Episode 92 - Kashmir Ka Almiya By Asrar Ahmed Raja

قسط نمبر 92 - کشمیر کا المیہ - اسرار احمد راجہ

اسلامی ممالک کی مثال سامنے رکھیں تو ہر ملک کا اعلیٰ تعلیم یافتہ اور حکمران طبقہ اہل مغرب کا مقلد ہے اور وہ مغرب اور امریکہ کی حمایت سے اپنے اپنے ملکوں اور عوام پر اپنی مرضی مسلط کرنے کا سرٹیفکیٹ حاصل کرتا ہے۔ اسلامی ممالک کی جمہوریت، آمریت اور بادشاہت جبرواستحصال کی دیوی کے مختلف چہرے ہیں جنکا اوّلین مقصد عوام الناس پر جبر کا شکنجہ کسنا اور انہیں حیوانوں کی طرح اپنی مرضی کے مطابق ہانکنا ہے۔
کاروباری اور سیاسی طبقات سے لے کر مذہبی اور دینی جماعتوں کے سربراہان اور نوکر شاہی کا ایک ہی مقصد ہے کہ وہ زیادہ سے زیادہ دولت لوٹ کر مغربی ممالک اور سوئس بینکوں میں منتقل کریں اور عوام میں اتنی سکت باقی نہ رہے کہ وہ ان نام نہاد لیڈروں کے خلاف آواز اٹھانے کی جرأت کر سکیں۔

(جاری ہے)


کسی بھی اسلامی ملک میں عدل وانصاف اور انسانی حقوق کے احترام کا شائبہ تک نہیں۔
پڑھا لکھا شخص جس بھی پیشے سے منسلک ہو اور کتنے ہی بڑے عہدے اور مرتبے پر فائز کیوں نہ ہو اس کے لئے ضروری ہے کہ وہ متکبر اور بداخلاق بھی ہو۔ ان صفات کے بغیر وہ اپنی شخصیت،علمّیت اور معیار زندگی کو ادھورا اور عام تصور کرتا ہے۔ یہی حال صحافیوں، دانشوروں، ادیبوں، شاعروں، گدی نشین پیروں اور نودولتیے امیروں کا ہے۔
کہتے ہیں کہ الازہر یونیورسٹی کے مہتمم اعلیٰ مغربی ممالک کے دورے سے واپس لوٹے تو کسی صحافی نے انٹرویو کے دوران پوچھا کہ آپ نے مغربی اور اسلامی ممالک میں کیا فرق محسوس کیا۔
آپ نے فرمایا مغرب میں مسلمان تو نہیں دیکھے مگر کسی حد تک اسلام دیکھا ہے۔ مسلمان ممالک میں مسلمانوں کی تو بھرمار ہے مگر بدقسمتی سے اسلام نہیں۔
یہ بات بہت پہلے کی ہے۔ آج رہا سہااسلام بھی نہیں رہا اور نہ ہی اسلامی تہذیب کے اجزأ اور عناصر مسلم تہذیب کا حصہ ہیں۔دیگر اسلامی ممالک کے مقابلے میں پاکستان اور پاکستانیوں کا اخلاقی، سیاسی، دینی اور روحانی معیار اس قدر پست ہوچکا ہے کہ اگر دو تین بار زرداری اور نواز شریف ٹولہ پھر حکومت پر قابض ہوا تو پاکستانی معاشرہ بکھر کر مکمل بے دین اور بد تہذیب بن جائیگا۔
آج ساری دنیا کی نظریں اقبال اور قائداعظم کے پاکستان پر مرکوز ہیں۔ اندرونی اور بیرونی سازشوں میں دن بدن ہم آہنگی بڑھ رہی ہے اور پاکستانی سیاستدان،نوکرشاہی، عدلیہ، سول سوسائٹی، مذہبی اور دینی حلقے مل کر ایک باجگزار اور محکوم پاکستان اور بے دین معاشرے کے قیام کے لئے کوشاں ہیں۔
آزاد کشمیر اور مقبوضہ کشمیر ناموں کی حد تک تو آزاد اور غلام ہیں مگر حقیقت میں دونوں کی اہمیت یکساں ہے۔
آزد کشمیر کی سیاسی قیادت نو دولتیوں، چوروں، ڈاکووٴں اور سیاسی بازیگروں پر مشتمل ہے جن کی سیاسی قوت جرائم،برادری، کرپٹ انتظامیہ اور پاکستانی سیاسی پنڈتوں کی ناز برداری اور غلامی ہے۔
نواز شریف، زرداری، الطاف حسین، فضل الرحمن کی خوشنودی ان کے عقیدے اور ایمان پر غالب ہے۔ انسانی سمگلنگ سے لے کر ہر برائی اور جرم ان کی سرشت میں شامل ہے۔
آزاد کشمیر کا بجٹ ان سیاستدانوں اور ان کے ایجنٹوں کے ناوٴ نوش کو مدنظر رکھ کر بنایا جاتا ہے۔ سرکاری نوکریاں حکومتی منڈی میں بکتی اور بٹتی ہیں۔
آزاد کشمیر کو عالمی سطح پر یہ اعزاز بھی حاصل ہے کہ یہاں کے باشندگان نے برطانیہ آکر ہم جنس پرستوں کی فہرست میں اپنا نام لکھوایا اور عدالت میں جا کر شادی رچائی۔
آزاد کشمیر کا دوسرا اعزاز گاندھی، مودی اور مہاراجہ ہری سنگھ کے مقلدین کا ٹولہ ہے جسے زرداری اور شریفوں کی حمایت حاصل ہے۔
مغربی ممالک اور امریکہ میں بسنے والے تارکین وطن اور بھارتی خفیہ ایجنسی ان کی مالی معاونت کرتی ہے۔ 
حال ہی میں نواز شریف نے حریت کانفرنس کے ایک وفد سے ملاقات کے دوران مشورہ دیا کہ وہ بھارتی آئین کی حدود میں رہتے ہوئے کشمیر کے پر امن حل کے لئے کوشش کریں تاکہ آزاد کشمیر اور گلگت وبلتستان کے عوام کو پاکستانی آئین کے تحت سہولیات اور بنیادی شہری حقوق حاصل کرنے میں کوئی دشواری نہ رہے۔
حیرت ہے کہ آزاد کشمیر کے کسی بلیک لیبل ٹن سیاستدان نے اس پر احتجاج نہ کیا اور نہ ہی پاکستانی میڈیا نے اسے کوئی اہمیت دی۔ شاید کسی مدہوش سیاستدان کو معاہدہ کراچی اور اقوام متحدہ کے اس اعلان کا پتہ ہی نہ ہو جس کے تحت آزاد کشمیر کا علاقہ پاکستان کے حوالے کیا گیا تھا۔ حکومت پاکستان اور اقوام متحدہ کے نمائندے کے اس معاہدے پر دستخط موجود ہیں جس کے تحت اس علاقے کے عوام کی جان و مال اور بنیادی انسانی حقوق اور امن و امان کی ذمہ داری حکومت پاکستان پر عائد ہوتی ہے۔

Chapters / Baab of Kashmir Ka Almiya By Asrar Ahmed Raja