Episode 5 - Kashmir Ka Almiya By Asrar Ahmed Raja

قسط نمبر 5 - کشمیر کا المیہ - اسرار احمد راجہ

بسم اللہ الرحمٰن الرحیم

 اسرار احمد راجہ نے اپنی تین سو بیس صفحات پر مشتمل کتاب کو پڑھنے والوں کے لئے شروع سے آخر تک بہت عمدہ، دلچسپ اور متاثر کن انداز میں پیش کیا ہے ۔ narrative کا بیک وقت اسلامی تاریخ، مغرب خصوصاً برطانوی نو آبادیاتی مسلط کردہ نظام کے اثرات اور اسکی باقیات کانہ صرف پاکستان بلکہ پوری مسلم دنیا کو ہنوز مغلوب رکھنا اور پاکستان کی کشمیر پالیسی کی شدید کمزوریوں کی نشاندہی کرنا، کشمیریوں کا فکری انتشار، قول و فعل میں تضادات اور آزاد کشمیر وگلگت بلتستان میں ابن الوقت، حاشیہ بردار سیاسی کلچر، غیر جمہوری اور طفیلی حکومتی نظام جیسے اہم موضوعات کو یکسو رکھنا اسرار احمد راجہ کی کتاب کا اہم پہلو ہے۔

(جاری ہے)

 مصنف اپنی کتاب میں کشمیر کی تاریخ کے اسلامی عہد سمیت، تمام ادوار کو نہایت اپنائیت اور فرزند وطن، یعنی son of soil کے جذبے سے سرشار انداز میں پیش کرتے ہیں۔ اس ضمن میں مصنف نے آزاد جموں کشمیر کے حکومتی نظام کوبھرپور دلائل کی روشنی میں تعمیری تنقید کا نشانہ بنایا ہے اور اس امر پر گہرے دکھ کا اظہار کیا ہے کہ کرپٹ نظام کی وجہ سے محکموں میں کلیدی عہدوں پر نااہل لوگوں کی بھرتی نے پورے سسٹم کو اوپر سے نیچے تک مفلوج کر رکھاہے۔
 شخصی اورقومی زوال کا تذکرہ کرتے ہوئے مصنف اس ظالمانہ نظام کا ذمہ دار نااہل افسر شاہی سے زیادہ بے حس حکمرانوں کو ٹھہراتے ہیں اور انہیں ایک بے حس معاشرے کو پروان چڑھانے میں قوم کے ارفع و اعلیٰ مقاصد اور مفادات سے ہٹ کر اقدامات اٹھانے اور آزاد جموں کشمیر میں نا انصافی اور تعمیر و ترقی کے فقدان کا ذمہ دار قرار دیتے ہیں۔
مصنف نے اس بے حس نظام کا ذمہ دار پاکستانی حکومتوں اور سیاسی جماعتوں کے ساتھ ساتھ پاکستانی ریاست کے آقا اور غلام کے رویے کوبھی ٹھہرایا ہے۔
کہتے ہیں کہ پاکستان کو کشمیر(یعنی جموں کشمیر) سے زیادہ آزاد کشمیر اور گلگت بلتستان کی فکر ہے ۔ کتاب کے صفحہ 232 پر لکھتے ہیں کہ "آزادکشمیر میں غنڈہ راج قائم ہے اور پاکستانی سیاسی پارٹیاں اپنے اپنے مجرم ذہین اور کرپٹ عناصر کے ہاتھوں آزادکشمیر کے عوام کا استحصال کرتی ہیں۔ آزاد حکومت محض ایک تھانہ اور پٹوار خانہ ہے۔صدر ریاست اور وزیر اعظم کی علامتی حیثیت ہے ۔
عبوری آئین نمائشی اور حکومتی نظام پاکستانی سیاسی جماعتوں کی خواہش کا نام ہے۔"
نوجوان مصنف تاریخ کشمیر کا تفصیلی احاطہ کرتے ہیں اورجہاں راجہ گوند ، للتہ دتیہ ،اونتی ورمن ،سلطان زین العابدین بڈھ شاہ اورسلطان شہاب الدین کی عظیم سلطنت کے زوال کا تذکرہ ہے وہاں آج کے کشمیری حکمرانوں کے متعلق دلیرانہ انداز میں موازنہ کیا ہے اور کشمیری قوم کی پستی کے عظیم اندرونی سانحات پرایک واضح اور گہری پشیمانی کو کتاب میں نمایاں مرکزی نکتہ کے طور پر پیش کیا ہے۔
کشمیریوں کے حق اور حقوق کے حوالے سے پاکستان کے سیاستدانوں کے علاوہ دانشور طبقے سے لیکر ذرائع ابلاغ کے ذمہ داران و مالکان کی بے حسی اور عدم دلچسپی پر بے باکی سے قلم اٹھایا ہے۔ مصنف کا یہ کہنا ہے کہ پاکستان کے نامور شعراء کو دنیا بھر کے مسائل اور مظالم کاتو" دائمی بخار" رہا لیکن کشمیر کہیں ان کے شعور کا محور نہ بنا۔
 پیپلز پارٹی کے مرکزی رہنما اور پاکستان کے نامور وکیل اعتزاز احسن کی کتاب The Indus Sagaکاحوالہ دیتے ہوئے اسرار احمد راجہ لکھتے ہیں کہ" اعتزاز احسن بھول گے کہ جس سندھ ساگر کے ارد گرد انہوں نے اپنی کتاب لکھی وہ دریا کشمیر سے بہتا ہوا پاکستان کے میدانوں کو سیراب کرتا ہے اور کسی دور میں یہ سارا خطہ زمین عظیم سلطنت کا حصہ تھا۔
آزاد کشمیر کے حکمرانوں پر بھرپور تنقید کرتے ہوئے مصنف نے انہیں لاپرواہ اور قوم کے مفادات کے برعکس چلنے والا کمزور اور ابن الوقت سیاسی طبقہ قرار دیا اورشواہد کی روشنی میں نہایت دلیرانہ انداز میں ان حکمرانوں کی حیثیت اور اصلیت پڑھنے والوں کے سا منے کتاب کی شکل میں پیش کی ہے۔ اسرار احمد راجہ لکھتے ہیں کہ اگر آزاد کشمیر کے حکمران اسلام آباد کے حکمرانوں کے عاشق ہیں یعنی( حاشیہ بردار) تو مقبوضہ کشمیر والے سیاستدان دلی کے حکمران طبقے کے عاشق یعنی زر خریدغلام ہیں ۔
یہ کہ دونوں طرف آزادی پسندوں پرغیروں نے ہی نہیں بلکہ اپنوں نے بھی ظلم کاپنجہ گاڑھ رکھا ہے ۔مصنف کا ماننا ہے کہ آزادکشمیر اور مقبوضہ کشمیر ناموں کی حد تک تو آزاد اور غلام ہیں مگر حقیقت میں دونوں کی اہمیت یکساں ہے۔ اسرار احمد راجہ لکھتے ہیں کہ دیگر اسلامی ممالک کی طرح پاکستانی اور کشمیری اِعدلو یعنی عدل کرو (کے فرمان الہی) سے بغاوت کرچکے ہیں اور احسن تقویم کے رتبے سے گر کر اسفل سافلین کے گڑھے میں گر چکے ہیں۔ 

Chapters / Baab of Kashmir Ka Almiya By Asrar Ahmed Raja