Episode 28 - Kashmir Ka Almiya By Asrar Ahmed Raja

قسط نمبر 28 - کشمیر کا المیہ - اسرار احمد راجہ

سمندر پار عربستان واقع ہے۔ چھوٹی بڑی ریاستوں کا مجموعہ یہ خطہ زمین عالمی سیاست اور نظریات کے کھیل کا میدان ہے۔ میکاؤلین مغرب اور چانکیائی بھارت نے عربوں اور ایرانیوں میں مسلکی اور نظریاتی اختلافات کو اس قدر وسعت دے رکھی ہے کہ ہر دوجانب مسلکی پیامبروں کے مسلح نیزہ بردار ایک دوسرے کے سینے چھلنی کرنے کے لئے ہر لمحہ تیار بیٹھے ہیں۔ ایک طرف ایران پرنت نئی پابندیوں کی یلغار ہے تو دوسری جانب عراق اور شام سمیت سارے عرب پر داعش کا خوف اور عرب بہار ہے۔

ترکی میں خلافت کمزور ہوئی تو مغربی اقوام نے عربوں سے مل کر خلافت عثمانیہ کا خاتمہ کردیا۔ عربوں نے اپنے اپنے حصوں پر کمزور اور باجگزار حکومتیں قائم کیں جنہیں مغربی ممالک نے سیاسی اور سفارتی آکسیجن فراہم کی اور ساتھ ہی اسرائیلی ریاست قائم کرکے عربوں پر مسلسل دباوٴ اور غیر یقینی حالات اور عدم تحفظ کا خودکار سامان بھی مہیا کردیا۔

(جاری ہے)

عرب بادشاہوں، شہزادوں اور حکمرانوں کے کھرب ہا پٹرو ڈالر دنیا بھر میں پھیلے یہودیوں کے قائم کردہ بینکوں میں محفوظ ہیں۔ بینک اس سرمائے سے امریکہ اور یورپ کی جنگی صنعتیں چلاتے ہیں اور پھر یہی اسلحہ و سامان عربوں کو فروخت کرکے کثیر منافع اسرائیل کی حفاظت اورفوجی قوت پر خرچ کرتے ہیں۔ اپنا جوتا اور اپنا سر کی اس سے بہتر مثال کیا ہوسکتی ہے۔
عرب ممالک کے نزدیک قابل احترام اقوام اہل مغرب اور بھارتی ہیں جبکہ پاکستانی قابل نفرت غلام ہیں۔ جماعت اسلامی ،اہل حدیث اور جمعیت علمائے اسلام والوں کا معاملہ مگر کچھ الگ اور خاص ہے۔ اہل سنت خاص کر بریلوی عقیدے کا حامل کوئی شخص اگر کسی عرب ملک میں پولیس کے ہتھے چڑھ جائے تو اس کا معاملہ وہی ہوتا ہے جو ببرک کارمل اور ڈاکٹر نجیب اللہ کے دور میں پاکستانیوں کے ساتھ پل چرخی جیل میں ہوتا تھا۔
اُن دنوں پیپلزپارٹی اور نیشنل عوامی پارٹی والوں کے لئے کابل فردوس برزمین تھا۔ عرب صرف پاکستانی سیاستدانوں، حکمرانوں اور کچھ خاص جرنیلوں کی عزت کرتے ہیں۔ سیاستدانوں اور حکمرانوں کے لئے دبئی اور دیگر عرب ریاستیں جنت ہیں چونکہ لوٹا ہوا ملکی سرمایہ اس طبقہ نے ان ہی ممالک میں محفوظ کر رکھا ہے۔ جنرل پرویز مشرف اور ان کے ہمراز اور ہم خیال جرنیل بھی اسی گنگا میں اشنان کرتے ہیں اور زندگی کی رعنائیوں سے لطف اندوز ہوتے ہیں۔
قطر، دبئی اور جدہ پاکستانی شاہی خاندانوں کے لئے محفوظ قلعے ہیں جہاں بیٹھ کر یہ لوگ سمندر کے شمال میں واقع موروثی ریاست پاکستان پر حکومت کرتے ہیں اور خزانہ لوٹ کر دبئی، قطر، لندن، پیرس اور دیگر ممالک میں محفوظ کر دیتے ہیں۔
ترک قوم نے ایرانیوں کی طرح سیاسی زوال اور خلافت کے خاتمے کے باوجود ترک نیشنلزم کے نظریے کو برقرار رکھا۔
ترکوں نے عربوں کو خدا حافظ کہا اور مغربی سامراجی قوتوں کا ڈٹ کر مقابلہ کیا۔ بلقانی ریاستوں میں ترک نیشنلزم اور کمال ازم نے ترکوں کو نیا حوصلہ اور ہمت دی جس کی بدولت آج کا ترکی کئی بحرانوں کے باوجود اقوام عالم میں ایک اہم مقام رکھتا ہے۔ ترک ایرانیوں کی طرح ایک قوم ہیں اور دونوں اقوام کا نظریہ قومیت ایک خاص ماحول میں پروان چڑھا اور بنیادی حیثیت اختیار کرگیا۔
ضروری نہیں کہ جس نظریے پر ایک قوم متفق ہو دوسری قوم کا بھی وہی نظریہ ہو۔
ایرانیوں کا نظریہ قومیت ان کی ہزاروں سال پرانی تہذیب ، تاریخ اور عظمت رفتہ کی بنیاد پر ہے۔ ترک نیشنلزم بھی تقریباً ان ہی بنیادوں پر استوار ہے جبکہ عرب نیشنلزم کا نظریہ ابتداء ہی میں ناکام ہوگیا اور عربوں کو کسی ایک پلیٹ فارم پر جمع نہ کر سکا۔
عربوں کا باہمی انتشار کم ہونے کے بجائے بڑھتا ہی گیا جس سے اہل مغرب اور دیگر عرب اور اسلام دشمن قوتوں نے بھرپور فائدہ اٹھایا۔عرب بادشاہوں اور مطلق العنان حکمرانوں نے ایک دوسرے کو نیچا دکھانے اور عیش و عشرت کی زندگی گزارنے کے لئے دوستوں پر دشمنوں کو ترجیح دی اور مختلف طریقوں سے اسرائیل کی مضبوطی میں اہم کردار ادا کیا۔ عرب لیگ اور آرگنائزیشن آف اسلامک کانفرنس بھی کوئی فعال کردار ادا نہ کر سکی چونکہ سارا اسلامی بلاک کسی نہ کسی رشتے سے ان ممالک سے منسلک ہے جن کی نظر عربوں کی دولت پر ہے۔
عرب شیوخ اور حکمران جن ممالک پر مکمل بھروسہ کرتے ہیں ان ہی ممالک کے پالیسی ساز ادارے اسلامی ممالک کی یکجہتی اور ایک دوسرے پر عدم اعتماد کی فضأ قائم کرنے کے ذمہ دار ہیں۔
ایک مخلص عرب دوست نے دوران گفتگو رنجیدہ ہو کر بتایا کہ عرب ممالک کی خوش قسمتی ہے کہ رب تعالیٰ نے انہیں قرآن کی زبان عطا کی مگر بدقسمتی یہ ہے کہ عربوں نے قرآن سمجھنے سے گریز کر رکھا ہے۔
سعودی عرب کی مثال پیش کرتے ہوئے کہنے لگے کہ غریب مسلمان ممالک کے مزدوروں اور محنت کشوں کو ساری عرب دنیا خصوصاً سعودی عرب میں غلاموں اور جانوروں سے بھی بدتر سمجھا جاتا ہے۔ کئی کئی ماہ تک انہیں تنخواہوں سے محروم رکھا جاتا ہے اورفاقہ کشی ان کا مقدر بن جاتا ہے۔ چونکہ بھیک مانگنے پر سعودی پولیس جیلوں میں بند کر دیتی ہے۔ علاج معالجے کا کوئی بندوبست نہیں۔ معمولی معمولی باتوں پر سعودی پولیس پکڑ لیتی ہے۔ نہ وکیل کی سہولت میسر ہوتی ہے اور نہ ہی قاضی کے دفتر یا عدالت کا کسی کو پتہ ہوتا ہے۔ سعودی عرب میں پھنس جانا زندگی سے ہاتھ دھونے کے مترادف ہے۔

Chapters / Baab of Kashmir Ka Almiya By Asrar Ahmed Raja