Episode 34 - Kashmir Ka Almiya By Asrar Ahmed Raja

قسط نمبر 34 - کشمیر کا المیہ - اسرار احمد راجہ

دوسرا سوال کیا گیا کہ مولانا فضل الرحمن کی سرکاری کشمیر کمیٹی کس مرض کی دوا ہے۔ اگر مولانا اس کام کے لئے فٹ نہیں تو انہیں محض سیاسی رشوت اور کشمیر کاز پرخاموش رہنے کا کثیر معاوضہ کیوں دیا جا رہا ہے۔ صدر ریاست نے اس پر خاموشی اختیار کی تو ایک کشمیری نے سوال کیا کہ جناب آپ ہمیں ایک قائد اور ایک نظریہ دیں تو کشمیر کی آزادی کی صبح قریب ہو جائے گی۔
جناب صدر نے اس کا جواب بھی مسکراہٹ میں ٹال دیا۔ صدرموصوف کی خاموشی در حقیقت کشمیری قوم کی بے بسی اور مجبوری کی غماز ہے۔ یہی حال دیگر سنجیدہ قائدین کا ہے جبکہ وظیفہ خور صحافیوں اور سیاسی ڈیلروں کا الگ مشن ہے۔ کرپٹ نودولتیہ اور جرائم پیشہ سیاسی کلچر پاکستان کی کشمیری پالیسی کا اہم حصہ ہے۔

(جاری ہے)

کرپٹ سیاسی مافیا نہ صرف کشمیر کی تاریخ سے نابلدہے بلکہ اخلاقی پستی اور گراوٹ کا بھی شکار ہے۔

آج مسئلہ کشمیر ایک المیے میں بدل چکا ہے جس کی بنیادی وجہ کشمیری قوم کی اپنی درخشندہ تاریخ اور روایات سے ناواقفیت اور قیادت اور نصب العین کا فقدان ہے۔ آئندہ صفحات پر کوشش کریں گے کہ 1947ء کی تحریک آزادی کی ناکامی اور اس کے بعد پے در پے ناکامیوں اور سازشوں کا ذکر کیا جائے اور دیکھا جائے کہ اس مسئلے کو سانحے میں بدلنے میں خود کشمیریوں کا کس قدر حصہ ہے۔
ہمیں یہ بھی دیکھنا ہوگا کہ آخر کب تک ہم نودولتیے، کرپٹ، نا اہل سیاسی ڈیلروں کو لیڈر سمجھ کر دہلی اور اسلام آباد میں بیٹھے سیاسی بروکروں پر بھروسہ کرینگے اور اپنی آئندہ آنے والی نسلوں کو بھی غلامی کا تحفہ پیش کریں گے۔
 تاریخ کے آئینے میں دیکھا جائے تو خطہ کشمیر ہر لحاظ سے دیگر دنیا سے الگ اور منفرد حیثیت کا حامل ہے۔ پانچ ہزار سالہ تاریخ بتلاتی ہے کہ ریاست کشمیر چار اکائیوں پر مشتمل رہی ہے اور سوائے چند ادوار کے مقامی خاندانوں نے ہی اس پر حکمرانی کی ہے۔
جموں، کشمیر، لداخ، گلگت و بلتستان بشمول چلاس اور چترال کشمیر کی حدود میں شامل رہے ہیں۔ ایک دور ایسا بھی گزرا ہے جب کشمیر کی مرکزی حکومت کی کمزوریوں اور خانہ جنگوں سے فائدہ اُٹھا کر لداخ اور شمالی علاقہ جات پر تبت اور چین نے قبضہ کیا اور پھر تبتی اور چینی حکمرانوں کی کمزور پالیسیوں اور اندرونی خلفشار سے فائدہ اٹھا کر مقامی راجگان نے کچھ عرصہ کے لئے آزاد حیثیت اختیار کر لی مگر یہ دورانیہ کبھی طوالت نہ کھینچ سکا۔
مختلف ادوار میں ان اکائیوں سمیت شہروں،قصبوں اور علاقوں کے نام بدلتے رہے مگر کشمیر کی حیثیت اور حقیقت پانچ ہزار سال پہلے بھی منفرد اور نمایاں تھی۔ ہندووٴں کے دیومالائی عقیدے کے مطابق وادی کشمیر جب جھیل کی شکل میں تھی تو اس خطہ کے باسی جنہیں ناگ کہا جاتا تھا اس عظیم جھیل کے اردگرد آباد تھے۔ تاریخ کے مطابق ناگوں کے آٹھ قبیلے تھے جو پونچھ سے لے کر لداخ اور دردستان تک پھیلے ہوئے تھے۔
ناگوں کے علاوہ پشاچ قبائل بھی موجود تھے جن کی زیادہ آبادی گلگت، یاغستان اور چترال کے علاقوں میں تھی۔ قدیم دور میں صوبہ جموں کا بیشتر علاقہ دلدلی اور جنگلات پر مشتمل تھا۔ گو کہ تاریخ دانوں نے اس پر توجہ نہیں دی مگر یہ حقیقت ہے کہ ککڑ نامی قبائل ان علاقوں میں آباد تھے۔ بعض تاریخ دانوں نے ککڑوں کو گکھڑوں سے ملانے کی کوشش کی ہے مگر یہ درست نہیں۔
ککڑ مقامی قبائل تھے جو کوہ شوالک اور ملحقہ نیم کوہستانی علاقوں میں آباد تھے۔ بعد کے دور میں گکھڑ بھی اسی علاقے میں آباد ہوئے۔ ہو سکتا ہے کہ ناگوں اور پشاچوں کی طرح ککڑوں اور گکھڑوں میں بھی کوئی تعلق قائم ہوگیا ہو مگر اس کی کوئی واضح دلیل نہیں۔ناگوں اور پشاچوں کا آریاوٴں سے ملنا کسی حد تک درست ہے چونکہ تینوں قبائل کے باہم مدغم ہونے کی وجوہات موجود تھیں۔
ولّی کاشمیری کا کہنا ہے کہ تاریخ کا سفر ذرے سے آفتاب تک ہے۔ وہ ذرے کی وسعت کا ذکر کرتا ہے تو اس میں نہ صرف آفتاب بلکہ سارا جہاں دیکھتا ہے۔ وہ کہتا ہے کہ ذرہ اور کائنات ایک ہی کل کے جز ہیں۔ جو کوئی تاریخ کے گھوڑے پر سوار ہوا ضروری نہیں کہ وہ اپنی اصل منزل پر پہنچ جائے۔ تاریخ کا گھوڑا بے لگام اوراڑیل ہے۔ وہ راستے بدل بدل کر چلتا ہے۔
کبھی رک جاتا ہے اور کبھی ہوا کے دوش پر اُڑتا ہے۔ سمندر، پہاڑ، صحرا اور دریا اس کا راستہ نہیں روک سکتے۔ وہ شہروں، باغوں، ہرے بھرے کھیتوں سے گزرتا ایسے میدانوں میں کھڑا ہوکر خوفناک جنگوں اور عبرتناک حادثات کا نظارہ کرتا شاہی ایوانوں میں جھانک کر دیکھتا ہے۔ وہ عادل اور ظالم بادشاہوں کو دیکھتا ہے مگر کچھ کہتانہیں ۔ اسے معلوم ہے کہ اس کی پیٹھ پر بیٹھا سوار ان سچائیوں کا متلاشی ہے۔
وہ پری چہرہ حسیناوٴں اور کریہ و کرخت انسانوں کو قریب سے دیکھتا ہے مگر وہ نہ کسی سے پیار کرتا ہے اور نہ ہی نفرت سے دھتکارتا ہے۔ یہ کام تو سوار کا ہے۔ ولّی کاشمیری نے تاریخ دانوں کو مسافران عشق سے تشبیہہ دی ہے۔ وہ تاریخ کو بے لگام گھوڑے اور شراب عشق کا نام دیتا ہے۔ ولّی کے مطابق یہ سفر کبھی ختم نہیں ہوتا اگر مسافر غافل ہوجائے تو وہ بھٹک جاتا ہے اور تاریخ کی حقیقت کو من گھڑت قصوں اور کہانیوں میں بدل کر آنے والی نسلوں کو گمراہ کر دیتا ہے۔

Chapters / Baab of Kashmir Ka Almiya By Asrar Ahmed Raja