Episode 52 - Kashmir Ka Almiya By Asrar Ahmed Raja

قسط نمبر 52 - کشمیر کا المیہ - اسرار احمد راجہ

تاریخ کشمیر کے اوراق کشمیری قوم کی عظمت کے گواہ ہیں۔ کشمیری قدیم ترین انسانی تہذیب کے وارثین میں شمار ہوتے ہیں۔ ظہور اسلام سے پہلے بھی وہ ایک مہذب، باجرأت اور اعلیٰ ترین انسانی، ادبی، روحانی اور اخلاقی اقدارکے ا مین تھے۔ اسلام نے ان شاندار صلاحیتوں کے وارثین کو نئی قوت بخشی اور کشمیر روحانیت کا مرکز بن گیا۔
للتہ دتیہ، اونتی ورمن، سلطان زین العابدین اور سلطان شہاب الدین کی عظیم سلطنت فرقہ واریت کی بھینٹ چڑھ گئی۔
چک خاندان کی 32سالہ حکمرانی میں ریاست کا اندرونی نظام بگاڑ اور خلفشار کی نذر ہوگیا۔ چک خاندان کے باہمی اختلافات کے علاوہ کلیدی عہدوں پر نا اہل چکوں کو مسلط کیا گیا اور اہل لوگوں سے حکومتی عہدے چھین لیے گئے۔

(جاری ہے)

سنی اکثریت پر طرح طرح کی پابندیاں عائد کی گئیں اور انہیں شیعہ اقلیت کے تابع فرمان رہنے پر مجبور کیا گیا۔ صنعتوں پر ٹیکسوں کی بھرمار ہوئی تو ہنرمندوں اور کاشتکاروں نے ترک وطن کا سلسلہ شروع کر دیا۔

یوسف شاہ چک کی بدانتظامی اور نا اہلی کا ہرگز یہ مطلب نہیں کہ سارے چک حکمران اور سارے شیعہ علمأ اور خاندان اس بیماری میں مبتلا تھے۔ کچھ شیعہ علمأ اور دانشوروں نے حالات کو سنبھالنے کی کوشش کی مگر بادشاہ کے مصاحبین اور سرکاری عہدیداروں نے مشکلات میں اضافہ کردیا۔ یوسف شاہ چک کی ملکہ حبہ خاتون کی لاکھ کوششوں کے باوجود بادشاہ نے امور سلطنت پر توجہ نہ دی تو تنگ آکر سنی علمأ کا وفد مغل بادشاہ سے ملا اور اسے کشمیر پر حملہ آور ہونے کی دعوت دی۔
بہت سے مورخین کا خیال ہے کہ کشمیر ی علمأ کا وفد دہلی پہنچتے ہی میر قاسم کی قیادت میں مغلیہ لشکر کشمیر پر چڑھ آیا اور فتح کا جھنڈا لہرادیا۔ایسا ہر گز نہیں اور نہ ہی سارے چک حکمران وطن دشمن، فرقہ پرست اور عوام کش تھے۔ غازی چک کی حکمرانی جموں، بھمبر، گلگت بلتستان، چترال ہزارہ جات تک تھی۔ گکھڑوں کے حکمران کمال گکھڑ کے غازی شاہ سے اچھے تعلقات تھے اور کمال گکھڑ کی بیٹی غازی شاہ چک کے نکاح میں تھی۔
غازی چک کے خلاف اس کے بھائیوں نے بغاوت کی اور مغل بادشاہ ہمایوں کی مدد سے کشمیر پر حملہ کیا۔ ہمایوں کے گکھڑوں کے ساتھ بھی اچھے تعلقات تھے جس کی بنا پر کمال گکھڑ نے مغل فوج کا ساتھ دیا اور کشمیر پر حملہ آور ہوا۔ غازی چک نے جم کر لڑائی کی اور گکھڑوں اور مغلوں کی مشترکہ فوج کو شکست دی۔
1557ء میں مرزا قرأ بیگ بہادر کشمیر پر حملہ آور ہوا۔
مغلوں اور کشمیریوں کا بہرام گلہ کے مقام پر آمنا سامنا ہوا تو دو روزہ خونریز جنگ کے بعد مغل پسپائی پر مجبور ہوگئے۔ غازی چک نے شاندار طریق حکمرانی اپنا یا اور ہر میدان میں اپنے دشمنوں کو شکست دی۔ آخری عمر میں غازی چک بیماریوں کی وجہ سے کمزور ہوگیا اور بادشاہت اپنے بھائی حسین چک کے حوالے کردی۔ حسین چک کا سات سالہ دور فتنوں اور فرقہ ورانہ فسادات کا دور رہا۔
حسین چک کی بداعمالیوں کی وجہ سے علی شاہ چک نے اسے معزول کرکے عنان حکومت سنبھال لی۔ علی شاہ چک نے عوام کے زخموں پر مرہم رکھا اور فرقہ واریت کا خاتمہ کردیا۔ وہ علمأ اور فقرأ کے ہاں غلاموں کی طرح حاضر ہوتا اور ان کا بے حد احترام کرتا۔ حضرت شیخ حمزہ اور شیخ ہردی بابا ریشی کی خدمت میں پیادہ ننگے پاوٴں حاضری دیتا۔ علی چک کے دور میں بھی مغلوں نے مہم جوئی کی مگر سنگ پورہ کے مقام پر شکست کھا کر بھاگ گئے۔
یوسف شاہ چک کی بداعمالیوں کے نتیجے میں کشمیریوں کو بے حد نقصان ہوا۔ غربت اور تنگدستی نے عوام کا جینا محال کردیا۔ بیجا ٹیکسوں کی بھرمار اور بدانتظامی کی وجہ سے حالات بگڑتے ہی چلے گئے مگر شاہی خانوادے نے اس طرف دھیان نہ دیا۔ یوسف شاہ چک دوبارہ معزول ہوا مگر پھر بھی طبیعت میں بدلاوٴ نہ آیا۔

Chapters / Baab of Kashmir Ka Almiya By Asrar Ahmed Raja