Episode 48 - Kashmir Ka Almiya By Asrar Ahmed Raja

قسط نمبر 48 - کشمیر کا المیہ - اسرار احمد راجہ

شیر شاہ سوری کا باپ میاں حسن سہسرام میں ایک معمولی جاگیردار تھا جس کی مالیت پندرہ یا پچاس گھوڑوں سے زیادہ نہ تھی۔ ایک وقت ایسا بھی آیا جب شیر شاہ نے باپ کی عیاشیوں سے تنگ آکر کنارہ کشی کر لی اور سوری ڈاکووٴں کا سردار بن کر ڈاکے ڈالنے لگا۔ وہ اکثر جنوبی بہار کے جنگلوں میں روپوش رہتا۔ کچھ عرصہ بعد فرید الدین (شیر شاہ سوری) نے ڈاکہ زنی سے توبہ کر لی اور سہسرام کے قریب ایک مدرسے میں قیام کیا۔
شیر شاہ کی تعلیم و تربیت کا سلسلہ اٹھارہ سال کی عمر کے بعد ہوا۔ شیر شاہ کے متعلق بہت سے قصے کہانیاں پٹھان قلم کاروں نے لکھے جن میں کوئی صداقت نہیں۔ شیر شاہ بابر کے عہد میں کم سن تھا اور کبھی سہسرام سے باہر ہی نہیں گیا تھا۔ افغانوں نے اسے ایک بڑا جرنیل اور باغی قرار دیا جس سے بابر جیسا شخص بھی خائف تھا۔

(جاری ہے)


افغانوں کی طرح موجودہ دور میں آزاد کشمیر کے وظیفہ خوار صحافی بھی اسی طرح چرب زبانی اور خوشامدانہ تحریروں سے پیٹ پالتے ہیں جبکہ پاکستان میں چوٹی کے صحافی بھی ذلت و رسوائی کو ادب و صحافت کا اعلیٰ معیار تصور کیئے ہمہ وقت کرپشن کے کیچڑ میں ڈبکیا ں لگاکر قلم کا سودا کرنے کے لئے تیار رہتے ہیں۔
جہاں کرپشن اور ہوس کی ہڈی ہوان کے علم کی بو وہاں تک سونگھنے کی صلاحیت رکھتی ہے۔ افغان دانشوروں اور تاریخ دانوں کا پرانا وصف آج بھی جاری ہے۔ وہ اپنے نظریے، قومیت اور وطنیت سے غداری نہیں کرتے۔ پختون والی اور پختون شرم ان کے خون میں شامل ہے۔ پاکستانی صحافت وطن فروشی، دین فروشی، جھوٹ اور وطن دشمنوں کی ہمنوائی کا پیشہ ہے۔ اس پیشے سے منسلک محب وطن اور نظریہ پاکستان کے حامی طبقے کو غیرت بریگیڈ، فوج کے ایجنٹ اور اسلام کے ٹھیکیدار کہہ کر ان کی تذلیل کی جاتی ہے۔
1520ء کا سال افغان پٹھانوں کی تاریخ میں اس لئے اہم ہے کہ جنوبی ہند میں مقیم سارے پٹھانوں نے ایک دوسرے کے خلاف خونی معرکہ آرائی کی۔ باپ بیٹے کے خلاف اوربھائی بھائی کے خلاف تلوار سونت کر نکلا اور ایک ہی دن میں دس ہزار پٹھان میدان جنگ میں کام آئے۔ ابراہیم لودھی نے اپنے بھائی کو قید کر لیا اور اس کے حمایتی سرداروں سمیت سب کو قتل کروا دیا۔
اقتدار بحال ہوا تو ابراہیم لودھی نے مستحکم ہوتے ہی اپنے حمایتی سرداروں جن پر شک گزرا تہہ تیغ کروا کر ان کے خاندانوں کو قلعہ بند کروادیا۔
افغان تاریخ کا مختصر جائزہ پیش کرنے کا مقصد صرف اتنا ہے کہ صدیاں بیت جانے کے باوجود نہ تو افغانستان بدلا ہے اور نہ ہی افغانی قوم کے مزاج، معاشرت اور نفسیات میں کوئی فرق آیا ہے۔
بدقسمتی یہ ہے کہ آج پاکستان میں کوئی ایسا سیاسی کردار نہیں جو پڑوس میں آباد اس قوم کی نبض سمجھنے کی صلاحیت رکھتا ہو۔ وہ لوگ جو خود کو افغان امور کا ماہر سمجھتے ہیں احمقوں کی جنت میں رہتے ہیں۔ پشتو زبان بولنے اور افغانستان کی سیر کرنے سے کوئی شخص افغان امور کا ماہر نہیں ہوسکتا۔ افغانوں پر بم برسانے یا ان کے گھروں کے باہر ڈالروں کے ڈھیر لگانے سے افغانوں کے مزاج پر کوئی اثر نہیں ہوتا۔
جو شخص اپنے باپ اور بھائی کے خلاف بندوق اٹھانے سے نہیں شرماتا اس کے نزدیک پڑوس کی کوئی اہمیت نہیں۔ افغانستان بنیادی طورپر ایران کا حصہ ہے جو 1747ء میں الگ ملک بنا۔ ایرانی دنیا کی واحد قوم ہے جو افغان نفسیات کو سمجھتی ہے اور اسی کے مطابق ان سے تعلقات استوار کرتی ہے۔ ایرانی عوام دین، مسلک ، زبان اور پڑوس جیسے جذباتی نعروں سے متاثر نہیں ہوتے اور نہ ہی اپنے ملک کو کسی دوسرے کی چراگاہ بننے کی اجازت دیتے ہیں۔
ایرانیوں نے افغانوں کو کبھی عزت کی نگاہ سے نہیں دیکھا۔ ان کے نزدیک پٹھان خونخوار وحشی اور درندہ صفت ہیں۔ وہ انہیں محسن کش، بے وفا اور ناقابل اعتماد خیال کرتے ہیں۔ ایرانی افغانوں سے ہمیشہ احتیاط سے معاملات طے کرتے ہیں اور انہیں قابل بھروسہ نہیں سمجھتے۔ وسطی ایشیائی ممالک کا بھی یہی حال ہے۔ سوائے سعودی عرب اور خلیجی ریاستوں اور پاکستان کے کوئی دوسرا اسلامی ملک بشمول چین افغانوں پر کامل اعتماد نہیں کرتا۔
ماضی قریب میں افغانستان کا سب سے قریبی دوست ملک جرمنی تھا۔ جرمنوں کا خیال ہے کہ افغان پٹھان قبائل اور جرمن قبائل ایک ہی آرین قبیلے کی مختلف شاخیں ہیں۔ کامل القادری نے اپنی کتاب مہمات بلوچستان میں دلچسپ کہانی بیان کی ہے۔ وہ لکھتے ہیں کہ سکندر اعظم سے ڈھائی ہزار سال پہلے ایرانی سلطنت کی بنیاد خورش نے رکھی جسے قرآن کریم میں ذوالقرنین کا نام دیا گیا ہے۔
کامل القادری لکھتے ہیں کہ ذوالقرنین ہی سائیرس اعظم تھا جس کی مغربی مہم ایشیائے کو چک کی مختلف ریاستوں کی جانب تھی۔ وہ بحرہ روم تک گیا جہاں سورج غروب ہونے کا ذکر ہے۔ وہ مشرقی مہم میں صوبہ سرحد تک آیا جہاں اس کا سامنا نہنگ دھڑنگ وحشی قبائل سے ہوا۔ یہاں کامل القادری کی تاریخ پر بحث کا موقع نہیں۔ قرآن کریم کی سورة کہف میں حضرت موسیٰ  اور حضرت خضر  کے واقعہ کے بعد ذوالقرنین کا ذکر ہے۔
قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ جب وہ مغرب میں ایک وحشی قوم پر اترا تو ہم نے اسے اختیار دیا کہ وہ جس طرح چاہے ان سے معاملہ کر لے۔ کیا یہ پیغام القائی تھا، بذریعہ وحی تھا یا پھر حضرت موسیٰ کی طرح خود باری تعالیٰ ذوالقرنین سے ہم کلام ہوئے۔ اس کا ذکر بہرحال موجود نہیں۔ عرب شعرأ اور تاریخ دان اسے عرب کا کوئی عظیم الشان بادشاہ مانتے ہیں۔
یہودیوں کے نزدیک وہ حمو رابی کی طرح اہل بابل میں سے تھا اور بزرگی میں بلند تر مقام رکھتا تھا جس کا ذکر آسمانی کتابوں میں آیا ہے۔ ذوالقرنین کے متعلق یہ بھی کہا جاتا ہے کہ وہ حضرت ابراہیم  کے دور میں ہوا یا پھر ان کے دین پر تھا جسے اللہ تعالیٰ نے فضیلت دی۔ بعض شارحین نے لکھا ہے کہ حضرت خضر  حضرت ذوالقرنین کے وزیر تھے چونکہ موسیٰ  اور خضر  کے واقعہ کے بعد ذوالقرنین کا ذکر آنا اس بات کی دلیل ہے۔

Chapters / Baab of Kashmir Ka Almiya By Asrar Ahmed Raja