Episode 82 - Kashmir Ka Almiya By Asrar Ahmed Raja

قسط نمبر 82 - کشمیر کا المیہ - اسرار احمد راجہ

وٹنگٹن سرد جنگ کے بعد ہونے والی جنگوں اورا حیائے اسلام کی مثالوں سے خائف ہے کہ آنے والے دور میں اسلامی انتہا پسندی ساری دنیا کو اپنی لپیٹ میں لے کر اسلامی تہذیب کی بحالی کا موجب بنے گی۔وہ کہتا ہے کہ جن اقوام نے مذہب، روایات، اخلاقیات کی قید سے آزاد ی حاصل کی وہی اقوام ترقی اور جدید طرز زندگی کی سہولیات سے آراستہ ہوئیں۔ وٹنگٹن نے پاکستان میں اسلامی قوانین کے نفاذ اور سینٹرل ایشیائی مسلم ریاستوں کے مذہبی رجحانات پر خصوصی توجہ دی۔
وہ اس بات پر بھی حیران ہے کہ عرصہ دراز تک کمیونسٹ نظریے پر قائم وسطحی ایشیائی مسلم ریاستیں سوویت یونین کے خاتمے کے فوراً بعد اپنی اصل اسلامی ہیتّت کی طرف لوٹ آئیں۔ ان ریاستوں کے صدور اور اعلیٰ عہدیدار حج و عمرہ کی سعادت حاصل کرنے مکہ مکرمہ اور روضہ رسولﷺ کی زیارت کے لئے مدینہ منورہ جا پہنچے۔

(جاری ہے)

وٹنگٹن نے روسو، افغان اور خلیجی جنگوں کا بھی ذکر کیا مگر ترکی کی بدلتی ہوئی صورت اور انقلاب ایران پر کوئی گہری بات نہ کی۔


اگر مغربی محققین کے نظریے اور رجحان پر نظر ڈالیں تو بظاہر یہ سطحی نوعیت کے خیالات ہیں مگر ان پر غور و فکر بھی ضروری ہے۔ مغربی دانشوروں کی توجہ کا مرکز عالم اسلام اور کنفیوشزم کی تعلیمات کاملک چین ہے۔ چینی دانشوروں اور سیاستدانوں نے لاوٴزے کی تعلیمات پر مبنی درست اور صحیح راستے کا تعین کر لیا ہے اور وہ اس راستے پر خاموشی ، صبرواستقلال اور منصوبہ بندی سے گامزن ہیں۔
کرپشن، بدعنوانی اور قوانین سے انحراف کوچین میں کسی بھی سطح پر برداشت نہیں کیا جاتا۔ چین کی ترقی اور خوشحالی کا راز سچائی، اخلاقی اور قانونی حدود کے احترام میں پنہاں ہے۔ لاوٴزے کا یہی عقیدہ اور مذہب تھا جسے کنفیوشزم کا نام دیا گیا۔ کنفیوشس اور لاوٴزے کے عقائد اور تعلیمات پر پچھلے ابواب میں بھی ذکر کیا گیا ہے۔ لاوٴزے کا درست اور صحیح راستہ ہی اسلام میں صراط مستقیم ہے۔
جو بھی شخص، معاشرہ اور قوم صراط مستقیم پر چل نکلے اسی کے لئے دین و دنیا کی نعمتیں اور برکتیں ہیں۔ ایک متمدّن، منظم فرد اور معاشرہ صراط مستقیم پرگامزن ہو کر ہی اپنی شخصیت، ذاتی ڈسپلن، بود و باش اور معاشرتی استحکام کو برقرار رکھ سکتا ہے۔ وقت اور حالات فرد، معاشرے اور ریاست پر اثر انداز ہو کر اس کی ہیّت بدل دیتے ہیں مگر خدائی قوتیں اور الٰہی قوانین از سرنو احیأ کرتی ہیں۔
تہذیب کے معنی ایک سلجھا ہوا مہذب انسان، با وقار،اخلاق اور مروجہ قوانین پر عمل کرنے والا معاشرہ اور فلاحی ریاست ہے۔ وٹنگٹن اور جان ڈیوی کا خیال ہے کہ امریکہ کو بھی مغربی تہذیب کو اپنا لینا چاہئیے چونکہ مشترکہ تہذیب ہی مستقبل کے چیلنجوں سے نبرد آزما ہو سکتی ہے؟ وہ مہذب اور غیر مہذب معاشرے کی پہچان کے زمرے میں لکھتا ہے کہ وہ لوگ جو عقل سے سوچتے ہیں وہ مہذب ہیں اور جو جذبات کا مظاہرہ کرتے ہیں وہ غیر مہذب اور بد تہذیب ہیں۔
ان کے نزدیک یورپین اقوام عقلمند اور مہذب ہیں اور دیگر غیر مہذب بد تہذیب اور اجڈ ہیں۔ حال ہی میں فیض آباد (اسلام آباد) کے مقام پر تحریک یا رسول اللہ ﷺ کے کارکنوں نے نوازشریف کی حکومت کے خلاف دھرنا دیا۔ اس دھرنے کے دوران آزاد اور شتر بے مہار پاکستانی میڈیا اور مغربی تہذیب کے مقلد خواتین و حضرات نے عقل و جذبے کی تشریح میں وہ ہی باتیں دہرائیں جن کا ذکر وٹنگٹن، جان ڈیوی اور دیگر نے اپنی تحریروں میں کیا ہے۔
21نومبر کے وسیم بادامی کے شو میں کاشف عباسی نے جنرل شعیب کے خیالات کا زیر لب تمسخر اڑایا چونکہ وہ عقل اور قانون کی بات کر رہے تھے۔ کاشف عباسی نے ایک موقع پر کہا کہ اس دھرنے کو دیکھ کر میں اپنے آپ کو دھرنے والوں کی نسبت بہتر مسلمان سمجھتا ہوں چونکہ میں عقل کی بات کرتا ہوں۔کاشف عباسی بھی اپنے آپ کو اُن عقلمندوں کی فہرست میں شامل کرنا چاہتا تھا جنھوں نے آئین پاکستان میں نقب لگائی اور آئین کی اسلامی شقوں کو اڑا کر اسے سیکولر بنانے کی منافقانہ کوشش کی۔
اس کوشش کی بنیاد ختم بنوت سے انکار، نظریہ اسلام اور نظریہ پاکستان سے انحراف پر رکھی گئی جس کے روح رواں گوالمنڈی خاندان کے عقلمند تھے جنہیں بینظیر مرحومہ نے ہڈلمز اور سپریم کورٹ آف پاکستان نے سسلین مافیا اور گاڈفادر سے تشبیہہ دی ہے۔ ناجائز اور لوٹی ہوئی دولت کے انباروں پر بیٹھے اس خاندان کے سامنے عدلیہ، فوج اور آئین پاکستان کی کوئی اہمیت نہیں۔
کاشف عباسی کے تیور دیکھ کر اندازہ کرنا مشکل نہیں کہ یہ عقلمند اور خود ساختہ اچھا مسلمان جذبہ اسلام سے خالی ایسا کنستر ہے جس کی زبان سے گوالمنڈی کے سکوں کی کھنکھناہٹ سنائی دیتی ہے۔ یہ صرف کاشف عباسی ہی نہیں بلکہ دیگر پرائیویٹ چینلوں پر عباسی سے بڑے عقلمند مسلمان نما مغربی تہذیب کے دلدادہ اسلام بیزار دانشور دن رات وہ ہی پکارتے ہیں جس کا خوف وٹنگٹن اور مغربی دانشوروں کو کھائے جا رہا ہے۔
ہمفرے اور کرنل ٹی ای لارنس کو گزرے کئی عشرے گزر چکے ہیں مگر ان کی تعلیمات اسلامی دنیا خصوصاً پاکستان میں پورے جوبن پر ہیں۔
ایبٹ آباد میں منعقدہ جلسے سے خطاب کرتے ہوئے نواز شریف نے کہا کہ نواز شریف ایک فرد نہیں بلکہ نظریہ ہے۔ میکاولین سوچ و فکر کے عقلمندوں اور مسلمانوں نے اس نظریے پر بھی بہت کچھ کہا مگر انہیں پتہ نہ چل سکا کہ یہ نظریہ کیا ہے؟ حقیقتاً یہ نظریہ گوالمنڈی ہے جس کا خمیر ہڈلم ازم سے اٹھا ہے ۔ اس نظریے کے پیچھے میکاولین اور چانکیائی سوچ و فکر کار فرما ہے جو اسلامی تہذیب ، نظریہ اسلام اور نظریہ پاکستان کی ضد ہے۔

Chapters / Baab of Kashmir Ka Almiya By Asrar Ahmed Raja