Episode 10 - Kashmir Ka Almiya By Asrar Ahmed Raja

قسط نمبر 10 - کشمیر کا المیہ - اسرار احمد راجہ

رامائن اور مہا بھارت جیسی قدیم کتابوں میں ان قصے کہانیوں کو خاص مقام ملا اور دیگر مذہبی اور تاریخی کتابوں کے مصنفین نے بھی ان روایات کو عقائد میں بدلنے میں خاص محنت کی جو بالآخر کسی تحقیق کے بغیر ہی تسلیم کر لی گئیں۔ عہد عتیق سے عہد جدید تک کے گلگت، بلتستان اور ملحقہ علاقوں کی تاریخ کا کوئی باب کشمیر کے بیان کے بغیر مکمل نہیں۔ درد، بھٹ اور پٹولہ شاہی ادوار کے معرکے ہوں یا پھر عشق و محبت کی داستانیں۔
کبھی کوئی حملہ آور تبت سے آکر پہلے بلتستان اور گلگت کو زیرنگین کرتا ہے اور پھر وادی کشمیر کے مسحور کن حسن کی کشش سے کھنچا چلاآتا ہے اور بس یہیں کا ہو کر رہ جاتا ہے۔ کبھی کوئی کشمیری شہزادہ بلتستان کا رخ کرتا ہے اور وہاں اسے نہ صرف حاکم بلکہ دیوتا کا درجہ مل جاتا ہے۔

(جاری ہے)

وہ تبتیوں اور بلتیوں کی فوج تیار کرتا ہے اور پھر گلگت، چترال اور بدخشاں تک زمینوں کو روندتا اور فتح کے جھنڈے لہراتا واپس آتا ہے۔

تہذیب و ثقافت کی تاریخ کا ہر دور کشمیر، دردستان اور بلورستان کو نہ صرف باہمی رشتوں میں جوڑتا ہے بلکہ خونی رشتوں میں بدلتا نظر آتا ہے۔ دردستان اور بلورستان میں وارد ہونے والے حملہ آوروں اور مبلغین کی اگلی منزل ہمیشہ ہی وادی کشمیر ٹھہری ہے۔ کشمیری اور تبتی فنکاروں، دستکاروں اور ہنرمندوں نے جس قدر کشمیر کے قدرتی حسن کو اپنی ماہرانہ قابلیت سے چار چاند لگائے اس سے بڑھ کر انہوں نے وادی خپلو، شگر، سکردو،ہنزہ، نگر، گلگت اور چترال کو بھی ایسی فنکارانہ اورماہرانہ شان بخشی جس کے نقوش صدیوں بعد آج بھی کسی نہ کسی صورت قائم ہیں۔
والئی کشمیر امیر کبیر شاہ ہمدان شمال سے کشمیر آئے تو اپنے ساتھ مبلغین کی ایک جماعت بھی لائے جنہوں نے بدخشاں سے بارہ مولہ تک دین اسلام کی روشنی پھیلائی اور دلوں کی تسخیر کی۔ واپسی پر وہ کشمیری ہنرمندوں اور فنکاروں کا دستہ لے کر چلے اور کشمیری فن تعمیر سے دنیا کو متعارف کروایا۔ وادی شگر کے سات مقابر اور چودہ مسجدیں ہوں یا خپلو کی چقچن زیارت ،سب کے سب کشمیری فنکاروں، دستکاروں اور ہنر مندوں کی عظمت کے نشان ہیں۔

کھرمنگ کے بے شمار قلعوں کی خستہ حال دیواریں اور برُج پکارپکار کر کہتے ہیں کہ ہماری بنیادوں میں کشمیری اور تبتی ہنرمندوں کی جوانیاں دفن ہیں۔ ہم سے وفا کرو اور ہمیں کشمیر سے جدا مت کرو۔ تمہاری تاریخ اور عظمت رفتہ کی داستانیں گلگت کی چٹانوں پر ہمارے ہی خون سے لکھی ہوئی ہیں۔ انہیں مطلب پرست سیاستدانوں کی ہوس کی بھینٹ نہ چڑہاوٴ۔
گلگت اور بلتستان کی تاریخ و ثقافت کے جتنے رنگ ہیں ان میں کشمیر کا خاص اور منفرد عکس موجود ہے۔ لوک داستانیں ہوں یا جرأت و بہادری کے قصے یا پھر حسن و عشق کے گیت، ادب کی ہر صنف میں کشمیری شہزادہ، شہزادی، ہنرمند، دستکار اور فنکار بہرحال موجود ہیں۔
شگر کے لوگ کہتے ہیں کہ وہ سکندر مقدونی کے ہمراہ پہلے چترال آئے اور پھر ان کا ایک گروہ راستہ بھول کر پھرتا پھراتا اس وادی میں داخل ہوگیا۔
یونانیوں کا یہ قبیلہ شگری کہلاتا تھا جس کی وجہ سے اس ویران وادی کا نام شگر پڑگیا۔ شگر کے گردونواح میں تبتی قبائل بھی آباد تھے جس کہ وجہ سے شگریوں نے تبتیوں کی بودوباش قبول کر لی۔ دونوں قبائل نے باہم رضامندی سے ایک بادشاہ کا چناوٴ کیا جسے مقامی زبان میں رگیا لفو کہا جاتاتھا۔ اس بادشاہ کی صرف ایک بیٹی تھی جس کانام رگیالمو شگری تھا۔
تبتیوں اور شگریوں نے مل کرریاست کو وسعت دی اور سارے دردستان پر قبضہ کر لیا۔ رگیالفو نے عدل و انصاف قائم کیا اور رعایا پروری کے لئے کھیتی باڑی ، تجارت اور دیگر عوامی شعبوں کے لئے قوانین بنائے۔ پڑوسی ملک کشمیر کے حکمرانوں سے روابط بڑھائے اور اچھے دوستانہ تعلقات قائم کیئے۔ رگیالفو بوڑھا ہوا تو سلطنت کے انتظام کی فکر لاحق ہوئی۔ شہزادی کے حسن و ذہانت کے چرچے انسانوں کی ہی نہیں بلکہ پرندوں کی زبان پر بھی تھے۔
بلتی شہزادے رگیالفوں شگری پر جی جان سے فدا تھے مگر کوئی ایسا نہ تھا جوحسن کے اس مجسمے کے سامنے کھڑا ہوکر اس کے چہرے سے اترنے والی کرنوں کی تاب لاسکے۔
بلتی داستان گوکہتے ہیں کہ ایک شام رگیالمو شگری سہیلیوں کے ساتھ دریا کے کنارے چہل قدمی کر رہی تھی کہ اس کی نظر ایک درویش پر پڑی جو ایک پتھر کی اوٹ میں عبادت میں مصروف تھا۔
سورج ڈھلنے کے قریب تھا اور درویش عصر کی نماز سے فارغ ہو کر اٹھا تو شہزادی نے قریب جا کر پوچھا۔ کون ہو اور کہاں سے آئے ہو۔
جواب آیا ابراہیم ہوں اور کشمیر سے آیا ہوں۔ رگیالموشگری جس کے حسن پر سارا دردستان جی جان سے قربان تھا،ابراہیم کی و جاہت اور مردانہ حسن کے سامنے ڈھیر ہوگئی۔ دوڑ کر بادشاہ کے سامنے گئی اور اسے پکڑ کر ابراہیم کے سامنے لے آئی ۔
داستان گو کہتے ہیں کہ ابراہیم مقپون پہلا مسلمان تھا جو اس علاقے میںآ یا۔ رگیالموشگری نے کہا اے بادشاہ یہ کوئی دیوتا ہے جو تیری سلطنت بچانے آیا ہے۔ شہزادی رگیالموکی شادی ابراہیم سے ہوئی جو تادم مرگ اپنے مذہب پر قائم رہا۔ بلتی ادبی تاریخ کے مطابق ابراہیم اور شگری کی اولاد نے بائیس پشتوں تک اس علاقے پر حکومت کی۔ ان ہی کی اولاد سے شاہ بوغا نے سکردو شہر آباد کیا اور کھرفوچو قلعہ تعمیر کروایا۔
بوغا اپنے جد اعلیٰ کی طرح رعایا پرور بادشاہ تھا۔اس کے دور میں امیر کبیر شاہ ہمدان اپنے چھ سو مریدین کے ہمراہ اس علاقے میں آئے اور دین اسلام کی تبلیغ کی۔ شاہ ہمدان کے ساتھ ہی سید نور بخش بھی بسلسلہ تبلیغ تشریف لائے اور طویل قیام کیا۔ شاہ ہمدان کی تبلیغ سے متاثر ہو کر شاہ بوغا کا بیٹا اور ولی عہد شہزادہ شیرشاہ بھی دائرہ اسلام میں داخل ہوا جس کی وجہ سے رعایا کی کثیر تعداد حلقہ بگوش اسلام ہوئی۔

Chapters / Baab of Kashmir Ka Almiya By Asrar Ahmed Raja