapters / Baab of Kashmir Ka Almiya By Asrar Ahmed Raja