Episode 39 - Kashmir Ka Almiya By Asrar Ahmed Raja

قسط نمبر 39 - کشمیر کا المیہ - اسرار احمد راجہ

شرق اوسط پر نظر ڈالیں تو دوسری جنگ عظیم کے بعد جاپان عملاً امریکی حفاظت میں چلا گیا مگر جاپانی تمدن نے امریکی اثر قبول نہ کیا۔ امریکی فوجی اڈوں کی موجودگی نے جس طرح تھائی لینڈ، فلپائن، لاوٴس اور کمبوڈیا کے تہذیبی، اخلاقی اور روایتی ورثے کو تباہ کیا ویسا اثر جاپان، کوریا، انڈونیشیا اور ملائشیا نے قبول نہ کیا۔ مغربی نو آبادیاتی نظام کے تسلّط نے بھی ان ممالک کے مذہبی رجحانات کو کم نہ کیا اور نہ ہی ان جزایئر پر آباد مسلمانوں نے مغربی تہذیب کو محض آقاوٴں کی خوشنودی کی خاطر قبول کیا۔

مشاہدے میں آیا ہے کہ غربت، ناانصافی، معاشرتی تذلیل اور اونچ نیچ غلامانہ ذہنیت اور عقیدے کی تبدیلی کا باعث بنتے ہیں۔ وہ معاشرے جہاں عقائد کی بنیادیں روایات اور دیومالائی داستانوں سے جڑی ہوں اور معاشرہ مذہبی بنیادوں پر تقسیم ہو وہاں بیرونی عقائد اور تعلیمات کا اثر جلد قبول ہوتا ہے۔

(جاری ہے)

برصغیر کی مثال سامنے رکھیں تو بدھ مت، جین مت اور شومت نے ہندو دھرم اور عقیدے پر وہ اثر نہ ڈالا جتنا اسلام اور عیسائیت نے نچلے اور درمیانے طبقے کے ہندووٴں کو ترک مذہب کی طرف راغب کیا۔

اسلام کے مقابلے میں عیسائیت کو دکھیں تو اسلام کا اثر غالب نظر آتا ہے۔ اشاعت دین پر ہندو محققین کا پراپیگنڈہ ہے کہ اسلام مسلم فاتحین نے بزور شمشیر پھیلایا۔ حال ہی میں ماڈرن مسلمانوں کا بھی ایک طبقہ سامنے آیا ہے جو اس خیال سے متفق ہے۔ تحقیق اور تاریخ اس بات کی گواہ ہے کہ نہ تو دین اسلام کی اشاعت بزورشمشیر ہوئی ہے اور نہ ہی مبلغین کی ٹولیاں عرب سے آکر بستی بستی اور شہر شہر گھومیں اور لوگوں کو اجتماعی اور انفرادی پیغام دے کر حلقہ بگوش اسلام کیا۔
اس بات میں شک نہیں کہ عرب تاجروں کے اخلاق، لین دین کے معاملات میں ایمانداری اور غریب پروری سے متاثر ہو کر چین،شمال اور شمال مغربی کشمیر اور دوسری جانب جنوبی ہندوستان کی ساحلی پٹی پر بسنے والے ہندووٴں اور بدھ مت کے ماننے والوں نے دین اسلام قبول کیا مگر ان کی تعداد زیادہ نہ تھی۔ جیسا کہ پہلے بیان کیا ہے کہ خلیفہ دوئم حضرت عمر اور خلیفہ سوئم حضرت عثمان کے دور حکومت میں ایران، وسطی ایشیائی ریاستیں بشمول کاشغر فتح ہوئے تو ان مفتوحہ علاقوں میں اسلامی خلافت نے گورنر اور دیگر حکومتی عملہ اور کچھ فوج بھی تعینات کی۔
حضرت عمر کے دور خلافت میں فوج کی باقاعدہ تنخواہوں، جنگی ہتھیاروں کی فراہمی، راشن، علاج معالجے اور رہائشی چھاوٴنیوں کا نظام وضع ہوا تو مقامی باشندوں نے اسلامی اصلاحات اور مراعات کے علاوہ مسلمان حکمرانوں کے حسن سلوک سے متاثر ہو کر دین اسلام قبول کیا اور پھر اپنی علاقائی زبانوں میں اپنے خاندانوں اور قبیلوں کو بھی دین اسلام کی ظاہری و باطنی خوبیوں سے روشناس کروایا۔
اسلام سے پہلے فاتحین مفتوحہ علاقوں پر درندوں کی طرح جھپٹے ، بستیوں اور شہروں کو اجاڑتے اور آگ میں جھونک دیتے تھے۔ عورتوں اور بچوں کو غلام بناتے اور انہیں بیچ دیتے اور مردوں کو بے دریغ قتل کر تے تھے۔ قرآن کریم میں غلاموں، بیواوٴں، یتیموں، لونڈیوں اور ذمیوں کے حقوق کا حکم ہوا تو اسلامی فوجوں کوبھی اس پر سختی سے عمل کرنے کی تلقین کی گئی اور قرآنی حکم کی خلاف ورزی کرنے والوں کو اسلامی ریاست نے سزائیں بھی دیں۔
غیر مسلم دانشوروں کا بغض تو سمجھ آنے والی بات ہے مگر مسلمان فرقوں کے علماء اور دانشور بھی تنگ نظری کا شکار محض اغیار کی خوشنودی، یورپ اور امریکہ میں پذیرائی، گرین کارڈ اور پاسپورٹ کے حصول کی خاطر ایمان بیچنے پر تیار ہوجاتے ہیں اور ایسی ایسی تاویلات اورتشریحات سامنے لاتے ہیں جس کا کوئی سر پیر نہیں ہوتا۔
پاکستان سے تعلق رکھنے والے ایک مبلغ اعظم نے انگلینڈکے شہر برمنگھم میں پاکستانی تارکین وطن کے اجتماع سے خطاب کرتے ہوئے فرمایا کہ پاکستان ایک غیر محفوظ ملک ہے اورحکومت چوروں اور ڈاکووٴں کا ٹولہ ہے۔ آپ اپنی جمع پونجی اسی ملک میں رکھیں اور یہاں پر ہی اسلامی سکول قائم کریں تاکہ آپ کے بچے اچھے برٹش سٹیزن بن کر اس ملک کی خدمت کر سکیں۔
آپ نے فرمایا کہ پیسہ اسی ملک میں انوسٹ کریں۔ پاکستان میں آپ کی جائیدادوں پر نو دولتیے ٹھگ حکمران اور ان کے پالتو مافیاجات قبضہ کرلیں گے۔
مولانا کی بات تو سو فیصد درست ہے مگر تجزیہ کریں تو پاکستان میں کوئی ایسا محکمہ نہیں جہاں ان کے متعلقین ، مریدین، مبلغین اور اہل مسلک نہ بیٹھے ہوں۔اگر وہ اپنے متعلقہ لوگوں کو حکم جاری کر دیں کہ وہ کوئی ہیر پھیر اور دو نمبری نہیں کریں گے اور اوپر سے نیچے تک غیر قانونی کام کرنے والوں کا پردہ چاک کریں گے تو آدھا ملک ایک دن میں صاف ہوسکتا ہے۔
اگر وہ اپنے ہم مسلک و مکتب لوگوں کو حکم دیں کہ وہ کسی غنڈے، بدمعاش، کرپٹ نو دولتیے کو ووٹ نہیں دینگے بلکہ ایسے لوگوں کے خلاف مہم چلائیں گے تو اسمبلیوں سے نوے فیصد چوروں اور ڈاکووٴں کا خاتمہ ہوجائیگا۔

Chapters / Baab of Kashmir Ka Almiya By Asrar Ahmed Raja