Episode 71 - Kashmir Ka Almiya By Asrar Ahmed Raja

قسط نمبر 71 - کشمیر کا المیہ - اسرار احمد راجہ

بے حس بے مراد

قرآنی تاریخ بتلاتی ہے کہ ربّ کائنات نے انگنت مخلوق پیدا کی جسے موجودہ دور میں کوئی سپر کمپیوٹر، حساب دان،ہیئت دان یا محقق اپنے عقل کے دائرے میں نہیں لاسکتا۔ خالق کائنات کا فرمان ہے کہ زمین اور آسمانوں میں اور ان کے درمیان میں اور زمین کی تہہ میں جو کچھ ہے سب اس کے حساب میں ہے اور لوح محفوظ پر درج ہے۔
کائناتی نظام ایک سائینٹفک طریقے کے مطابق امر ربیّ سے چلتا ہے اور امرربیّ ہی سب سے بڑا سائنسی نظام ہے۔ جدید سائنس جن امور کا کھوج لگانے میں مصروف ہے وہ اسی سائنسی نظام کے راز معلوم کرنے کی جستجو ہے۔ کائناتی الٰہی نظام میں کوئی چیز خفیہ نہیں۔ خالق کل نے انسان کو عقل و شعور دیا تاکہ وہ اس نظام کو سمجھ کر خالق کے وجود پر ایمان لائے اور اس کے تخلیقی عمل سے اس کی پہچان کرے۔

(جاری ہے)

پہلے بھی ذکر ہوا کہ حضرت ابراہیم ، حضرت عزیز ، حضرت یونس ، حضرت ایوب ، حضرت سلیمان  اور حضرت موسیٰ  سمیت کئی پیغمبروں نے اللہ واحدلاشریک کے تخلیقی امر پر سوچا تو ربّ العالمٰین نے ان کے مشاہدے کے لئے امرربیّ کی نشانیاں ظاہر کیں۔
قرآنی علوم کی روشنی میں دیکھیں تو کائناتی نظام کے کا رکن فرشتے اور انسان ہیں۔
فرشتوں کی تخلیق نور سے ہوئی،جنات کو آگ سے اور انسان کو مٹی سے پیدا کیا گیا۔ فرشتوں کے ذمے ایسے امور ہیں جو انسانوں اور جنوں کی دسترس سے باہر ہیں۔ مگر جنات اور بنی آدم میں ایسی ہستیاں موجود ہیں جو تقویٰ، زہد اور علم الٰہی کی قوت کی حامل ہیں۔ قرآن کریم میں حضرت سلیمان  اور ملکہ بلقیس کے واقع میں عفریت (جن) اور اس شخص کا ذکر موجود ہے جو کتاب کا علم رکھتا تھا۔
عفریت(جن) ایسی قوت کا حامل تھا کہ وہ چند گھنٹوں میں ملکہ سبا کا تخت حضرت سلیمان کے روبرو پیش کردے اور آصف بن برکیہ نامی شخص جو ولی اللہ اور حضرت سلیمان کا صحابی اور مشیر تھا اور کتاب کا علم جانتا تھا ایسی قوت سے مزین تھا کہ پلک جھپکتے ملکہ بلقیس کا تخت ہزاروں میل کی دوری سے حضرت سلیمان  کے سامنے لے آیا۔ اصحاب رسولﷺ اور علمائے حق، اولیائے کاملین کی زندگیوں کے ہزاروں ایسے واقعات تاریخ کا حصہ ہیں جس کا احاطہ سائنس نہیں کر سکتی۔
موجودہ دور کے انسانوں کے ذہن ایسے سوالوں سے بھرے پڑے ہیں اور الٰہی قوانین اور امرربی ّ کے متعلق شکوک و شبہات کا شکار ہیں۔ دنیا کی پچھتر فیصد آبادی تو خدا کے وجود کی ہی قائل نہیں اور جو خدا کے وجود اور اس کی حاکمیت پر ایمان رکھتے ہیں وہ بھی اس کے احکامات سے روگردان ہیں ۔ خدا کے وجود کو نہ ماننے والوں اور شرک کرنے والوں پر خدا کی نسبت زیادہ بھروسہ کرتے ہیں۔
ایک طبقہ ایسا بھی چلا ہے جو خدا کے وجود، اس کی حاکمیت اور امر ربی ّ پر تو یقین رکھتا ہے مگر دنیا کو اپنے اصولوں اور ضابطوں کے مطابق چلانا چاہتا ہے۔ ان کے نزدیک مشرک، منکر اور مسلمان میں کوئی فرق نہیں۔ ان کا اپنا مذہب اور مسلک ہے اور وہ دیگر انسانوں کو خود ساختہ نظریے اور عقیدے کے تابع جینے کا حق دیتے ہیں۔
آج کا دور جتنا ترقی یافتہ اور جدید ہے اتنا ہی بے حسی اور بے راہ روی کا شکار ہے۔ دنیا میں عدل و انصاف، انسانی حقوق، آزادی اور مساوات کے جتنے ادارے قائم ہیں اتنی ہی دنیا میں انسانیت کی تذلیل ہے۔ کالوں اور گوروں کے لئے عدل و مساوات کے الگ رویے ہیں اور مسلمانوں، یہودیوں، عیسائیوں، ہندووٴں اور دیگر کے لئے الگ ہیں۔
اسرائیل، برمی مسلمانوں، فلسطینیوں ، کشمیریوں، دار فر اور ایسٹ تیمور کے لئے عدل، آزادی، انسانی حقوق اور مذہبی آزادی کے الگ اصول ہیں۔ مسلمانوں کا خون بہانا جائز ہے اور دیگر کا ناجائز ہے۔ یہ سب کیوں ہے اور اس کی منصوبہ بندی کے پیچھے کون سے عوامل کار فرما ہیں؟آخر کیا وجہ ہے کہ غریب، پسماندہ اور مسلمان امیر ملک اور اقوام ایک ہی صف میں کھڑے ہیں۔
تیل اور دیگر معدنی ذخائر سے مالا مال عربوں نے اپنی دولت کے ذخائر یورپ اور امریکہ منتقل کر رکھے ہیں اوراپنی عزت وآزادی کے حفاظت کرایہ دار محافظوں کے سپرد کر رکھی ہے۔ ماضی قریب میں ایران اور ترکی کے حالات بھی ایسے ہی تھے۔ ایران، روس اور برطانیہ کے لیے سیاسی اور عسکری کھیل کا میدان تھا اور ترک سلاطین نے ٹیکس کا نظام ٹھیکیداروں کے سپرد کر رکھا تھا۔
ٹھیکیدار ایک مخصوص رقم گورنر اور شاہی خزانے میں جمع کروانے کے پابند تھے جبکہ ٹیکس وصولی ان کی اپنی صوابدید پر تھی۔ عدل و انصاف کا نظام بھی ابتری کا شکار تھا۔ عام لوگوں کی زندگی حیوانوں سے بھی بدتر تھی۔ عوام ٹھیکیداروں، جاگیرداروں اور سپاہ کے رحم و کرم پر تھے۔ عزت نفس اور آزادی کا مفہوم بدل گیا تو سلطنت عثمانیہ کا وجود بھی مٹ گیا۔
پہلے بھی عرض کیا ہے کہ نظریاتی، اخلاقی، روحانی اور فکری کمزوری ہی فرد، معاشرے، ملک اور قوم کے زوال کا باعث بنتی ہے۔ نظریہ اور فکر جو بھی ہو جب تک فرد، معاشرہ اور قوم اس پر متفق نہ ہو، فرد اور معاشرہ بے حسی اور بے راہ روی کا شکار ہوجاتا ہے اور قوم خوفزدہ ہو کر منتشر الخیالی کے دلدل میں دھنس جاتی ہے۔ قوموں کے عروج و زوال کی داستانوں پر ضخیم کتابیں لکھنے والوں کا قلم بھی بے حسی اور بے مرادی کے قصے اور کہانیاں لکھتا رہا۔ نظریہ اور فکر ازلی و ابدی ہے چاہے اس کی بنیاد خیر پر استوار ہو یا شرپر۔شر ہمیشہ خیر سے ٹکرانے کی تحریک دیتا ہے۔ہر دو میں ٹکراوٴاور تصادم انسانی تاریخ کا حصہ ہے۔

Chapters / Baab of Kashmir Ka Almiya By Asrar Ahmed Raja