Episode 33 - Kashmir Ka Almiya By Asrar Ahmed Raja

قسط نمبر 33 - کشمیر کا المیہ - اسرار احمد راجہ

مستند تاریخ کے مطابق راجہ گوند اوّل کشمیر کا پہلا بادشاہ تھا جس کے دور میں ایک باقاعدہ ریاست قائم ہوئی اور بادشاہ نے ہر صوبے کا گورنر مقرر کیا۔ ساری ریاست پر مساوات و عدل کے نظام کانفاذ ہوا اور عوام کے بنیادی حقوق کا تعین ہوا۔ گوند اوّل نے کرشن کے خلاف مگدھ کے راجہ کی حمایت کی اور متھرا کا محاصرہ کر لیا۔ راجہ گوند اس جنگ میں مارا گیا تو اس کے بیٹے دامودر نے گندھارا پر حملہ کیا مگر ناکام رہا۔
باپ کی طرح دامودر بھی اس لڑائی میں مارا گیااوراس کی بیوہ یشومتی جو اس وقت حاملہ تھی تخت نشین ہوئی۔ یشومتی نے چھ سال تک ریاست کا نظام احسن طریقے سے چلایااور کرشن سے بھی صلح کر لی۔ یشومتی کو یہ اعزاز حاصل ہے کہ وہ ریاست کشمیر کی تیسری باقاعدہ اور پہلی خاتون حکمران ہے۔

(جاری ہے)

تخت نشینی کے بعد اس کے ہاں بیٹے کی ولادت ہوئی جس کا نام گوندثانی رکھا گیا۔

پانچ سال کی عمر میں یشومتی نے بیٹے کو باپ کی گدی پر بٹھایا اور خود بیٹے کی سرپرست اعلیٰ بن کر ریاست کا نظام چلاتی رہی۔ گوندثانی نے چالیس سال تک کشمیر پر حکمرانی کی اور پینتالیس سال کی عمر میں راجہ ہرن دیو کے ہاتھوں قتل ہوگیا۔
گوند ثانی کے بعد چوالیس بادشاہوں نے کشمیر پر حکومت کی جن کے بعد شاہ میری خاندان کشمیر کا حکمران بنا۔
پانڈو خاندان کشمیر پر ایک ہزار سال تک حکمران رہا۔ اسی مدت کے دوران اشوک نے کشمیر پر قبضہ کیا جس کا دور حکمرانی صرف اکتالیس سال ہے۔
ٍ کشمیر کی تمدنی تاریخ کے جائزے سے پتہ چلتا ہے کہ کشمیر ہزاروں سال پہلے ایک ریاست تھی جس پر مختلف ادوار میں کئی خاندانوں نے طویل عرصہ تک حکمرانی کی۔ ان حکمرانوں نے ملک کے طول و عرض میں دفاعی قلعے اور فوجی چوکیاں قائم کیں۔
مذہبی رواداری اور مساوات پر مبنی نظام حکومت قائم کیا اور عوامی فلاح و بہبود کے کام سر انجام دیئے۔ ان حکمرانوں کے ادوار میں کشمیر ایک خوشحال ریاست تھی جس کے ہمسایہ ملک چین سے دوستانہ تعلقات قائم تھے۔ جس دور میں کشمیر ایک خوشحال اور ہر لحاظ سے مضبوط ریاست تھی تب ہندوستان کا کوئی نام و نشان تک نہ تھا۔ موجودہ پاکستان اور افغانستان تین ریاستوں پر مشتمل تھا جن میں گندھارا، گدروشیا اور سندھو شامل تھے۔
یہ تینوں ریاستیں آزاد اور خودمختار تھیں۔پانچ سو قبل مسیح میں ایران کے بادشاہ دارا نے گندھارا، گدروشیا اور سندھو کے جنوبی حصے پر قبضہ کر لیا۔ ڈھائی سوسال بعد مقدونیہ کے سکندر نے ان علاقوں پر یلغار کی مگر وہ کشمیر کی طرف نہ آیا۔
تاریخی لحاظ سے کشمیر ایک منفرد خطہ زمین ہے جس کا الگ تمدنی ورثہ اور ہزاروں سال پر محیط مستند تاریخ ہے۔
تاریخ کے تناظر میں دیکھا جائے تو کشمیر کی موجودہ صورتحال کے ذمہ دار خود کشمیری ہی ہیں جنہوں نے اپنی صدیوں پر محیط عزت و آزادی کی قربانی دے کر غلامی کا چوغہ پہن لیا۔ 1585ء سے لے کر 2018ء کی تاریخ پر نظر ڈالی جائے تو ان چار سو بتیس سالوں میں کشمیری نہ تو ایک نظریے اور نصب العین پر متفق ہوئے اور نہ ہی انہیں کوئی باصلاحیت قیادت نصیب ہوئی۔
تقسیم ہند کے دوران جب مہاراجہ اپنی ریاست بچانے کی تگ و دو میں الجھا ہوا تھا تو غدار شیخ عبداللہ نہرو اور گاندھی کا مشن لے کر کشمیری قوم کو غلامی کے نئے دلدل میں دھنسانے میں مصروف تھا۔ شیخ عبداللہ کے لاہوری رشتہ دار فیض احمد فیض ایم ڈی تاثیر اور دیگر سوشلسٹ دانشور غدار عبداللہ کو قائداعظم سے گستاخانہ رویہ اختیار کرنے پر اکسا رہے تھے تاکہ قائداعظم بددل ہو کر مسلم کانفرنس کی سرپرستی چھوڑ دیں۔
قائداعظم نے گستاخ عبداللہ کی بدکلامی، لغواور بے ہُودہ الزامات کا جواب نہ دے کر لاہوری سازشی ٹولے اور غدار عبداللہ کو کوئی اہمیت نہ دی۔ قائداعظم نے مسلم کانفرنس کے قائدین کو واضح الفاظ میں بتایا کہ وہ آپس میں اتحاد قائم رکھیں اور غدار عبداللہ کے جھانسے میں نہ آئیں۔ قائداعظم کی ہدایات کے باوجود کانفرنسی اتحاد بھی قائم نہ رہ سکا۔
چوہدری غلام عباس اور اے آر ساغر سمیت ساری سینئرقیادت نے جموں جیل سے پیغام بھیجا کہ مہاراجہ کشمیر کے فیصلے کا انتظار کیا جائے اور کوئی ایسی حرکت نہ کی جائے جس سے کشمیری نظریاتی طورپر تقسیم ہوجائیں۔ مسلم کانفرنس کے دوسرے اور تیسرے درجے کے قائدین نے اعلیٰ قیادت کی ہدایات پر عمل نہ کیا جس کا خمیازہ آج کشمیری قوم بھگت رہی ہے۔
صدر آزادکشمیر مسعود خان نے دونوں اطراف کے کشمیریوں کے مستقبل کے موضوع پر اسلام آباد میں منعقدہ ایک سیمینار سے خطاب کرتے ہوئے کہاکہ موجودہ صورتحال میں بھارت نے پراپیگنڈے کے میدان میں ہمیں شکست دی ہے۔
ہم عالمی سطح پر مسئلہ کشمیر اور بھارتی درندگی کو موثرطریقے سے بیان کرنے میں ناکام رہے ہیں۔ خطاب کے اختتام پر ایک کشمیری نے صدر موصوف سے سوال کیا کہ سارے یورپ، امریکہ اور مشرق وسطیٰ میں آزاد کشمیر کی ساری برادریوں اور سیاسی جماعتوں کے حامیوں نے کشمیر سیل اور کشمیرسینٹر کھول رکھے ہیں جو ان ممالک میں موجود تارکین وطن کشمیریوں سے بھاری چندے اور عطیے وصول کرتے ہیں۔ یہ لوگ بھارتی پراپیگنڈے کا جواب کیوں نہیں دیتے۔ کیا یہ آزادی بنرنس اور نصب العین سے غداری کے مترادف نہیں۔

Chapters / Baab of Kashmir Ka Almiya By Asrar Ahmed Raja