Episode 96 - Kashmir Ka Almiya By Asrar Ahmed Raja

قسط نمبر 96 - کشمیر کا المیہ - اسرار احمد راجہ

مغلوں کے بعد افغانوں، سکھوں اور ڈوگروں نے کشمیریوں پر ظلم و جبر کا ہر حربہ آزمایا اور کشمیری غداروں اور طن فروشوں کو بطور ہتھیار استعمال کیا۔ 1947ء کی تحریک آزادی کے نتیجے میں ریاست دو حصوں میں تقسیم ہوگئی اور دونوں جانب مفاد پرست ٹولے نے عوام کو یرغمال بنا کر مفاداتی سیاست کا آغاز کر دیا۔ سیاسی میدان میں شیخ عبداللہ اور نیشنل کانفرنس نے کانگرس اور دیگر کی مدد سے نفرت کی بساط بچھائی اور وطن فروشی کی سابقہ روایات کو قائم رکھا۔
چکوں کو گزرے تقریباً چار سو سال گزر گئے ہیں مگر ان کی پالیسیاں دونوں جانب نام نہاد کشمیری قیادت اپنائے ہوئے ہے۔
آزاد کشمیر پر نظر ڈالیں تو ریاست کے اس حصے پر 1947ء سے لے کر تا حال کسی نہ کسی صورت چک طریق حکمرانی ہی رائج ہے۔

(جاری ہے)

ہر طرف قبائلی نفرت، خاندانی بغض و عداوت اور خود فہمی پر مبنی خاندانی برتری کا راج ہے۔

لوٹ مار کرنے والے لیڈراور سیاستدان بن گئے اور اپنے جیسے چوروں، ڈاکووٴں، غنڈوں، بدمعاشوں، نا اہلوں اور قانون شکنوں کے گروہ اکٹھے کر کے سیاسی جماعتیں بنا لیں۔ دیکھا جائے تو طریق حکمرانی کا یہ چربہ آزاد کشمیر میں پاکستانی سیاسی مافیا کا دیا ہوا تحفہ ہے جسے قبول کرنا ماتحت مافیا کی مجبوری ہے۔
پاکستان میں سیاسی مافیا جمہوریت کے نام پر حکومت کرتا ہے اور آزادکشمیر میں حکومت کا نام ہی مافیا ہے۔
آزاد حکومت کا ہر محکمہ مافیا ہے جو کسی کے سامنے جوابدہ نہیں۔ آزادکشمیر میں پٹوار خانہ اور تھانہ جرائم کے سرکاری مراکز ہیں جہاں شریف، غریب اور سفید پوش آدمی کی کوئی شنوائی نہیں۔ ہر تھانہ اور پٹوار خانہ سیاستدانوں، حکمرانوں اور اعلیٰ سرکاری افسروں کا بزنس سنٹر ہے۔ہر پٹواری اور تھانیدار چک خاندان کے پیروکاروں کو ہر ماہ مخصوص رقم دینے کا پابند ہے۔
علاوہ اس کے چکوں کے جانشینوں کے گھریلو اخراجات، بچوں کی تعلیم، شادی بیاہ کے اخراجات، بیرون ملک علاج، حج و عمرہ اور یورپ کی سیاحت اور شاپنگ کے علاوہ پبوں اور کلبوں کے لوازمات اور اخراجات بھی سرکاری کارندوں کی ذمہ داری میں شامل ہیں۔
آزاد کشمیر کے پولیس افسروں کی بحریہ ٹاوٴن، ڈی ایچ اے اور اسلام آباد کے مخصوص علاقوں میں محل نما کوٹھیاں پاکستانی جمہوری مافیا کی عنایات کا صلہ ہیں۔
سرکاری اہلکاروں کی یہ شان و شوکت سیاسی مافیا کے سامنے کچھ بھی نہیں۔ آزاد کشمیر کے سیاسی لیڈروں کی صرف اسلام آباد ہی نہیں بلکہ دنیا کے ہر مشہور شہر میں کاروبار اور قیام گاہیں موجود ہیں۔ کیا کوئی عقل مند تصور کر سکتا ہے کہ آزادکشمیر پر مسلط ڈاکو راج کے کارندوں میں سے کوئی تحریک آزادی کے کسی مجاہد یا غازی کی نسل سے تعلق رکھتا ہے۔ وہ لوگ جو میدان عمل میں اُترے وہ قصہ ماضی بن گئے۔
بہروپیوں اور خودساختہ نام نہاد جہادیوں نے پہلے جہاد کے نام پر اور پھر سیاست، جمہوریت،آزادی بزنس اور لوٹ مار سے دولت اکٹھی کی اور ڈوگروں کی طرح اپنے اپنے حصے کی کشمیر خرید کر آپسی راج قائم کر لیا۔ پہلے آپسی راج کا سر ٹیفکیٹ مغلوں، افغانوں، سکھوں اور ڈوگروں کے دربار سے ملتا تھا اور اب یہ سر ٹیفکیٹ پاکستانی سیاسی مافیا کے سرغنہ جاری کرتے ہیں اور ان کے ایجنٹ آزاد کشمیر پر حکومت کرتے ہیں۔
آزاد کشمیر میں جس نودولتیے کو یہ پروانہ مل جاتا ہے وہ قانون، اخلاق، تہذیب اور معاشرتی روایات کی پابندی سے آزاد شیطانی تہذیب کا پیروکار بن جاتا ہے۔
آزادکشمیر میں ہر پانچ سال بعد سیاسی مافیائی حکومت بدل جاتی ہے اور آنے والی حکومت نئے جرائم اور مظالم عوام پر آزماتی ہے۔ نون لیگ کی حکومت آئی تو میرے حلقے کا پٹواری بھی بدل گیا۔
نئے پٹواری کی خصوصیت یہ تھی کہ اس کا باپ بھی پٹواری تھا جس نے بچپن سے ہی اپنے سپوت کی تربیت پٹوارانہ انداز سے کی اور پھر اس ذہین بچے کو محکمہ مال کے حوالے کر دیا۔
پٹواری نے آتے ہی سارے سرکل کے غریب ،بے آسرا اور عزت دار لوگوں کی زمینوں کے ریکارڈ بدل ڈالے اور نو دولتیوں کو ان زمینوں پر قابض ہونے کا حکم جاری کر دیا۔
سرکاری زمینوں پر قبضہ کروا یا اور تین ماہ کے قلیل عرصہ میں بائیس لاکھ روپیہ جمع کیا۔ ایک سفید پوش نون لیگی کارکن نے پٹواری کے سامنے سجدہ ریز ہو کر گزارش کی کہ حضور آپ اتنا ظلم کیوں کر رہے ہیں۔ تحصیلدار سے لے کر ڈپٹی کمشنر تک کوئی آپ سے کیوں نہیں پوچھتا۔ آخر آپ کیا چاہتے ہیں۔ آپ کو خدا کا درجہ دیا جائے یا خدا کا عذاب کہا جائے۔ آپ ہی بتائیں آخر آپ کے جبر کا کیا علاج ہے۔

Chapters / Baab of Kashmir Ka Almiya By Asrar Ahmed Raja