Episode 86 - Kashmir Ka Almiya By Asrar Ahmed Raja

قسط نمبر 86 - کشمیر کا المیہ - اسرار احمد راجہ

کنفیوشس نے ایک انداز ے کے مطابق ساڑھے تین سوسال بعد لاؤزے کے اقوال علمأ ، شعرأ ، اساتذہ اور عام لوگوں سے مل کر جمع کیئے اور اسے کتابی شکل دی۔ ظاہر ہے کہ اتنی مدت گزرنے کے بعد اصل تعلیمات میں کچھ نہ کچھ تحریف ضرورہوگئی ہوگی۔ آسمانی الہامی کتابوں کی مثال ہمارے سامنے ہے۔ آج کوئی بھی صحیفہ یا کتاب اپنی اصل حالت میں دستیاب نہیں۔ یہی وجہ ہے کہ اللہ بزرگ و برتر نے آخری الہامی کتاب قرآن کریم کی حفاظت کا خود ذمہ لیا جو تا قیامت اپنی اصل حالت میں ہی نہ صرف اوراق پر بلکہ دلوں میں بھی محفوظ رہے گی۔
قرآن کریم کا ترجمہ دنیا کی ہر زبان میں موجود ہے اور کروڑوں مسلمانوں کااس کلام الٰہی اور احادیث رسولﷺ پر کوئی اختلاف نہیں۔ ہر فرقے اور مسلک کے ماننے والے ایک دوسرے سے بڑھ چڑھ کر حب الٰہی اور عشق رسولﷺ کا مظاہرہ کرتے ہیں۔

(جاری ہے)

اسلام میں کوئی فرقہ ایسا نہیں جس کا ختم نبوت اور قرآن کریم کے آفاقی اور آخری ہدایت ہونے پر ایمان نہ ہو۔

کنفیوشس نے بھی اس بات کا کھل کر اظہار کیا ہے کہ شاید جو کچھ لاوٴزے نے لکھا اور کہا وہ اصل حالت میں نہ رہا ہو۔
لاوٴزے کے اقوال سے صاف ظاہر ہے کہ وہ ایک خدا کا ماننے والا تھا۔ اسے انوار الٰہی اور اسرار الٰہی کا مشاہدہ تھا۔ اس نے جو کچھ حاصل کیا وہ الہامی تھا جس کی بنیادی وجہ تزکیہ نفس اور مجاہدہ تھا۔ 
سبط حسن نے چینیوں کے عقیدہ پیدائش کے متعلق جو کچھ لکھا ہے وہ بے حقیقت اور بے بنیاد ہے جس کا لاوٴزے کی تعلیمات سے کوئی تعلق نہیں۔
لاوٴزے کا اصل نام (لی پی تانگ )تھااور وہ 604قبل مسیح میں پیدا ہوا۔پیدائش کے وقت اس کے سر کے بال سفید تھے۔ لاوٴزے کے باپ نے اسے دیکھا تو مسکرا کر اسے لاوٴزے یعنی بوڑھا کہا۔ یہی نام مقبول عام ہوا جو اس کی بزرگی، دانش اور حکمت کا باعث بنا۔ بعض مصنفین نے اسے کنفیوشس کا ہم عصر بھی لکھا ہے۔اس بیان میں اختلاف کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ اگر لاوٴزے اور کنفیوشس ایک ہی زمانے میں ہوتے تو کنفیوشس براہ راست اس کی تعلیمات سے فیض حاصل کرتا۔
کنفیوشس ہی نہیں بلکہ لی تاذو اور چنگ ذی نے بھی لاوٴزے کی تعلیمات کا پرچار کیا جنہیں تاریخ میں عارف کا درجہ حاصل ہے۔ لی تاذو نے تخلیقی عمل کے متعلق نہایت گہری اور فلسفیانہ باتیں کیں جو قرآنی تعلیمات کی ہم آہنگ ہیں۔ وہ کہتا ہے کہ پیدائش اور موت کا عمل یہی ہے کہ جو پیدا کرتا ہے وہ ہی مارتا ہے اور پھر وہ سب جو کچھ پیدا ہوا وہ پیدا کرنے والے کے سامنے جزأوسزا کے لئے خود بخود حاضر ہوگا۔
وہ کہتا ہے کہ انسان کو چاہئیے کہ وہ اپنی عقل و علم پر بھروسہ نہ کرے چونکہ دونوں کے غیر متوازن ہونے کا اندیشہ رہتا ہے جو اسے صراط مستقیم سے ہٹانے کا موجب بنتے ہیں۔ انسان کو ہمیشہ خالی پن کا حامل رہنا چاہیئے تاکہ وہ اپنے مشاہدے میں آنے والی چیزوں کا علم حاصل کرے اور اپنا خالی برتن بھرتا رہے مگر پھر بھی اسے خالی ہی تصور کرے۔ جس نے اپنے آپ کو خالی رکھا اسے سکون،آزادی اور علم حاصل ہوتا ہے۔
کچھ لینے سے بہتر ہے کہ انسان کچھ دینے کی حیثیت میں ہو اور صراط مستقیم پرچلتا رہے۔
سبط حسن نے مسلمانوں، عیسائیوں، یہودیوں، ہندووٴں، بدھوں، پارسیوں اور دیگر ادیان کے نظریہ تخلیق پر بھی ایسی ہی ریسرچ کی اور قرآن و حدیث سے حوالے دے کر نظریہ تخلیق میں ہم آہنگی کا تصور پیش کیا۔ اس بات پر کوئی اختلاف نہیں کہ دنیا میں کوئی دور ایسا نہیں ہوا جب انسان خالق کی نظروں سے اوجھل رہا ہو۔
مگر یہ بھی حقیقت ہے کہ انسان نے اپنی جبلت کے تابع طویل دور نافرمانی میں بسر کیا جس کی وجہ سے انسانی معاشرہ اور ماحول تنزلی کا شکار ہو کر کفرو شرک کی پستیوں میں چلا گیا جس کا ذکر خود خدا بزرگ و برتر نے اسفل سافلین کے الفاظ میں کیا۔ یہی وہ ادوار ہیں جب انسانی تہذیب اخلاقی، روحانی اور حقیقی آزادی سے محروم ہوگئی اور نظریہ شر کی بھینٹ چڑھ کر کفر و شرک کے اندھیروں کی طرف دھکیل دی گئی۔
ان ادوار میں بھی خدائی ، الٰہی تعلیمات کا کچھ نہ تواثر باقی رہا اور جو کچھ ان ادوار کے حکمأو فلاسفہ نے بیان کیا اس میں حقیقت اور الٰہی احکامات کا کچھ نہ کچھ شائبہ نظر آتا ہے جس کا ذکر سبط حسن اور دوسرے لوگوں نے کیا ہے۔ 
بابلی، سومیری، ایرانی، یونانی، ہندی، مصری اور چینی تہذیبوں پر کھوج کرنے والوں نے آدم، ادریس، شعیب، لوط، نوح،ہود اور صالح کے ادوار پر کبھی غور ہی نہیں کیا۔
یہ وہ ادوار ہیں جن کا ذکر ہر الہامی کتاب میں موجود ہے۔ قرآن کریم میں فرمان ہے کہ اے نبی ﷺ اب انہیں ذوالقرنین کے متعلق کچھ بتاوٴ۔ یہ فرمان موسیٰ اور خضر کے واقعے کے بعد ہے۔ سورة کہف میں ہی اصحاب کہف اور ان دو شخصیات کا بھی ذکر موجود ہے جسن کی ملکیت دو باغ تھے۔ کوئی بھی محقق پیغمبری ادواراور بیان کردہ ادوار جنہیں وہ تہذیبوں کا نام دیتے ہیں کے درمیانی عرصہ کا تعین نہیں کر سکا۔

Chapters / Baab of Kashmir Ka Almiya By Asrar Ahmed Raja