Episode 89 - Kashmir Ka Almiya By Asrar Ahmed Raja

قسط نمبر 89 - کشمیر کا المیہ - اسرار احمد راجہ

پاکستان کیسے معرض وجود میں آیا؟ یہ کوئی خفیہ کہانی نہیں مگر جب قومیں اپنا ماضی بھول جانے کی عادی ہوجائیں اور لیڈر انہیں بے حسی کے نشے میں مبتلا کر دیں تو ستر سال ستر صدیوں میں بدل جاتے ہیں۔ پاکستانی دانشوروں اور دانشمندوں کااسی میں فائدہ ہے کہ وہ بانی پاکستان قائداعظم ، مفکر اسلام حضرت علامہ اقبال ، نظریہ پاکستان، نظریہ اسلام اور تہذیب اسلامی کو اس قدر متنازع بنا دیں کہ موجودہ اور آنے والی پاکستانی نسلیں قائداعظم، علامہ اقبال، اسلام اور نظریہ پاکستان کو بھول کر نام نہاد مغربی اور ہندو تہذیب کو اپنانے پر فخر محسوس کریں۔
نام نہاد دانشوروں ا ور سیاستدانوں کے گٹھ جوڑنے نظریہ پاکستان اور اسلامی تہذیب کے خلاف آغاز سے ہی اختلاف کی بنیاد رکھی مگر کسی نہ کسی طرح انہیں مکمل کامیابی نہ مل سکی۔

(جاری ہے)

نام نہاد جمہوری اور فوجی حکومتوں کا سب سے بڑا مسئلہ نظریہ پاکستان، اسلام اور اسلامی تہذیب رہا جسے شیطانی نظریات کی حامل مادی قوتوں اور نام نہاد دانشوروں نے ترقی اور خوشحالی کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ قرار دے کر انہیں مسترد کرنے یا پھر ان میں ترامیم کرنے پر زور دیا۔


پہلے بھی عرض کیا ہے مولانا حسرت موہانی وقت لیے بغیر قائداعظم کی رہائش گاہ پر تشریف لائے اور انہیں مبارک باد دی۔ قائد نے پوچھا کس بات کی مبارک ہے۔مولانا نے فرمایا آپ کامیاب ہوگئے ہیں۔ہادی برحق، نبی آخر الزمانﷺ نے مجھے خواب میں بشارت دی ہے کہ پاکستان کے وجود پذیر ہونے کا فیصلہ ہوگیا ہے۔ یہ سن کر قائداعظم خاموش رہے۔
حسرت موہانی فرماتے ہیں کہ میں دیکھ رہا تھاکہ قائداعظم  مسلسل خلا میں گھور رہے تھے اور آنکھوں سے آنسو جاری تھے۔ میں قائد کو اسی حالت میں چھوڑ کر چلا آیا۔
علامہ محمد اسد لکھتے ہیں کہ مشرق بعید کی سیاحت کی غرض سے ہندوستان پہنچا تو دلی میں مختصر قیام کے دوران علامہ اقبال کا پیغام ملا۔ ملاقات کے لئے حاضر ہوا تو فرمایا کہاں کا قصد ہے؟ عرض کیا مشرق بعید کے حالات پر جامع رپورٹ کی تیاری کے لئے جرمن اخبار نے مشن پر روانہ کیا ہے۔
علامہ نے فرمایا اس سے بہتر کام یہ ہے کہ تحریک پاکستان کے لے دلی میں قائم مسلم لیگ کا دفتر سنبھال کر کام شروع کر دو۔ علامہ اسد لکھتے ہیں کہ یہ ایسا دور تھا جب قیام پاکستان کا دور دور تک کوئی شائبہ نہ تھا۔ ہندو اور انگریز اپنی نجی محفلوں میں لفظ پاکستان کا مذاق اڑاتے تھے اور کوئی بڑا سیاسی لیڈر اسے سنجیدگی سے نہ لیتا تھا۔ میں نے علامہ اقبال سے اس بات کا ذکر کیا تو فرمانے لگے کہ قیام پاکستان کا فیصلہ ہوچکا ہے اور یہ حقیقت جلد ہی سب پر آشکارہ ہونے والی ہے۔
چوہدری غلام عباس مرحوم اپنی تصنیف کشمکش میں لکھتے ہیں کہ میں نے قائداعظم سے سوال کیا کہ ہر شخص کی موت کا وقت متعین ہے۔ آپ ایک عظیم مقصد کے لئے تنہا کام کر رہے ہیں۔ اگر آپ کو کچھ ہو جاتا ہے تو یہ کام کون کرے گا؟ آخر کیا وجہ ہے کہ آپ نے اپنا جانشین مقرر نہیں کیا۔ چوہدری صاحب لکھتے ہیں کہ مجھے یقین تھا کہ قائداعظم کا جواب سخت ہوگا اور شاید وہ ناراض بھی ہوں۔
اس سے قبل میں نے ایسا ہی سوال نواب بہادر یار جنگ کے متعلق کیا تھا تو آپ پہلے ناراض ہوئے اور پھر اس کی وضاحت پیش کی۔ مگر اس بار ایسا نہ ہوا۔ آپ نے سنجیدگی اور کسی حد تک رنجیدگی سے مسلم لیگی رہنماوٴں کے نام لے کر ان کے سیاسی کردار،تحریک پاکستان سے وابستگی، انگریز حکمرانوں اور کانگرس سے تعلقات، باہمی رقابتوں اور تن آسانیوں کا مفصل ذکر کیا۔
آپ نے فرمایا، چوہدری صاحب آپ خود فیصلہ کریں کہ ان میں سے کس کو جانشین مقرر کیا جائے۔ چوہدری صاحب فرماتے ہیں کہ میں نے پوچھا کہ پھر مسلم لیگ کیا ہے؟ قائد نے جواب دیا کہ مسلم لیگ میری بہن فاطمہ، میرا ٹائیپسٹ اور میں خود ہوں۔ یہی وہ دور تھا جب علامہ شبیر احمد عثمانی اور قائداعظم کے درمیان طویل ملاقاتوں کا سلسلہ شروع ہوا۔ علامہ شبیر احمد عثمانی نے قائد کو قرآن کریم کی ظاہری اور باطنی حقیقتوں سے روشناس کروایا۔
علمائے حق، اولیائے کاملین کی توجہ کا ہی اثر تھاکہ ایک تنہا اور بیمار شخص مرد آہن بن گیا۔ برطانوی حکومت، کانگرس، مولانا آزاد، سرحدی گاندھی، عبدالصمد اچکزئی، اکابرین دیوبند، پنجاب اور سندھ کے سوشلسٹوں، یونین نسٹوں، پاکستان مخالف جاگیرداروں سمیت پڑوسی مسلمان ملک افغانستان کے حکمرانوں اور کشمیری نیشنلسٹوں کا قائداعظم نے تن تنہا اور انتہائی صبرواستقلال سے مقابلہ کیا۔
علامہ اقبال کا خواب چھ سال کی مدت میں حقیقت بن کر سامنے آگیا اور دنیا کے نقشے پر ایک اسلامی نظریاتی ملک کا وجود قائم ہوگیا۔ 
ایس کے موجمدار بیرسٹر ایٹ لأ ایڈووکیٹ پٹنہ ہائی کورٹ و سپریم کورٹ آف انڈیا کی تصنیف "جناح اور گاندھی" ایک دلچسپ تحریر ہے۔ آپ نے اپنی تحریر میں بیرسٹر محمد علی جناح کے سیاسی ویژن کو پرکھتے ہوئے انہیں مشکلات کا مقابلہ کرنے والا ہیرو قرار دیا ہے۔
وہ لکھتے ہیں کہ قائداعظم حقیقت شناس اور گاندھی جی منکر حقائق تھے۔ جتنی مشکلات کا سامنا قائداعظم کو تھا اس کے مقابلے میں گاندھی جی کا کردار نمائشی تھا۔ قائداعظم خواب کو حقیقت میں بدل رہے تھے اور گاندھی جی اپنی ذات کے گرداب میں پھنسے ہوئے تھے۔ گاندھی جی کا فلسفہ اور سیاست سب سے پہلے سبھاش چندر بوس اور سی آر داس کے سامنے ڈھیر ہوگیا۔ گاندھی کی بے بسی دیکھ کر حکومت نے سبھاش چندر بوس کو نقص امن کے ضابطہ کے تحت گرفتار کرکے برما جیل میں قید کر دیا اور سی آر داس بیماری کی وجہ سے فوت ہوگئے۔ گاندھی نے سکھ کا سانس لیا ہی تھا کہ 1927ء میں سبھاش جیل سے رہا ہوگئے اور جواہر لال نہرو روس کے طویل دورے کے بعد وطن لوٹ آئے۔

Chapters / Baab of Kashmir Ka Almiya By Asrar Ahmed Raja