Episode 20 - Kashmir Ka Almiya By Asrar Ahmed Raja

قسط نمبر 20 - کشمیر کا المیہ - اسرار احمد راجہ

پاکستان میں میکاؤلین فلسفہ سیاست کے مقابلے میں چانکیائی سیاست نے قدم جمائے تو بھٹو ازم کے پیروکاروں نے میثاق جموریت کا سہارا لینے میں عافیت جانی ۔ کوئی چالیس سال پہلے کی بات ہے کہ جناب ذوالفقار علی بھٹو نے یہی بات ائیر مارشل اصغر خان کو سمجھانے کی کوشش کی مگر ناکام رہے ۔ قائدعوام کو ائیر مارشل کو گراؤ نڈ کرنے میں کامیابی نہ ہوئی مگر کامیابی ائیر مارشل کو بھی نہ ملی ۔
شریف برادران سمیت بہت سے کارکن اور لیڈر ضیاالحق کے ٹینکوں کے آگے لیٹ گئے تو ائیر مارشل اپنے سیاسی اصولوں اور اخلاقی اقدار کی پوٹلی بچاکر گوشہ نشین ہوگئے ۔
 بڑھاپے میں انہیں پہلا جھٹکااُس وقت لگا جب اُن کا بیٹا عمر اصغر جنرل پرویز مشرف کے دربار سے منسلک ہوا اور عوام کو روشن خیالی کا درس دینے لگا ۔

(جاری ہے)

جنرل پرویز مشرف کی قربت کے باجود عمر اصغر نے بھی رقابت کا ر استہ اختیار کیا اور راہی ملکِ عدم ہو گیا۔

سردار مسعود خان کی صدارت وزیراعظم پاکستان اور چیئرمین کشمیر کونسل کی کشمیر پالیسی کا حصہ ہے ۔ یہ پالیسی کیا ہے شایدمولانا فضل الرحمان اور مریم صفدر کو بھی علم نہ ہو ۔
پیپلز پارٹی اور بھٹو خاندان کی کشمیر پالیسی چند لفظوں میں بیان کرنا نہ صرف بھٹو خاندان بلکہ اہل کشمیر کیسا تھ بھی زیادتی کے مترادف ہے۔ بھٹو خاندان کی کشمیر پالیسی کا سفر وزیراعظم جو نا گڑھ سر شاہنواز بھٹو کی جونا گڑھ پالیسی سے شروع ہوتا شملہ ایگریمنٹ اورپھر آصف علی زرداری کے اس بیان تک آتا ہے کہ مسئلہ کشمیر کو تیس سال تک منجمند کر دیا جائے۔
 
پیپلز پارٹی خود کسی اصول یا ضابطے کی پابند نہیں تو اسے آزادکشمیر اور کشمیریوں سے کیا ہمدردی ہوسکتی ہے؟پیپلز پارٹی کی کشمیر پالیسی آزادکشمیر پر حکمرانی کرنے اوراپنے ایجنٹوں کو نوازنے تک محدود ہے۔گلگت و بلتستان حکومت کا قیام ، معائدہ کراچی کی خلاف ورزی، آزاد جموں وکشمیر ہائی کورٹ کے فیصلے سے انحراف اور مولانا فضل الرحمن کو کشمیر کمیٹی کا چیئرمین مقرر کرنا پیپلز پارٹی کی اینٹی کشمیر پالیسی کے واضح نشانات ہیں۔
سیز فائر لائین کو لائن آف کنٹرول میں بدلنا ،آزادکشمیر میں پیپلز پارٹی کی حکومت قائم کرنا ، گنگا طیارے کی تباہی ، مقبول بٹ شہید اور محاذرائے شماری کے قائدین سے ٹانڈاڈیم ریسٹ ہاؤس کوہاٹ میں طویل مذاکرات ، مقبول بٹ شہید کو مقبوضہ کشمیر بھجوانا اور بے یارو مدد گار چھوڑنا اور فاروق عبداللہ کے ذریعے اندرا گاندھی کو آزادکشمیر کو صوبہ بنانے کی یقین دھانی کروانا ایسے اقدامات ہیں جو سب کے سب پیپلز پارٹی کی کشمیر پالیسی کے زندہ ثبوت ہیں۔
 
آزادکشمیر کی صدارت ہو یا وزارت عظمیٰ یا پھر کوئی معمولی وزارت یا مشاورت، ہر عہدے اور سیٹ کی بولی لگتی ہے۔ آزادکشمیر کی سیاست ایک منافع بخش کاروبار ہے ۔ جو جتنا لگاتا ہے سو گنا کماتا ہے۔ سردار محمد ابراہیم خان ، سردار عبدالقیوم خان، سردار سکندر حیات اور جنرل عبدالرحمن انتہائی تابعدار صدور رہے ہیں ۔ جنرل حیات خان نے ملٹری ڈسپلن برقرار رکھا اور جو کچھ میسر آیا اُسے عوام کی خدمت میں پیش کر دیا۔
جنرل حیات خان مرحوم کے ڈسپلن اور عوامی خدمت کے صلے میں آزادکشمیر کے عوام نے انہیں مستردکر دیا ۔ خدمت کی سیاست جب عوام کے مزاج سے مطابقت نہ رکھتی ہو تو کرپٹ ، بد عہد اور بد عنوان عناصر حکمران بن کر نہ صرف آزادی اور انسانی حقوق چھین لیتے ہیں بلکہ ایمان بھی متزلزل کر دیتے ہیں۔ ایسے حکمرانوں کے تسلط سے معاشرہ برائیوں کی آما جگاہ بن جاتا ہے اور ریاست کا تصور بے معنی ہو جاتا ہے۔ 

Chapters / Baab of Kashmir Ka Almiya By Asrar Ahmed Raja