Episode 50 - Kashmir Ka Almiya By Asrar Ahmed Raja

قسط نمبر 50 - کشمیر کا المیہ - اسرار احمد راجہ

تاریخ کے اس طویل سفر میں بھی کشمیر کا اشارةً ذکر ملتا ہے۔ ہندو عقیدے کے مطابق ہند نے ہندوستان آباد کیا اور صدیوں تک ہندی قبائل ہندوستان کے طول و عرض میں آباد ہوتے رہے اور آبادیاں پھیلتی رہیں۔ ہند کی نسل سے کشن نامی شخص نے ہندی قبائل کو مطیع کیا اور ہند کا پہلا حکمران بنا۔کچھ ہندو دانشوروں کا خیال ہے کہ کشن کا تعلق ہند سے نہیں بلکہ یافت کی اولاد سے تھا جو ایک سر سبز علاقے میں واقع ندی کے کنارے پیدا ہوا جسے بعد میں عظیم ہندی بادشاہ کے نام سے منسوب کیا گیا۔
اس ندی نے ہند کو پہلا بادشاہ عطا کیا اس لئے اس ندی کو متبرک قرار دیتے ہوئے اس کا نام کشن گنگا رکھا گیا۔ ہندووٴں کے مطابق کشن گنگا، گنگا اور جمنا سے بھی زیادہ متبرک ہے اور اس کا پانی اصل امرت ہے۔
ہندی تاریخ کے مطابق ہند کا حکمران منیب راوٴ ایرانی بادشاہ رستم سے شکست کھا کر شمال کی طرف کشن وادی میں چلا گیا اور پھر دیوتاوٴں کی مدد سے واپس آیا تو ایرانیوں نے خود ہی اس کا علاقہ خالی کردیا تھا۔

(جاری ہے)

جیسا کہ پہلے عرض کیا ہے کہ تاریخ کاہر واقعہ نہ تو سچائی پر اور نہ ہی حقیقت کی کسوٹی پر پرکھا جاسکتا ہے مگر یہ بھی حقیقت ہے کہ تاریخ دان،کہانی نویس یا قصہ گو ہر واقعہ، ہر کہانی اور داستان میں نہ صرف خود موجود ہوتا ہے بلکہ اس کے شعور میں بسی عقیدت، محبت، عداوت، حسرت ویاس کا مادہ بھی کارفرما ہوتا ہے۔
تاریخ افغانستان کا مصنف پروفیسر عاشق درانی لکھتا ہے کہ عبداللہ ایشک نے کشمیر فتح کیا مگر عبداللہ ایشک کی بداعمالیوں اور درندگی کا ذکر نہیں کیا۔
پروفیسر عاشق نے نہیں لکھا کہ عبداللہ ایشک کا رویہ مغلوں، سکھوں اور ڈوگروں سے زیادہ بدتر تھا۔ افغانوں نے عبداللہ ایشک کے حکم پر سرینگر اور ملحقہ قصبوں اور شہروں کو جی بھر کر لوٹا اور قتل عام کیا۔ کشمیری آج بھی اس ظالم درندے کو نفرت اور حقارت سے یاد کرتے ہیں جس نے تین لاکھ کشمیریوں کا قتل کیا اور ہزاروں بچوں اور عورتوں کو قیدی بناکر افغانستان بھجوا دیا۔
1753ء سے 1773ء تک افغانوں اور کشمیریوں کے درمیان کشمیر کے اندر ہی جنگ جاری رہی۔ والئی مظفر آباد راجہ سلطان محمود نے افغانوں کے واپسی کے راستے بند کر دیے اور کھکھہ قبائل کو افغانوں کی سرکوبی کا کھل کر موقع فراہم کیا۔ راجہ سلطان محمود نے میر فقیر اللہ کنٹھ کو ساتھ ملایا اور افغانوں کو سرینگر سے نکال دیا۔ 1776ء میں تیمور شاہ نے کشمیر پر پھر حملہ کیا تو راجہ سلطان محمود نے جموں کے رنجیت دیوان سنگھ کو ساتھ ملا کر افغانوں کا راستہ روکنے کی کوشش کی مگر عین موقع پر رنجیت دیوان سنگھ نے اپنی فوجیں واپس بلالیں۔
افغان گورنر حاجی کریم داد کا منصوبہ تھا کہ وہ سکردو اور گلگت پر یلغار کرکے چترال کے راستے افغانستان سے کشمیر کی سرحدیں بحال کرے۔ والئی جموں کی بدعہدی کے بعد اس نے سکردو کے بجائے مظفر آباد پر حملہ کردیا۔ راجہ سلطان محمود نے کھکھہ سردار راجہ فتح خان کو ساتھ ملا لیا اور افغان جرنیل قلی خان کو عبرتناک شکست دی۔ قلی خان بمشکل جان بچا کر سرینگر پہنچا اور افغانوں نے راجگان مظفر آباد اور کرناہ کے سامنے ہتھیار رکھ دیے۔
پروفیسر عاشق درانی کی تاریخ سے پتہ چلتا ہے کہ مخزن اور فرشتہ کے متعلق جو کچھ کالکارنچن نے لکھا ہے وہ سچ اور مبنی برحقیقت ہے۔
موجودہ دور کا تجزیہ کیا جائے تو سوائے کمرشل رائیٹرز کے کسی بھی سنجیدہ لکھنے والے پاکستانی نے کشمیر کا ذکر نہیں کیا۔پاکستانی سیاستدانوں نے بھی کشمیر کو وہ اہمیت نہیں دی جس کا اظہار بانی پاکستان قائداعظم نے کیا تھا۔
قائداعظم نے کشمیر کو پاکستان کی شہ رگ قرار دیا ۔ کئی عشروں بعد بھارت نے اٹوٹ انگ کا نعرہ لگایا تو سوشلزم اور سیکولرزم کے حامی پاکستانی شاعروں، ادیبوں اور صحافیوں نے بھارت کے اس نعرے کو حتٰی المقدور تقویت دی اور قائداعظم کے بیان کا تمسخر اڑایا۔ پاکستانی حکمران طبقہ ہمیشہ سے ہی کشمیر بیزار پالیسی پر گامزن رہا ہے۔ اب تو معیشت دانوں نے بھی نئی اصطلاح گھڑلی ہے کہ کشمیر سے جان چھڑائے بغیر ملک میں سیاسی اور معاشی استحکام ممکن نہیں۔
ان لوگوں کا خیال ہے کہ مسئلہ کشمیر کا جیسا بھی حل بھارت کو پسند ہو، اسے تسلیم کر لیا جائے تاکہ آزاد کشمیر اور گلگت بلتستان کی صورت میں دو نئے صوبے پاکستان کا حصہ بن جائیں۔ یہ لوگ اس حل کی صورت میں فوج کی تعداد میں خاطر خواہ کمی اور ڈیفنس بجٹ محض علامتی حد تک محدود کرنا چاہتے ہیں۔ زرداری اور شریف خاندان اس سازش میں برابر کے شریک ہیں جنہیں فضل الرحمن، اچکزئی، سندھی قوم پرستوں،قادیانیوں،اے این پی اور ایم کیو ایم سمیت دیگر سیاسی گروپوں کی بھرپور حمایت حاصل ہے۔ عمران خان کی کوئی واضح کشمیر پالیسی نہیں مگر بھارت سے نرم رویے کا عمران بھی حامی ہے۔

Chapters / Baab of Kashmir Ka Almiya By Asrar Ahmed Raja