Episode 65 - Kashmir Ka Almiya By Asrar Ahmed Raja

قسط نمبر 65 - کشمیر کا المیہ - اسرار احمد راجہ

حضرت علی کا قول ہے کہ جتنا میرے پاس علم تھا اتنا کسی نے سیکھا نہیں اور جتنا میں سخی تھا اتنا کسی نے مانگا نہیں۔ یہ علم کیا ہے؟ اس کا احاطہ ہی مشکل ہے۔ آپ کے پاس ظاہری و باطنی علوم کا خزانہ تھا جو کسی اور کے دل و دماغ میں کیسے سما سکتا تھا۔ حدیث رسولﷺ ہے کہ میں علم کا گھر ہوں اور علی اس کا دروازہ ہے۔ بجائے بحث، ذاتی تشہیر اور مادی مفادات کے حصول کے ہمیں قرآن کی حکمت کو سمجھنے کے لئے رسول اللہ ﷺکی مبارک زبان سے نکلے ہر لفظ کو حکم الٰہی جان کر ایمان لانا ہوگا۔
دوسری صورت میں نظریہ شر ہمفرے کی کسی نئی شکل و صورت میں، کسی محقق، مصنف، نقلی اور فسادی عالم دین، سیاستدان، گدی نشین پیر یا پھر دانشور کی صورت میں نہ صرف ہمارے رہے سہے نام نہاد اتحاد، عزت و آزادی پرکاری ضرب لگائے گا بلکہ ہمارے عقیدے پر حملہ آور ہو کر ذلت و رسوائی کے گڑھے میں دھکیل دے گا۔

(جاری ہے)

ہمفرے کون تھا؟ اس پر لکھی جانے والی تحریروں میں بھی اس راز سے پردہ نہیں ہٹایا گیا۔

ہمفرے نے قرآن پڑھا، احادیث رسولﷺ اور سیرت رسولﷺ کا حسب ضرورت علم حاصل کیا۔ شیعہ اور سنی علمأ سے علمی مباحثے کیئے اور جہاں اسے گنجائش نظر آتی اس پر تحقیق کی تاکہ فساد کی راہ ہموار کرنے میں کوئی رکاوٹ نہ ہو۔ ہمفرے نے قرآنی آیات کے وہ الفاظ اپنے منصوبے میں شامل کئے جن کی بنیاد پر آئمہ اربعہ اور اصحاب رسولﷺ کی سیرت و علم پر تنقیدی مواد جمع کر سکے۔
ہمفرے کی ذات کو پوشیدہ رکھنے کے لئے ٹرپل کور(triple cover) تکنیک اپنائی گئی۔ اس کا اصل نام ہمفرے نہیں بلکہ کچھ اور تھا۔ اس کا پہلا خفیہ یا کوڈ نام ہمفرے تھا، دوسرا نام محمد جو اس نے ترکی بغداد اور بصرہ میں حصول علم اور شیعہ سنی علمأ سے ملنے اور علوم تک رسائی کے لئے استعمال کیا۔ اس کا تیسرا نام خفیہ رکھا گیا۔ خیال کیا جاتا ہے کہ عرب و ایران میں اپنا کام مکمل کرنے کے بعد وہ ہندوستان آگیا اور بحیثیت مبلغ افغانستان، کشمیر اور وسطیٰ ایشیائی ممالک میں طویل عرصہ تک خدمات سرانجام دیتا رہا۔

کشمیر کے المیے میں ہمفرے کا ذکر بھی شاید پڑھنے والے دوستوں کو عجیب لگے۔یہ بھی ممکن ہے کہ کچھ لوگ اسے سرے سے مسترد ہی کر دیں مگر عالمی شطرنج کے ٹیبل پر بچھے مہروں کا جائزہ لینے کے لئے ماضی کے دریچوں میں جھانکے بغیرحال اور مستقبل پر کوئی بات کرنا محض خود فہمی کے سمندر میں غوطہ زن ہونے کے مترادف ہوگا۔ آج مسلمانوں کو اس لئے جبرو استحصال کا نشانہ بنایا جا رہا ہے چونکہ عالم اسلام میں نہ کوئی منظم و مستحکم تنظیم ہے، نہ کوئی سوچ و فکر کا ادارہ ہے، نہ مسلمان کسی ایک نظریے اور عقیدے پر متفق ہیں اور نہ ہی اپنے وسائل کو بروئے کار لانے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔
مسلمان حکمرانوں کو اپنے عوام پر اعتماد نہیں اورنہ ہی عوام میں اتنا شعور ہے کہ وہ غیر ملکی اشاروں پر ناچنے والے حکمرانوں کا احتساب کر سکیں اور اغیار کے مسلط کردہ حکمرانوں کے سامنے کلمہ حق کہنے کی ہمت کریں۔ مسلم ممالک میں حزب اختلاف اور اپوزیشن جماعتیں اور تنظیمیں بھی موجود ہیں جن کا نظریہ اور عقیدہ انکے مسلک تک محدود ہے اور انہیں بھی غیر ملکی ایجنسیاں اور حکومتیں حکمران طبقے کو بلیک میل کرنے اور بوقت ضرورت انتشار پھیلانے کے لئے استعمال کرتی ہیں۔
سچائی کی آنکھ سے دیکھا جائے تو ہمفرے آج بھی کسی نہ کسی شکل و صورت میں ہمارے درمیان موجود ہے مگر بحیثیت امت ہمیں اس کا احساس نہیں۔اس کی سب سے بڑی وجہ قرآن کی سچائیوں پر توجہ دینے کے بجائے مسلک اور فرقہ پرستی کو دین پر اہمیت دینا اور مادی منفعت کا حصول ہے۔ طالبان، القاعدہ اور داعش جیسی تنظیمیں کیسے وجود میں آئیں اور ان کی سرپرستی کس نے اور کس کے ذریعے کی؟ کوئی خفیہ خبر نہیں مگر اس پر بات کرنے کی کسی میں ہمت نہیں یا پھر صلاحیت ہی نہیں۔
وہ ممالک جن پر الزام ہے کہ وہ ان تنظیموں کی سرپرستی کرتے ہیں،کو خود بھی پتہ نہیں کہ ان سے کیا کروایا جاتا ہے اور کون اس کا اصل ذمہ دار ہے؟ اس کی ایک مثالی پاکستانی صحافت اور میدان سیاست ہے۔ پاکستانی جمہوریت ہو یا آمریت دونوں کے لئے منصوبہ بندی اور اقتدار کی منتقلی لندن، جدہ اور دبئی میں ہوتی ہے۔ وہ لوگ جو برطانیہ اور امریکہ کومورد الزام ٹھہراتے ہیں احمق اور جاہل ہیں۔
برطانیہ اور امریکہ کسی کو دعوت دے کر نہیں بلاتے۔ جو لوگ اپنے عوام، نظریے اور نصب العین سے منحرف ہو کر وطن دشمنی اور قوم فروشی کا تہیہ کرتے ہیں انہیں یورپ کے علاوہ کسی جگہ محفوظ مقام نظر نہیں آتا۔ این آر او اور میثاق جمہوریت سے لے کر ایمرجنسی پلس، ججوں کی نام نہاد بحالی اور پھر الیکشن کی ڈرامہ بازی خود پاکستانی سیاستدانوں اور جرنیلوں نے کی اور الزام برطانیہ اور امریکہ پر عائد کر دیا۔
سوائے نام نہاد پاکستانی اور مسلم قائدین کے ہر ملک کا ایک نظام ہے جس میں اولیّت قومی اور ملکی سلامتی کو دی جاتی ہے۔ اگرملک دشمنوں اور قوم فروشوں کا ٹولہ قیادت، سیاست اور مذہب کا بہروپ بنا کر کسی کے در پر دستک دے تو بھیک دینے والے کو موردالزام ٹھہرانا درست نہیں۔ 1970ء میں لاہور کے امریکی کونسل جنرل نے مشرقی پاکستان کی علیحدگی کا عندیہ دیا۔
وہ ہر جگہ اور ہر محفل میں بلاجھجک کہتا کہ اگر حالات ایسے ہی رہے تو مشرقی پاکستان پر بھارت حملہ کردے گا اور بنگلہ دیش بن جائے گا۔ کسی نے اس طرف توجہ نہ دی اور پھر سانحہ مشرقی پاکستان ہوگیا۔ کسی صحافی نے امریکی بیوروکریٹ سے پوچھاکہ بھارت مشرقی پاکستان پرحملہ کیوں کرے گا؟ امریکی بیوروکریٹ نے جواب دیا کہ جب کسی کے گھر میں آگ لگ جائے تو پڑوسی کا پہلا حق ہے کہ وہ جس قدر چاہے سامان لوٹ لے۔ بعد میں یہی امریکی کونسل جنرل محترمہ بینظیر بھٹو کا امریکی امور کا مشیر بھی رہا۔

Chapters / Baab of Kashmir Ka Almiya By Asrar Ahmed Raja