Episode 64 - Mein Guman Nahi Yaqeen Hon By Nabila Abar Raja

قسط نمبر 64 - میں گمان نہیں یقین ہوں - نبیلہ ابر راجہ

ابیک اور ذیان کے بیڈ روم کے لیے کرسٹل کے بیش قیمت ڈیکوریشن پیسز خاص طور پہ منگوائے گئے تھے۔ افشاں بیگم خود نوکرانی کے ساتھ اس کے کمرے میں آئی تھیں۔ نیناں کا کام ڈیکوریشن پیسز کو مناسب اور موزوں جگہ پہ سجانا تھا۔ وہ بجھے دل کے ساتھ یہ کام کروا رہی تھی۔ کمرہ آراستہ و پیراستہ شاندار طریقے سے سجا ہوا کسی خیالی دنیا کا منظر پیش کر رہا تھا۔
اس کمرے میں اپنے گھر سے رخصت ہو کر ذیان نے آنا تھا۔ اور اس کے استقبال کے لیے شایانِ شان انتظامات کیے جارہے تھے۔
وہ جبراً مسکراتے ہوئے سجاوٹ کا کام کروا رہی تھی۔ اتنے میں ابیک بھی جائزہ لینے آگیا۔ اس کی آنکھوں میں اطمینان کا رنگ نمایاں تھا۔ ”آپ نے تو کمال کردیا ہے۔“ وہ نیناں کی کوشش کو سراہ رہا تھا۔ وہ بہت مشکل سے رسمی مسکراہٹ ہونٹوں پہ لانے میں کامیاب ہوئی۔

(جاری ہے)

میری ساری فکر تو نیناں نے ختم کردی ہے۔ ورنہ میرے تو ہاتھ پاؤں پھول گئے تھے۔“ افشاں بیگم نے بھی بیٹے کی تعریف کے جواب میں تائید کی۔ ”میں تو کہتی ہوں نیناں پکی پکی اِدھر ہی آجائے۔“ انہوں نے اس کے دل کی حالت سے بے خبر پورے خلوص سے کہا تو وہ ایک بار پھر پچھتاوؤں میں گھر گئی۔“ امی جان درست کہہ رہی ہیں آپ ہماری طرف شفٹ ہوسکتی ہیں کیونکہ امی جان اب تھک گئی ہیں۔
“ ملک ابیک نے لاشعوری طور پہ یہ آفر کی۔ جواب میں نیناں خاموش رہی۔ ایک مبہم سی مسکراہٹ اس کے لبوں پہ آ کے معدوم ہوگئی۔ اس کی اچانک خاموشی کو افشاں بیگم کے ساتھ ابیک نے بھی محسوس کیا تھا۔
کام مکمل کروانے کے بعد وہ وہاں رکی نہیں۔ آگے بڑھتے قدموں کے ساتھ اس کی سوچیں بھی تیز رفتاری سے سفر کر رہی تھیں۔ ”پپا آپ تمام تر وسائل کے ساتھ مجھے ابھی تک ڈھونڈ نہیں پائے ہیں۔
“ وہ دل میں پپا سے شکوہ کر رہی تھی۔ اپنی بے وقوفی، ضد او رہٹ دھرمی اسے نظر نہیں آرہی تھی۔
ملازم وزیر بخش دودھ کا گلاس ان کی ٹیبل پہ رکھ گیا تھا۔ احمد سیال نے نیند کی دو گولیاں دودھ کے ساتھ نگلیں۔ انہیں اب اس کے بغیر نیند نہیں آتی تھی۔
بلڈ پریشر الگ ہائی رہنے لگا تھا۔ رنم کے جانے کے بعد وہ بہت کمزور ہوگئے تھے۔ خود کو ازخود مصروف کر لیا تھا۔
وہ بیرونی دوروں پہ پاکستان سے عرصے کے لیے غائب رہنے لگے تھے۔ اس گھر میں ان کی لاڈلی بیٹی کی یادیں بکھری پڑی تھیں۔ وہ انہیں بھلانے کے جتن کرتے تھے۔ نیند کی گولیاں کھانے کے باوجود انہیں نیند بہت کم اور دیر سے آتی تھی۔ وہ اس آس پہ گھر لوٹتے کہ رنم آئی ہوگی۔ فون کی بیل بجتی تو فون کی طرف بھاگتے کہ اس کی کال ہوگی۔ گھر سے نکلتے تو آتے جاتے لوگوں کو غور سے تکتے شاید ان میں رنم نظر آجائے۔
وقتاً فوقتاً وہ فراز اور کومل سے بھی پوچھتے کہ شاید رنم نے ان سے کوئی رابطہ کیا ہو اور انہیں وہاں سے کوئی سراغ مل جائے۔ مگر ان کی ساری امیدیں ایک ایک کرکے دم توڑتی جارہی تھیں۔ رنم کا دکھ انہیں لے ڈوبا تھا۔ انہوں نے آفس سے گھر اور گھر سے آفس کا راستہ پکڑ لیا تھا۔ باقی ہر جگہ آنا جانا چھوڑ دیا تھا۔ ملک جہانگیر کا چھوٹا بیٹا پاکستان آیا تو انہوں نے بہت محبت سے احمد سیال کو بھی مدعو کیا پر انہوں نے بہانہ کردیا اور نہیں گئے۔
ملک جہانگیر ویسے ہی اصرار کر کے”ملک محل“ آنے کا بول رہے تھے اور وہ مسلسل ٹال رہے تھے۔ کل ان کے سیل نمبر پہ اجنبی نمبرسے کال آئی تو انہوں نے نمبر دیکھتے ہی جھٹ ریسیو کرلی پر دوسری طرف سے ان کے ہیلو کہتے ہی کال ختم کردی گئی۔ انہوں نے کچھ توقف کے بعد اس نمبر پہ تین بار کال بیک پر کوئی رسپانس نہیں ملا۔ نہ جانے کیوں ان کا دل کہہ رہا تھا یہ رنم کی کال تھی۔
ملک جہانگیر،معاذ کے ساتھ،احمد سیال کے گھر انہیں ابیک کی شادی کا دعوت نامہ دینے آئے تھے۔معاذ نے پہلی بار ان کا گھر دیکھا تھا اور بیحد متاثر نظر آرہا تھا۔
دونوں دوست باتیں کر رہے تھے۔ معاذ چائے پی کر ڈرائنگ روم سے باہر آیا۔ اسے واش روم جانا تھا۔ وہ واش روم جانے کے لیے کوریڈور سے سے گزرتے رک گیا۔ اچانک ہی اس کی نظر وہاں دیوار پہ لگے فوٹو گراف پہ پڑی تھی۔
اس کے رکنے کی وجہ وہی فوٹو تھی۔ وہ سو فی صد نیناں تھی۔ معاذ نے قریب جا کر دیکھا، حیرت انگیز طور پہ اس کی شکل نیناں سے مل رہی تھی جسے ابھی ابھی کچھ گھنٹے پہلے وہ خود ملک محل میں دیکھ کے آیا تھا۔ اس سے اپنی حیرت چھپائی نہیں جارہی تھی۔ اس نے گھر میں جگہ جگہ نیناں سے مشابہت رکھنے والے بے شمار فوٹو دیواروں پہ لگے دیکھے۔
وہ واپس آیا تو ملک جہانگیر، وہاں موجود نہیں تھے احمد سیال اکیلے بیٹھے ہوئے تھے۔
ملک جہانگیر عصر کی نماز پڑھ رہے تھے۔ وہ اور احمد سیال ڈرائینگ روم میں بیٹھے تھے۔ پچھلی دیوار پہ بھی اس لڑکی کی تصویر آویزاں تھی۔ معاذ نے جرأت سے کام لیتے ہوئے اس بار ے میں پوچھ ڈالا۔ ”یہ میری بیٹی رنم ہے ہائر اسٹڈی کے لیے ابراڈ گئی ہوئی ہے۔“ انہوں نے برا منائے بغیر بتایا۔ ”آپ کا گھر بہت خوبصورت ہے۔“ معاذ نے موضوع بدلا اور ان کے گھر کی تعریف کی تو وہ خوش ہوگئے۔
ملک جہانگیر نماز پڑھ کر آئے تو احمد سیال نے ملازم کی معیت میں معاذ کو اپنا گھر دیکھنے بھیجا۔
ملازم نے اسے رنم بی بی کا کمرہ بھی دکھایا۔ جہاں اس کے بچپن، جوانی ، سکول کالج، یونیورسٹی اور دوستوں کے ساتھ کئی تصویریں دیواروں پہ سجی تھیں۔ کچھ فوٹو فریم میں مقید سائیڈ ٹیبل پہ بھی رکھے تھے۔ وہ ہر رنگ میں نہ جانے کیوں نیناں سے حیرت انگیز طور پہ مل رہی تھی۔
دونوں میں صرف لباس، جگہ اور سٹائل کا فرق تھا۔
وہ واپسی میں بھی نیناں اور رنم کی خطرناک حد تک مشابہت کے بارے میں سوچ رہا تھا۔ ”بابا جان آپ نے مجھے اپنے کسی دوست کی بیٹی کے بارے میں بتایا تھا کچھ ماہ پہلے۔“ گاڑی کے شیشے سے باہر تکتے ملک جہانگیر سے اس نے سوال کیا۔ ”ہاں میں نے تم سے بات کی تھی پر تم مانے ہی نہیں۔ پھر میں نے سوچا تم نہ سہی ابیک سہی پر تمہاری ماں دل سے راضی نہیں تھی اور ابیک کی بھی خاص مرضی نہیں تھی۔
“ ملک جہانگیر نے جواب دیا۔ ”اچھا۔“
 ”و ہ احمد سیال کی بیٹی ہی تھی جن کے گھر سے ہم ابھی واپس آرہے ہیں۔“ انہوں نے انکشاف کیا۔
”بابا جان احمد انکل کی بیٹی کہاں ہے اب کیا کر رہی ہے؟“معاذ نے سوال کیا حالانکہ احمد سیال اسے بتا چکے تھے۔ ”احمد کی بیٹی پاکستان سے باہر پڑھنے کے لیے گئی ہوئی ہے۔ میری دلی خواہش تھی کہ احمد کی بیٹی میری بہو بن جائے۔
“ ”بابا جان آپ اس سلسلے میں احمد انکل کے گھر گئے تھے؟“ ”کچھ نہیں احمد کی بیٹی پاکستان سے باہر چلی گئی ہے۔ بات چلنے سے پہلے ہی ختم ہوگئی۔“ پھر تم کیوں پوچھ رہے ہو؟“
ملک جہانگیر نے گہری نگاہ سے اسے تکتے ہوئے سوال کیا۔ ”بابا جان ایسے ہی۔وہ امی جان بھی ذکر کر رہی تھی ناں اس لیے۔“ معاذ نے بروقت امی کا نام لے کر ملک جہانگیر کو مطمئن کیا۔
”ویسے میں نے احمد کی بیٹی کو پہلی بار دیکھا تو تمہارے لیے پسند کیا تھا۔ اس کا جوڑ تمہارے ساتھ ہی تھا۔“ انہوں نے اسے آگاہ کیا تو وہ سر ہلا کر رہ گیا۔
نیناں، تمام نوکرانیوں کو مختلف کاموں کے سلسلے میں ہدایات دے رہی تھی۔ گزشتہ دس منٹ سے معاذ ادھر بیٹھا ہوا تھا اور دس منٹ سے ہی اسے گہری نگاہ سے دیکھ رہا تھا۔
نیناں نے بال باندھ کر دوپٹہ اچھی طرح سر پہ لیا ہوا تھا۔
اب تو اس کے بال اچھے خاصے لمبے ہوگئے تھے وہ چوٹی کی صورت باندھنے لگی تھی۔ ”حیرت انگیز، ناقابل یقین۔“ وہ نیناں کو غور سے تکتے ہوئے بڑبڑایا۔ وہی بال ویسی ہی آنکھیں وہی ناک نقشہ تھا جو فوٹو میں نظر آنے والی احمد سیال کی بیٹی کا تھا۔ احمد سیال کی بیٹی ماڈرن امیر گھرانے کی پروردہ تھی جبکہ نیناں جو ملک محل میں اس وقت موجود تھی ایک بے سہارا لڑکی تھی۔
معاذ کو پورا یقین تھا اگر نیناں کو تصویر میں نظر آنے والی رنم سیال جیسے کپڑے پہنا کر بال اسٹیپس میں کاٹ کر احمد سیال کے گھر لے جایا جائے تو وہ اسے نیناں کی حیثیت سے کبھی بھی پہچان نہیں پائیں گے۔
نیناں اس کی نگاہوں سے الجھن محسوس کر رہی تھی پر یہ ہوس آلود نگاہیں نہیں تھیں۔ اسے خبر نہیں تھی کہ ملک جہانگیر اور معاذ اس کے گھر سے ہو کر آرہے ہیں۔
افشاں بیگم مصروفیت کی وجہ سے ساتھ نہیں گئی تھیں ورنہ افشاں بیگم کو علم ہو ہی جاتا۔ پھر شاید معاذ کی گہری نگاہوں کا مطلب بھی اسے سمجھ آجاتا۔ اس وقت تو وہ پریشان ہو رہی تھی۔
ملک ارسلان نے عتیرہ کے مشورے سے مدعو کیے جانے والے مہمانوں کی فہرست حتمی طور پہ تیار کرلی تھی۔ عتیرہ نے بہت سے کارڈز ذیان کو دئیے تھے۔ وہ جس کو چاہے انوائیٹ کرے، جب عتیرہ نے کارڈز اسے دئیے تھے تب کوئی خاص نام اس کے ذہن میں نہیں تھا لیکن وہ ذرا اکیلی بیٹھ کر سوچنے کے قابل ہوئی تو اسے بوا رحمت، زرینہ بیگم، آفاق، رابیل اور مناہل سب بے طرح یاد آئے، جب سے وہ ملک محل میں آئی تھی اس کے بعد سے لے کر اب تک اس کا ان میں سے کسی کے ساتھ بھی کوئی رابطہ نہیں ہوا تھا۔
امیر علی کا گھر چھوڑتے ٹائم زرینہ بیگم نے سختی سے منع کیا تھا کہ ہم میں سے کسی کے نمبر پہ بھی کال کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔ جب ضرورت ہوگی ہم خود فون کرلیں گے۔ ایسی ہی نصیحت اسے بوا نے بھی کی تھی کہ یہاں اب آنے کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔ لیکن آج اسے ان سب سے بات کرنے کی ملنے کی ضرورت محسوس ہو رہی تھی۔
آفاق، رابیل اور مناہل تینوں اس کے بہن بھائی آخری ملاقات میں سہمے اورگھبرائے ہوئے تھے۔
یاد آنے پہ ذیان کی آنکھوں میں نمی سی چمکی۔ آفاق بے شک چھوٹا تھا پر بھائی تو تھا۔ بے شک ان کی مائیں الگ الگ تھیں پر باپ تو ایک تھا ناں۔ کیا ہوا جو انہوں نے آپس میں محبت نہیں جتائی۔ نہ بہن بھائیوں کی طرح لڑے ضدیں کی نہ روٹھے نہ ایک دوسرے کو منایا لیکن اس کے باوجود ان کا آپس میں اٹوٹ رشتہ تھا کوئی جھٹلا نہیں سکتا تھا۔ ذیان یہاں ملک محل میں تھی اور وہ یہاں سے سینکڑوں میل دور شہر میں تھے پر اس دوری نے دلوں میں بھڑکنے والے محبت کے الاؤ اور خون کی کشش کو بڑھا دیا تھا۔
بے اختیار اس نے کارڈز پہ زرینہ آنٹی کا نام لکھا دوسرے کارڈ پہ خوش خط انداز میں اس نے بوا رحمت کا نام لکھا۔ کارڈ لفافے میں ڈال کر وہ عتیرہ کے پاس لے گئی۔ وہ اسے اپنے کمرے میں دیکھ کر چونکیں۔ ذیان بہت کم ان کے بیڈ روم میں آتی تھی اس لیے وہ حیران ہو رہی تھیں۔ ”ماما ان کو بلوا لیجیے گا میں نے کارڈز پہ نام لکھ دئیے ہیں۔“ اس نے کارڈ ان کی طرف بڑھائے۔
انہوں نے کارڈ پہ لکھے نام بغور پڑھے۔ ”تم یہ نہ بھی کرتی تو میں نے تب بھی ان کو بلوانا تھا۔ بوا کے بہت سے احسانات ہیں مجھ پہ۔ زرینہ بیگم اور بوا نے زندگی کی سب سے بڑی خوشی مجھے بخشی ہے۔ میں خود جاؤں گی شہر ان کے گھر اور انہیں ساتھ لے کر آؤں گی۔“ عتیرہ نے دونوں ہاتھ اس کے شانے پہ رکھے اور محبت سے اس کے سر کے بالوں پہ ہاتھ پھیرا۔ وہ بہت کم انہیں اس طرح مخاطب کرتی تھی اور ماما تو کبھی کبھار ہی بولتی تھی زیادہ تر آپ کہہ کر کام چلاتی۔
اس لیے وہ بہت خوش تھیں۔ ”ہاں آپ بوا کو لازمی ساتھ لے کر آنا۔“ ذیان کے ہونٹوں پہ ہلکی سی مسکراہٹ ابھری تو عتیرہ سو جان سے جیسے اس مسکراہٹ پہ فدا ہونے لگیں۔ وہ اس سمے کچھ اور بھی کہتی تو انہوں نے لازمی ماننا تھا۔
                                      ###

Chapters / Baab of Mein Guman Nahi Yaqeen Hon By Nabila Abar Raja