Episode 2 - Mein Guman Nahi Yaqeen Hon By Nabila Abar Raja

قسط نمبر 2 - میں گمان نہیں یقین ہوں - نبیلہ ابر راجہ

میں گمان نہیں یقین ہُوں
تمہیں کیا معلوم کہ دُکھ کیا چیز ہوتے ہیں
کاش تم ریت کے پیاسے ذرے ہوتے
اور بادل کا ٹکڑا تم پر سے بن برسے گزر جاتا
تمہیں تب معلوم ہوتا کہ دُکھ کیا چیز ہوتے ہیں
کاش تم خزاں رسیدہ درخت کے پتے ہوتے
اور ٹہنی سے ٹوٹ کر گر جاتے
تب تمہیں معلوم ہوتا دُکھ کیا چیز ہوتے ہیں
اُوپری منزل پہ ٹیرس کی دیوار پہ آگے کی طرف جھُکے جھکے وہ کتنی دیر سے کسی غیر مرئی نکتے پہ نگاہیں جمائے کھڑی تھی۔
شام کے ڈھلتے سائے آہستہ آہستہ ماحول کو اپنی گرفت میں لے رہے تھے۔ دُھوپ دیواروں سے اترتے ہوئے عجیب سی یاسیت آمیز اُداسی کا منظر پیش کر رہی تھی نیچے زرینہ بیگم کی بہن روبینہ اپنی فیملی کے ساتھ صبح سے آئی ہوئی تھیں۔

(جاری ہے)

دوپہر کے کھانے کے بعد ذیان اُوپر آگئی تھی۔ اوائل نومبر کی ڈھلتی دھوپ اور گہرے ہوتے ہوئے سائے اچھی خاصی خنکی کا احساس دلا رہے تھے۔

اُسے یہاں بیٹھے دو گھنٹے سے زائد ہوگئے تھے لیکن نیچے جاکے سب کا سامنا کرنے کا جی نہیں چاہ رہا تھا۔ جانے کیوں عجیب سی خود ترسی کا جذبہ خود پہ حاوی ہوتا نظر آرہا تھا۔اندر ہی اندر لاوا پھوٹ کر بہنے کو بے تاب تھا مگر یہ آگ آنسوؤں سے کہاں بجھنے والی تھی اس حقیقت کا ادراک تو اُسے بہت پہلے سے تھا۔ تب ہی تو ایک تھکی تھکی سی مسکراہٹ لبوں پہ کرن بن کر چمکی تھی۔
مغرب کی اذان کی آواز آنا شروع ہوگئی تھی سر پہ دوپٹہ درست کرتی وہ آہستہ آہستہ سیڑھیاں اُترنے لگی۔ آخری زینہ پار کرتے ہی وہاب سے ٹکراؤ ہوا۔
بلیو کلر کی جینز اور میچنگ شرٹ میں ملبوس سلیقے سے بال بنائے وہاب اُسکے رستے میں حائل کھڑا تھا۔ ”ذیان صاحبہ گھر میں مہمان آئے ہوئے ہیں اور تمہیں کچھ ہوش ہی نہیں ہے۔ بیچاروں کو کمپنی ہی دے دو“ وہاب کے الفاظ میں نرمی و بے تکلفی تھی مگر لہجہ و انداز میں نرمی کا نشان تک نہ تھا۔
عجیب آنچ دیتا لہجہ تھا۔ ”میں پڑھ رہی تھی“ اُس نے جان چھڑانے کے لئے جھوٹ بولا۔ ”کیا پڑھ رہی تھی؟“ وہ باقاعدہ جرح پہ اُتر آیا کورس کی بُکس تھیں ظاہر ہے“ وہ چِڑ سی گئی۔ ”تم نیچے سب کے ساتھ بیٹھ کر بھی پڑھ سکتی تھی“ اُس نے آرام سے ذیان کے تپے تپے چہرے کو تکتے ہوئے مشورہ دے ڈالا۔ ”اٹس اوکے“ ذیان نے اپنا لہجہ مشکل سے نارمل کیا تھا۔
وہاب مطمئن ہوگیا۔ ذیان اندر آرہی تھی۔ زرینہ اپنی بہن روبینہ کے ساتھ باتوں میں لگی تھی ایک دم اُس کی طرف متوجہ ہوئی۔ ”کہاں تھی تم اتنی دیر سے؟“ انداز عام اور سوالیہ سا تھا۔ اس سے پہلے کہ ذیان آگے بڑھتی روبینہ بول پڑی”دو گھڑی ہمارے پاس بھی بیٹھ جایا کرو کون سا روز روز تمہارے گھر آتے ہیں“اُنہوں نے بڑے میٹھے لہجے میں طعنہ دیا تو ناچار ذیان اُنکے پاس بیٹھ گئی۔
وہ اُسے بڑے غور سے دیکھ رہی تھیں ذیان کو اُلجھن سی ہونے لگی۔ وہ اُس سے اِدھر اُدھر کی باتیں کرنے لگیں۔ باقی سب ٹی وی لاؤنج میں تھے باتوں اور قہقہوں کی آواز اس کمرے تک آرہی تھی۔ ”میں ابو کو دیکھ آؤں ذرا“اُس نے منظر سے ہٹنے کاسوچا اور پھر اُس پہ فوراً عمل درآمد بھی کردیا۔
زرینہ بیگم اور اُنکے خاندان والوں سے ملنے ملانے کے باوجود ذیان اجنبیت ہی محسوس کرتی تھی حالانکہ زرینہ بیگم کو اس کی ماں کی جگہ لئے برسوں گزر چکے تھے۔
مگر ذیان کی غیریت اور احتیاط جوں کی توں تھی۔اُنکے پورے گھر کی تصویر مکمل تھی۔ ایک وہی مس فٹ تھی۔ یہ خامی اُسے کبھی کبھی بری طرح محسوس ہوتی۔
                                        ###
امیر علی تکیئے کے سہارے نیم دراز ٹی وی دیکھ رہے تھے۔ ذیان دبے قدموں آہستگی سے دروازہ کھول کر اندر داخل ہوئی اور اُنکے سامنے پڑے صوفے پہ بیٹھ گئی۔
نہ تو امیر علی نے اُسے مخاطب کیا نہ ذیان نے اس کی ضرورت سمجھی۔ وہ اُن سب سے جان چھڑا کر یہاں آئی تھی۔ کچھ وقت سکون سے گزارنا چاہتی تھی۔ یہاں گھر کے کسی فرد کی مداخلت کا فی الحال کوئی امکان نہیں تھا۔ ذیان نے صوفے پہ بیٹھے بیٹھے رُخ ٹی وی کی طرف کرلیا۔ ”کیسی جارہی ہے تمہاری پڑھائی“ خاموشی کے طلسم کو امیر علی کی آواز نے ہی توڑا تو وہ چونک کر اُنکی طرف متوجہ ہوئی جو بہت غور سے اُسے دیکھ رہے تھے۔
زہر میں ڈوبی مسکراہٹ اُسکے لبوں پہ اُبھری”بس ٹھیک ہی چل رہی ہے“ اُسکے ایک ایک لفظ سے بے زاری کا عنصر نمایاں تھا۔ ”کیوں خیر ہے ناں پڑھائی میں کوئی پرابلم تو نہیں“ اپ سیٹ لگ رہی ہو؟“ امیر علی نے بہت سے سوال ایک ساتھ ہی کر ڈالے”نہیں“ اُس نے سب کا جواب مختصر سی نہیں کی صورت میں دیا۔ ”تمہیں کوئی بھی پرابلم ہو تو مجھ سے ڈسکس کرسکتی ہو“ اُن کے لہجے میں فکر مندی تھی۔
اب میں اس قابل ہوگئی ہوں کہ اپنے پرابلم خود سولو کرسکتی ہوں“ امیر علی کو لگ رہا تھا اُنکے سامنے ذیان نہیں کوئی اجنبی ہو جو سر راہ مل گیا ہو اور روکے جانے کی صورت میں نکلنے کی کوشش کر رہا ہو۔ وہ تو اُنکی ًطرف متوجہ تک نہیں تھی ٹی وی کو گھور رہی تھی جیسے وہی سب سے اہم ہو۔ وہ اُنکے پاس ہوتے ہوئے بھی پاس نہیں تھی۔ ذہنی طور پہ میلوں کے فاصلے پہ کھڑی تھی۔
وہ یہ بات بہت اچھی طرح جانتے تھے۔ اسکے پس منظر میں چھپی وجوہات سے بھی واقف تھے تب ہی تو بے بس ہو کر پھر سے خاموشی کے خول میں سمٹ گئے۔
ذیان اُٹھ کر کچن کی طرف آئی۔ جہاں بوا کھانے پکانے میں مصروف تھی۔ ”بوا کیا ہو رہا ہے؟“ ذیان نے سبزی کی ٹوکری میں سے ایک گاجر اٹھائی اور دھونے لگی۔ بوا رحمت نے ایک نظر اسے دیکھا اور پھر سے بھنتے مصالحے کی طرف متوجہ ہوگئی پیاز ٹماٹر اور اچھی طرح مکس ہو کر بھن گئے تھے انہوں نے دھوئی چکن اٹھا کر ہانڈی میں ڈالی، ذیان گاجر دھو کر پاس رکھے سٹول پہ چڑھ کر بیٹھ گئی۔
”وہی روز کے کام دھندے اور کیا کرنا ہے اور تم گاجر کیوں کھا رہی ہو میں نے کباب رکھے ہیں یہ لو“ کفیگر رکھ کر انہوں نے مائیکرو ویو میں پڑی پلیٹ نکالی جس میں کباب رکھے تھے۔ اُنہوں نے کباب انگلی سے چھو کر گرم ہونے کا اطمینان کیا پھر پلیٹ اس کی طرف بڑھائی۔ ”آپ نے کب بنائے؟“ اس نے گاجر پھر سے ٹوکری میں رکھ دی۔
”ابھی آدھے گھنٹے پہلے چائے کے ساتھ بنا کر سب کو دئیے مگر تم نظر ہی نہیں آئی۔
بوا باتوں کے ساتھ ساتھ چکن کو بھی دیکھ رہی تھیں۔ ”بوا آپ اب اتنے کام مت کیا کریں ثمینہ ہے ناں دیکھنے دیں اُسے یہ بکھیڑے“ اُس نے کباب کھاتے ہوئے مشورہ دیا۔ بوا ہنس دیں سادہ اور بے ریا ہنسی۔ ”مجھے امیر میاں اور اس گھر کے افراد کی خود خدمت کر کے جو خوشی ملتی ہے وہ کام ثمینہ کے سپرد کردوں تو وہم سا لگا رہے گا۔ اس لئے خود کرتی ہوں“ چکن بھونتے بھونتے انہوں نے نپے تلے انداز میں بات مکمل کی۔
ذیان کباب کھاتے کھاتے رک گئی۔ بوا آپ کو اتنی محبت اور خیال ہے ہم سب کا۔“
”یہ محبت تو میرے خون میں رچی بسی ہے۔ اللہ بخشے بڑی بیگم(ذیان کی دادی) کو میں اُنکے زمانے سے یہاں اس خاندان میں کام کر رہی ہوں۔ چھوٹی بیگم کو امیر میاں میرے سامنے ہی تو رخصت کروا کے لائے تھے اتنا دھوم دھڑکا تھا اتنی خوشیاں منائی گئی تھیں مجھے سب یاد ہے“ بوا بتاتے بتاتے ماضی میں پہنچ گئی تھی جہاں سب روزِ اول کی طرح روشن تھا۔
ذیان کا چہرا دھواں دھواں سا ہو چلا تھا اُس نے ادھ کھایا کباب پلیٹ میں رکھ دیا اور دبے قدموں کچن سے نکل گئی۔ بولتے بولتے بوا کی نظر سٹول کی طرف اُٹھی جو اب ذیان کے وجود سے خالی تھی اُنہوں نے فوراً دروازے کی طرف دیکھا ذیان باہر نکل رہی تھی۔ بوا کے ہاتھ اور زبان یکدم ہی سست پڑ گئے انجانے میں ہی سہی انہوں نے ذیان کے دل میں دبے آگ جیسے زخموں کو ہوا دے ڈالی تھی۔ اب وہ نادم سی تھیں۔ ذیان منظر سے غائب تھی۔
                                     ###

Chapters / Baab of Mein Guman Nahi Yaqeen Hon By Nabila Abar Raja