Episode 31 - Kashmir Ka Almiya By Asrar Ahmed Raja

قسط نمبر 31 - کشمیر کا المیہ - اسرار احمد راجہ

ایسے لوگ معاشرے میں کم ہوتے ہیں مگر خیالات و نظریات میں یکسانیت ان کا خاصہ ہوتا ہے۔ تحریک پاکستان کی تاریخ پر نظر ڈالیں تونواب سلیم اللہ خان آف ڈھاکہ سے لیکر علامہ اقبال اور قائداعظم تک جتنے بھی دانشور، استاد، مفکر، قائد، علمائے حق اور باشعور لوگ ہوئے ہیں ان کی سوچ و فکر ایک جیسی تھی۔ ان سب نے محسوس کیا اور برملا اس کا اظہار بھی کیا کہ ہندو اور مسلمان دو قومیں ہیں چونکہ دونوں کے نظریات و عقائد الگ الگ ہیں۔
صدیوں پہلے مشہور مورخ ابن بطوطہ نے اپنے سفرنامے میں ہندو تہذیب و تمدن کا مشاہدہ کرتے ہوئے لکھا کہ ہندکے مسلمانوں اور ہندووٴں میں کوئی چیز مشترک نہیں ۔ کھانا، پینا، اوڑھنا بچھونا، شادی، مرگ، عقیدہ و اخلاقی اقدار بھی جدا جدا ہیں۔ ابن بطوطہ کے ان خیالات کی مشہور مورخ و سائنسدان البیرونی نے بھی تائید کی۔

(جاری ہے)

مغلیہ سلطنت کے خاتمے پر پہلی بار انگریزوں کی صورت میں برصغیرپر عیسائیت کا غلبہ ہوا۔

انگریزی افواج اور انتظامیہ کی کل تعداد ایک لاکھ سے زیادہ نہ تھی مگر اس کے باوجود انگریز اشوک اعظم، اکبر اعظم اور اورنگزیب عالمگیر کے جانشین ثابت ہوئے۔ انگریزوں نے ہندوستانی سرحدوں سے باہر بحرہند میں موجود جنرائر کے علاوہ چین کے سرحدی علاقوں، افغانستان، ایران اور مشرق بعید کے کئی ممالک پر بھی تسلط قائم کیا اور ان پر اپنی مرضی کے حکمران مسلط کیئے۔

حضور نبی کریم ﷺکی زندگی میں ہی اہل ہند کا اسلام سے رابطہ قائم ہوچکا تھا اور عرب تاجروں کے ذریعے دین اسلام کا پیغام اہل ہند تک پہنچ چکا تھا۔ خلیفہ اوّل حضرت ابوبکر صدیق  کے دور حکومت میں مسلمانوں نے ایران پر حملہ کیا اور بہت سے علاقے فتح کر لیے۔ ایرانی بادشاہ یزد جرد شہریار تخت کیان چھوڑ کر بھاگ گیا اور خراساں کے علاقے میں جا بیٹھا۔
خلیفہ دوئم حضرت عمر کے دور حکومت میں ایران پر مکمل قبضہ ہوا تو مسلمانوں نے بلخ، قندہار اور مکران تک سارے سیستان پر قبضہ کر لیا۔ اسی دور میں ہرات اور غزنی بھی زیر تسلط آئے۔ مسلمان لشکر نے پشاور پر دوبارہ حملہ کیا۔ دوسری بار عربوں نے پشاور پر یلغار کی تو پیش قدمی کرتے ہوئے موجودہ چلاس سمیت سارے یاغستان پر قابض ہوگئے۔
خلیفہ سوئم حضرت عثمان کے دور خلافت میں گلگت، بلتستان سمیت کا شغرتک مسلمانوں نے رسائی حاصل کی۔
مسلمان مبلغین نے مقامی لوگوں کو دین اسلام سے متعارف کروایا تو شمالی علاقوں اور کاشغر کے باشندوں نے کثیر تعداد میں اسلام قبول کیا اور مقامی اسلامی حکومتیں قائم کیں۔
اموی دور میں حضرت عثمان کے بیٹے حضرت عبداللہ نے اسلامی ریاست کو مزید وسعت دی اور دریائے کش گنگا (نیلم) تک کا علاقہ فتح کیا۔ اموی دور میں ہی محمد بن قاسم نے بلوچستان سے آگے نکل کر دیبل پر حملہ کیا اور ملتان تک اسلامی حکومت کا جھنڈا لہرایا۔
عباسی دور خلافت میں ہندوٴستان میں کوئی بڑی پیش رفت نہیں ہوئی۔ عباسی سلطنت محلاتی سازشوں کے نتیجے میں کمزور ہوئی تو ایران، ترکستان اور دیگرکئی ریاستوں نے نیم خود مختار انہ حیثیت اختیار کرلی۔ ان ریاستوں کا بغداد سے محض ہمدردی اور تعظیم کا رشتہ قائم تھا۔ 
عباسی خلفأ محلاتی سازشوں کا شکار ہوئے تو سلطنت کا نظام بھی بکھر گیا۔
تاتاریوں نے آخر کار اس نظام کی بساط لپیٹ دی اور عظیم اسلامی سلطنت ایک بار پھر ٹکڑوں میں بٹ گئی۔ تاتاری کسی بڑی سلطنت کی قیادت سنبھالنے کا تجربہ نہ رکھتے تھے۔ وہ صرف میدان جنگ کے ہیرو تھے یا پھر گلہ بانی کے پیشے سے واقف تھے۔ عین الجالوت کے میدان میں تاتاریوں کو سلطان بیبرس ایوب کے ہاتھوں شکست ہوئی تو نہ صرف ان کی پیش قدمی رک گئی بلکہ ذہنی کیفیت بھی بدل گئی۔
بہت سے تاتاری سردار اور نامور جنگجو حلقہ بگوش اسلام ہوئے تو ترکی اور ایران سمیت وسطی ایشیائی ممالک وجود پذیر ہوئے۔ ثمر قند، بخارا، شیراز، قونیا، بلخ، بغداد اور غزنی علم و ہنر کے مراکز بن گئے۔
عثمانی ترکوں اور ایل خانی ایرانیوں نے مضبوط حکومتیں تو قائم کر لیں مگر باہمی اختلافات و عناد کا خاتمہ نہ کر سکے۔
ایل خانیوں کے بعدصفوی دور آیا تو شاہ اسمٰعیل اور ترک سلطان سلیم عثمانی نے ایک دوسرے کی طرف دوستی کا ہاتھ بڑھایا۔ شاہ اسماعیل کی خواہش کا امرأ و علمأ کو علم ہوا تو شعیہ سنی اختلافات سامنے آگئے جس کی وجہ سے ترکوں اور ایرانیوں کے درمیان جنگ کی نوبت آگئی۔ صفویوں کے بعد افشاریہ خاندان نے ایران پر حکومت قائم کی۔ افشاریہ خاندان کا نامور حکمران نادر شاہ افشار نسلاً گڈریا تھا مگر بلند ہمت، بردباری اور اعلیٰ انتظامی صلاحیتوں کا مالک تھا۔
نادر شاہ نے افغانستان فتح کیا اور ترکوں سے بیشمار علاقے چھین کر ایرانیوں اور روسیوں پر دھاک بٹھادی۔ ملکہ این نے ایرانی مقبوضہ علاقے خالی کر دیئے اور نادر شاہ کے ساتھ امن کا معاہدہ کیا۔ شاہ عباس کی وفات کے بعد وہ ایران کا بادشاہ بنا اور شیعہ کے بجائے سنی مذہب کو ایران کا سرکاری مذہب قرار دیا۔ نادر شاہ نے ہندوستان پر حملہ کیا اور کمزور مغلیہ حکومت کو مزید تباہ کردیا۔
1747ءء میں نادر شاہ کے قتل کے بعد احمد شاہ ابدالی نے افغان حکومت کی بنیاد ڈالی۔ احمد شاہ ابدالی کے دور میں افغانوں نے کشمیر پر حملہ کیا اور دو سو سالہ مغلیہ دور کا خاتمہ کر دیا۔ مغلوں کے بعد افغان کشمیر پر قابض ہوئے تو ظلم و جبر کا ایک نیا دور شروع ہوا۔ کشمیریوں کی ابتری دیکھ کر مظفر آباد کے حاکم راجہ سلطان محمود نے میر فقیر اللہ کنٹھ کوساتھ ملایا اور افغان گورنر خرم خان کو شکست فاش دیکر سرینگر سے نکال دیا۔
میر فقیر اللہ کنٹھ کشمیر کا حاکم بنا اور راجہ سلطان محمود واپس کرناہ آگیا۔ 1772ءء میں افغان بادشاہ تیمور شاہ نے حزیمت کا بدلہ چکانے کے لئے علی اکبر خان کی قیادت میں لشکر روانہ کیا جس کا حشر بھی خرم خان جیسا ہی ہوا۔ افغانوں نے تیسرا حملہ حاجی کریم خان کی قیادت میں کیا جسے وقتی کامیابی حاصل ہوئی مگر سارے کشمیر پر اقتدار بحال نہ ہوا۔
آزاد خان کی گورنری تک کشمیر کے حالات بدل چکے تھے۔ آزاد خان نے بمبہ ریاست کے ساتھ ٹکر لی مگر کامیاب نہ ہوا۔ آخری حربے کے طورپر آزاد خان نے بلتستان اور گلگت کی تسخیر کا ارادہ کیا تاکہ کشمیر کا افغانستان سے زمینی رابطہ بحال ہو سکے۔ بمبہ سلطان نے کھکھہ سرداروں سے مل کر بلتستان اور گلگت کے راستوں کا تحفظ کیا اور آزاد خان کو سرینگر تک محدود کردیا۔ افغانوں کو پے در پے حزیمتوں نے اس قدرکمزور کردیا کہ وہ مقامی لوگوں سے مل کر حکومت کرنے لگے۔ افغانوں نے بمبہ حکمران سے بھی دوستی کر لی مگر یہ امن دیرپا ثابت نہ ہوا اور سکھوں نے جموں اور پونچھ کے حکمرانوں سے مل کر کشمیر پر قبضہ کر لیا۔

Chapters / Baab of Kashmir Ka Almiya By Asrar Ahmed Raja