Episode 61 - Kashmir Ka Almiya By Asrar Ahmed Raja

قسط نمبر 61 - کشمیر کا المیہ - اسرار احمد راجہ

آگے چل کر ہمفرے لکھتا ہے کہ ہمارا مشن لامحدود اور عالمگیر تھا۔ اس سلسلے میں یہودیوں،ہندووٴں آتش پرستوں، بہائیوں اور کیمونسٹ نظریات کے حامل مفکروں سمیت تمامتر اسلام مخالف قوتوں کو استعمال کرنے کا منصوبہ تیار کیا گیا۔ ہمارا ٹکراوٴ اسلام اور بدھ ازم سے تھا۔ مشرق و مغرب میں پھیلی ،اسلامی تہذیب سے بھی بڑی تہذیب بدھ مت کے پیروکاروں پر مشتمل تھی جس کی بنیادیں لاوزے اور کنفیوشس کے اقوال پر استوار تھیں۔
طویل مطالعیاتی جلسوں اور کانفرنسوں کے بعد یہ نتیجہ اخذ ہوا کہ زوال پذیر اسلامی خلافت اور چینی ثقافت و تمدن میں ایسا جوہر موجود ہے جو مستقبل میں کسی بڑے انقلاب کا باعث بن سکتا ہے۔ ہمفرے اور دیگر ایجنٹوں کو مختلف فرضی مسلمان نام دیکر مصر،قسطنطنیہ، بغداد، نجد اور بخارا روانہ کیا گیا۔

(جاری ہے)

ہمارا ابتدائی کام عربی،فارسی،ترکی اور روسی زبانیں اور پھر قرآن کریم بمعہ ترجمہ و تفسیر سیکھنا اور احادیث رسول ﷺ اور سیرت رسول ﷺ کا گہرائی سے مطالعہ کرنا تھا۔

دوسرے مرحلے میں ہم نے ایسے لوگوں کا چناوٴ کرکے انہیں دام میں پھنسانا تھا جو خلافت اسلامی سے نالاں تھے اور جن میں علاقائیت اور قبائلی برتری کے علاوہ دیگر قبائل سے نفرت کارحجان موجود تھا۔ہماری خوش قسمتی کہ عربوں، ترکوں اورایرانیوں میں ایسے نوجوانوں،بوڑھوں، علمأ دین اور طالب علموں کی کثیر تعداد موجود تھی جو فرقہ پرستی کی طرف مائل ہونے کے علاوہ قبائلی اور نسلی تعصب کے زہر سے بھرے ہوئے تھے۔
شیعہ قبائل کا شکوہ تھا کہ ترک سلاطین سنی مسلمانوں پر زیادہ توجہ دیتے ہیں اور سنی علاقوں میں تعمیر و ترقی کی وجہ سے خوشحالی ہے۔اسی طرح عربوں کا شکوہ تھا کہ ترک امرأ اور افسر عربوں کو غلام سمجھ کر معاملات طے کرتے ہیں اور ترکوں کی نسبت عربوں پر ٹیکسوں کی شرح زیادہ ہے۔ ترکوں کا کہنا تھا کہ سلطانی عدل اور مراعات سب کے لئے یکساں ہیں۔ عرب علاقوں میں سوائے عراق، شام،لبنان اورمصر کے پیداواری مواقع کم ہیں۔
عرب تاجر دوسرے علاقوں سے جو سامان خرید کر لے جاتے ہیں اس پر ٹیکس کی شرح وہ ہی ہے جو دوسرے تاجروں پر عائد ہے۔عرب تاجر زیادہ مسافت کی وجہ سے کچھ اشیأ مہنگے داموں فروخت کرتے ہیں اور عوام کو ٹیکس کا بہانہ بنا کر لوٹتے ہیں۔عرب بدووٴں کے علاقوں پر قانون کی گرفت کم ہونے کی وجہ سے مقامی تاجر اور شیوخ حکومت کے خلاف نفرت پھیلانے کا باعث بنتے ہیں۔
اس کے علاوہ تقریباً ہر علاقے میں ترک سلاطین، امرأ اور حکومتی کارندوں کی عیاشیوں کی کہانیاں بھی مشہور تھیں۔لوگوں کے دلوں میں یہ بات گھر کر چکی تھی کہ سلطان اور اس کے حواری ملک ٹھیکے پر چلا رہے ہیں اور مقامی گورنر عوام پر ظلم کرتے ہیں۔ تعلیم یافتہ طبقے کے ذہن میں یہ بات سراہیت کر چکی تھی کہ مراعات یافتہ طبقہ اور شاہی خانوادہ دین سے منکر ہوچکا ہے۔
زکوٰة کا نظام تقریباً ختم ہوگیا ہے اور ٹیکسوں کی صورت میں جمع ہونے والی رقم بادشاہ کے ذاتی خزانے میں جمع ہوجاتی ہے۔ اس کا کچھ حصہ فوج پر خرچ ہوتا ہے اور باقی حکومتی کارندے عیاشی میں اڑا دیتے ہیں۔
نو آبادیاتی علاقوں کی وزارت نے اس پر طویل بحث کے بعد ایسے حقائق اکٹھے کیئے جن سے انکار ممکن نہ تھا۔ ان حقائق کی روشنی میں دیکھا گیا کہ عثمانی سلطنت کی بنیادیں کھوکھلی ہوچکی ہیں اور گورنر واقعی عیش و عشرت کی زندگی جی رہے ہیں۔
فوجی تربیت کا معیار پست ہوچکا ہے اور سلطان عیاشی کے سمندر میں غرق امور سلطنت سے بے خبر ہے۔ عدل و انصاف اور خفیہ خبر رسانی کے ادارے نہ صرف متحرک ہیں بلکہ سلطنت کا نظام کسی نہ کسی صورت بحال رکھنے میں کامیاب ہیں۔ علمائے کرام اور مذہبی سکالر بھی اپنی جگہ پر نہ صرف قائم ہیں بلکہ عوام کے اعتماد پر پورا اتر رہے ہیں۔ ہمفرے لکھتا ہے کہ ترکی کی مساجد، خانقاہوں اور مدارس سے لے کر بصرہ، بغداد اور قاہرہ تک میں نے کوئی مسلمان ایسا نہ دیکھا جس کی آنکھوں میں لفظ "محمد ﷺ"کا احترام نہ ہو اور جس کی آنکھیں اپنے پیغمبرکا نام لیتے ہوئے آنسووٴں سے تر نہ ہوتی ہوں۔
لفظ "محمد ﷺ" اور رحمت الالعالمٰین،سے ہر پڑھا لکھا اور ان پڑھ مسلمان واقف تھا۔ واقعہ کربلاکا ذکر آتے ہی شیعہ دھاڑیں مار کر روتے تھے اور رسول ﷺاور آل رسول ﷺپر جان و مال اور اولاد نچھاور کرنے کو تیار ہو جاتے تھے۔ اپنی رُوداد لکھتے ہوئے ہمفرے کہتا ہے کہ مجھ سمیت دس ایجنٹوں کو مشن پر روانہ کیا گیا۔یہ ایک کھیپ تھی جس کا مجھے پتہ تھا۔باقی کتنے لوگ کہاں گئے اس کا پتہ نہیں، چونکہ خفیہ پن ہی اس مشن کی تکمیل کا مقصد تھا۔ میرا چناوٴ مصر، عراق، ایران، حجاز اور عثمانی خلافت کے مرکز استنبول کے لئے ہواجسکا پرانا نام قسطنطنیہ تھا۔

Chapters / Baab of Kashmir Ka Almiya By Asrar Ahmed Raja