Episode 16 - Kashmir Ka Almiya By Asrar Ahmed Raja

قسط نمبر 16 - کشمیر کا المیہ - اسرار احمد راجہ

ذرا غور کیجئے : کہ ہمار ا تصور آزادی کیا ہے ؟ ڈوگروں اور غنڈوں کی حکمرانی اور غلامی میں کیا فرق ہے ؟ڈوگروں اور مقامی لوگوں کے طرز حکومت اور رعا یا پروری کا ایک سچا واقع اُن درجنوں نہیں بلکہ سینکڑوں واقعات میں سے ایک ہے جو شمالی علاقوں کے عوام کے ذہنوں پر نقش ہیں۔ ہنزہ کے ایک چروا ہے نے گلگت کے کسی مدرسے سے پانچویں جماعت تک تعلیم حاصل کی او رپھر ہنزہ کے ”تھم “ کے حکم پر اُسے واپس آنا پڑا ۔
چروا ہے کو سزا کے طور پر ہنزہ کے دور دراز مقام سری کول بھجوا دیا گیاتو چرواہا اپنی بیوی اور بچے بھی ساتھ لے گیا۔ چرواہے کی خوش قسمتی تھی کہ سری کول میں آباد دو قبیلے جنہیں پاکپوش اور شاکشوش کہا جاتا ہے تین زبانیں بولتے تھے ۔ یہ لوگ قدیم فارسی اورترکی کے علاوہ قدیم آرین زبان بھی بولتے تھے جو دنیامیں کس اور جگہ نہ بولی جاتی اور نہ ہی سمجھی جاتی ہے ۔

(جاری ہے)

چرواہا چونکہ ذہین آدمی تھا ۔ اُسے خدا کی طرف سے زبانیں سیکھنے کا موقع میسر آیا تو خوشی کا ٹھکانہ نہ رہا۔ چند ماہ میں چرواہے نے اپنے بیٹے عبداللہ کو پانچویں کا سیلبس پڑھا دیا اور ساتھ ہی سارے خاندان نے فارسی اور ترکی زبان بھی سیکھ لی ۔ چرواہے نے کسی طرح اپنے بیٹے عبداللہ کو گلگت بھجوا دیا تاکہ وہ مزید تعلیم حاصل کر سکے ۔ مخبروں سے والئی ہنزہ کو عبداللہ کے گلگت جانے کی خبر ہوئی تو اُسے واپس آنے کا حکم جاری ہوا ۔
عبداللہ کے باپ کو پتہ چلا تو اُس نے بیٹے کو سرینگربھاگ جانے کا مشورہ دیا۔ 
عبداللہ طویل مسافت کے بعد سرینگر پہنچا اور مسافروں کے لیے مختص سرائے میں سر چھپانے کو جگہ مل گئی ۔ پھرتے پھراتے عبداللہ کسی مشنری سکول جا پہنچا تو اسے داخلہ بھی مل گیا اور مزدوری کا بندوبست بھی ہوگیا۔ ہنزہ کے لوگ کہتے ہیں کہ محنت مزدوری سے کچھ رقم جمع ہوئی تو عبداللہ نے سب سے پہلے رضائی خریدی اور تین روز تک بارش کے موسم میں رضائی اوڑھ کر سویا رہا ۔
یہ عبداللہ کی زندگی کی پہلی آسائش تھی جو اُسے سرینگر جا کر میسر آئی۔ آخر سکول والوں نے اسے ڈھونڈ نکالا اور ہاسٹل میں رہنے کی جگہ دے دی۔ 
خدا کا کرنا ہوا کہ ایک دن عبداللہ سٹرک پر چلا جا رہا تھا کہ اسے ایک کا ر نظر آئی ۔ عبداللہ اس عجوبے کو دیکھنے کے لیے سٹرک کے درمیان کھڑا ہوگیا ۔ ڈرائیور نے لاکھ ہارن بجائے مگر عبداللہ اپنی جگہ سے نہ ہلا ۔
کار رُکی اور پولیس والے عبداللہ کو پکڑنے آئے تو کار میں بیٹھا شخص بھی باہر آ گیا ۔ عبداللہ نے حیرت سے کار سوار اور اُس کی پوشاک کو دیکھا اور ہاتھ جوڑ کر عرض کی کہ جناب میں نے ایسی سواری اور سوار پہلے نہیں دیکھے۔ کیا آپ نانگا پربت پر بسنے والے دیوؤں اور پریوں کے دیوتا ہیں؟
کار سوار مہاراجہ کشمیر نے مسکرا کر کہا نہیں۔ میں انسان ہوں اور کشمیر کا حکمران ہوں۔
عبداللہ کا حال احوال پوچھنے کے بعد مہاراجہ نے نقد انعام کے علاوہ عبداللہ کا وظیفہ بھی مقرر کر دیا ۔ خبر ایک بار پھر ہنزہ پہنچی تو تھم نے مہاراجہ سے اپیل کی کہ عبداللہ کو فوراً ہنزہ بھجوا دیا جائے چونکہ یہ ریاست کا مفرور ہے۔ عبداللہ واپس ہنز ہ پہنچا تو اسے پھر سری کول جانا پڑا ۔اس بار عبداللہ نے طویل مسافت کاٹی اور چترال کے راستے پشاور اور پھربمبئی جاکر سر آغا خان سے درخواست کی تو اسے بمبئی میں تعلیم کے بعد آغاخان نے پڑھنے کے لیے ولائیت بھجوادیا۔
عبداللہ چونکہ آغاخان کے وظیفے پر انگلینڈ گیا تو گوروں نے اسے ہز ہائی نس(HIS HIGHNESS) پرنس عبداللہ کے نام سے لنکن ان میں داخل کیا جو بعد میں بیرسٹر پرنس عبداللہ کے نام سے مشہور ہوا۔ 
دیکھنایہ ہے کہ کیا مہاراجہ زیادہ ظالم اور انسان کش تھا یا مقامی مسلمان حکمران۔ ستر سالہ نام نہاد آزادی کا دوسرا نام اگر غنڈہ صفت ، نودولتیے ، ان پڑھ اور جاہل سیاستدان کی غلامی ہے تو اسے کیا کہا جائے؟؟ جمہوریت ، بھٹو ازم، جیالہ ازم یا جبر وظلم۔
جس ریاست کا نظام بیان کردہ کرداروں کے ہاتھ ہو وہاں آزادی کی بات کرنا جرم کے مترادف ہے۔ سوال یہ ہے کہ کیا ایک سفارتکاریا ساری عمر (yes sir) کہنے والا جرنیل ایسے لوگوں کو راہ راست پر لا سکتا ہے ؟یقینا ایسا سوچنا بھی جرم ہے۔
 جمہوری حکومتوں میں وزرائے اعظم اور صدور کا چناؤ ان ہی سیاسی جماعتوں کے اعلیٰ ترین اور باصلاحیت افراد سے ہوتا ہے جو الیکشن جیت کر اقتدار کی حق دار ٹھہرتی ہیں۔
سیاسی جماعتوں کو اقتدار اس لیے سونپا جاتا ہے چونکہ وہ عوام الناس کی نمائندگی کرتی ہیں اور ایک مقرر وقت تک انہیں عوام کی فلاح وبہبود اور ریاست کی حفاظت پر مامور کیا جاتا ہے۔ برسر اقتدار جماعت صدر، وزیراعظم اور وزراء کا چناؤ اُن کی قابلیت ، تجربے ، دیانت داری، شرافت اور اعلیٰ اخلاقی و انسانی اقدار کو مد نظر رکھ کرکر تی ہے۔ جمہوری روایات کی حامل اقوام اخلاقی اور انسانی روایات کی امین ہوتی ہیں ۔
دنیا کا ہر مذہب اخلاقی اور انسانی اقدار کی بنیادوں پر استوار ہے حتیٰ کہ لا دین معاشروں اور ریاستوں میں بھی انسانی اخلاقی اور فلاحی روایات کو آئین اور قانون کی حیثیت حاصل ہے۔انتہائی آزاد اور جدید معاشروں میں بھی عدل و انصاف کے اعلیٰ معیار کو برقرار رکھا جاتا ہے ۔ مجرم چاہے کوئی اعلیٰ افسر ، وزیر ، مشیر یا ملک کا حکمران ہی کیوں نہ ہو قانون کی گرفت سے بچ نہیں سکتا۔
 
 آزادکشمیر کا المیہ یہ ہے کہ اس خطہ زمین پر پاکستانی سیاسی جماعتوں کے نمائندے اپنی سیاسی جماعتوں کی نمائندگی کرتے ہیں۔ وہ آزادکشمیر کے عوام کے سامنے نہ تو جوابدہ ہیں اور نہ ہی اُن پر کوئی اخلاقی ، انسانی ، آئینی اور قانونی گرفت ہے ۔ جو کوئی اپنے پارٹی سربراہ کی خوشنودی حاصل کر لیتا ہے وہ حکومت کرنے کا حق رکھتا ہے۔یہ طرز حکمرانی ڈوگرہ نظام ہی کی ایک شکل ہے جو ریاست کے مختلف علاقوں میں پھیلی جاگیروں ، چھوٹی ریاستوں اور راجوڑوں پر مشتمل تھی ۔
ہر راجہ ، میر ، را ، تھم اور جاگیر دار مہاراجہ کی خوشنودی حاصل کرتا تھا اور اپنے علاقے، ریاست اور جاگیر میں اس پر کوئی قانون لاگو نہ تھا۔ ان ریاستوں اور جاگیروں میں بسنے والے عوام مقامی حکمرانوں کے رحم و کرم پر ہوتے تھے جنہیں مقامی پولیس ، انتظامیہ اور فوج کی مدد حاصل تھی۔ نام نہاد آزاد ی کی شکل میں چیف ایگزیکٹو آف پاکستان ہی آزادکشمیر کا مہاراجہ ہے جو کشمیر کونسل ، وزارت امور کشمیر اور مہاجرین مقیم پاکستان کی آزادکشمیر اسمبلی میں نمائندگی کے ذریعے حکومت کرتا ہے۔ 

Chapters / Baab of Kashmir Ka Almiya By Asrar Ahmed Raja