Episode 42 - Mein Guman Nahi Yaqeen Hon By Nabila Abar Raja

قسط نمبر 42 - میں گمان نہیں یقین ہوں - نبیلہ ابر راجہ

رنم کام کرتی نوکرانیوں کو ہدایات دے رہی تھی۔ عتیرہ دور بیٹھی ادھر ہی دیکھ رہی تھی۔ اس کی نظر رنم پہ ہی تھی۔ رات سے ان کی طبیعت ٹھیک نہیں تھی۔ جانے کیا بات تھی رہ رہ کر دل و دماغ میں عجیب سے خیال آرہے تھے۔ اب رنم کو دیکھتے ہوئے یہ خیال اور بھی طاقتور ہوتے جارہے تھے۔ وہ پیچھے بہت پیچھے ماضی میں جارہی تھیں۔ ماضی میں جانے کا یہ سفر اتنا آسان نہیں تھا انہیں کرب و اذیت کی کئی منزلوں سے گزرنا پڑتا تھا۔
وہ سب کے سامنے سے اٹھ آئیں۔ اس وقت صرف تنہائی اور اندھیرا درکار تھا۔ اندھیرا ہی تو ان کی ٹوٹی پھوٹی روح کو اپنی پناہ میں تحفظ دے سکتا تھا۔ اتنے برس گزر چکے تھے وہ بے خبر تھیں انہیں کچھ خبر نہ تھی جو وہ پیچھے چھوڑ آئی ہیں”وہ متاع جان“ کس حال میں ہے۔ کوئی مددگار کوئی سہارا نہ تھا۔

(جاری ہے)

ملک ارسلان انکی کیفیت دیکھتے ہوئے انہیں صرف تسلی دے سکتے تھے اور اتنے برس سے وہ یہی کر رہے تھے۔

لیکن تسلی دلاسوں سے عتیرہ کے زخم کہاں بھرنے والے تھے۔
###
رات لمحہ بہ لمحہ تاریکی کا سفر طے کرتی اپنی منزل کی جانب رواں دواں تھی۔ بوا بہت دیر سے اپنے بستر پہ لیٹی کروٹ بدل رہی تھیں۔ عشاء کی نماز پڑھنے کے بعد وہ معمول کے ذکر واذکار میں کافی دیر مشغول رہیں۔ اصولاً اب انہیں نیند آجانی چاہیے تھی۔ نیند نہ آنے کی وجہ ان کی ذہنی چبھن تھی۔
اس چبھن کو عفت خانم کے ساتھ وہاب کی منہ ماری نے اور بھی بڑھا دیا تھا۔ وہ برسوں سے اس گھر کے مکینوں کی خدمت کرتی چلی آرہی تھیں امیر علی انہیں گھر کا فرد کا درجہ دیتے تھے ان کے ادب و احترام میں امیر علی نے کبھی کوتاہی یا کمی نہیں کی تھی اول دن سے زرینہ بیگم بھی بوا کی اہمیت کو سمجھ گئی تھیں اس لئے ان کے تعلقات کے ساتھ خوشگوار ہی رہے۔ اس میں بوا کی مصلحت آمیز فطرت اور سمجھداری کا بھی دخل تھا۔
وہ سب کی مزاج آشنا تھیں اور اس کے مطابق ہی برتاؤ کرتیں۔ زرینہ کا ذیان کے ساتھ جو رویہٴ تھا وہ انہیں پسند نہیں تھا، ڈھکے چھپے لفظوں میں انہوں نے زرینہ کو اس کا احساس دلانا چاہا پر وہاں سے مطلوبہ ردعمل ظاہر نہ ہونے پہ انہوں نے اپنے ہونٹ سی لئے۔
امیر علی کی بیماری سے پہلے سب ٹھیک چل رہا تھا۔ وہ گھر کے سربراہ اور تمام اختیارات کے مالک تھے۔
اختیارات میں طاقت میں تبدیلی آئی تو بہت کچھ بدل گیا۔ زرینہ شوہر پرست عورت تھیں اس کے ساتھ ساتھ وہ ذیان سے سخت عناد بھی رکھتی تھیں۔
وہاب کی ذیان کے ساتھ پسندیدگی اور ذیان کے حصول کی خواہش اسے ذرہ بھر نہیں بھائی تب ہی تو اس نے کمال کے رشتے کے لئے راہ ہموار کی۔ جو وہاب کی غیض و غضب کو اور بھی ہوا دینے کا باعث بنی۔ بوا نے بہت قریب سے وہاب کی فطرت اور عادات کا مشاہدہ کیا تھا۔
وہ کینہ پرور ضدی اور اپنے مقصد کے حصول کے لئے حد سے گزر جانے والوں میں سے تھا۔ وہاب جنونی تھا اور ذیان کو حاصل کرنے کے لئے کچھ بھی کرسکتا تھا اب امیر علی نہیں رہے تھے وہ کرتا دھرتا بنا ہوا تھا۔ بلکہ روبینہ نے وہاب کو اور بھی آگے کی راہ دکھائی دی تھی۔ذیان سے وہاب نے ہر حال میں شادی کرنی ہی تھی لیکن ذیان کے ساتھ ساتھ اب وہ اس کی جائیداد کا بھی حقدار بننا چاہ رہا تھا۔
روبینہ اور وہ دونوں مل کر اس مقصد پہ کام کر رہے تھے۔ بوا اپنی آنکھیں اور کان کھلے رکھتی تھیں۔ زرینہ بھی کچھ کچھ بھانپ گئی تھی کیونکہ روبینہ آپا اور وہاب نے امیر علی کی وراثت کے بارے میں اسے ہر طرح سے کریدا تھا کہ امیر علی کی کتنی دولت ہے کتنی جائیداد ہے اور ان کے بنک اکاؤنٹس میں اس وقت کتنا پیسہ موجودہے۔ ذیان کو شادی کے موقعے پہ کیا کچھ دیا جائے گا۔
روبینہ پہلے وہاب کی پسند کی وجہ سے ذیان کو بہو بنانا چاہ رہی تھی لیکن اب اس میں لالچ کا عنصر بھی شامل ہوگیا تھا۔ روبینہ نے بوا سے بھی بہانے بہانے سے امیر علی کی وراثت کے بارے میں سوال کیے تھے۔
اور اس میں وہاب کی پوری پلاننگ تھی۔ آنے والا وقت انہونیوں کی نوید دے رہا تھا اس لئے بوا بیحد پریشان تھیں۔
رات گھڑی کی ٹک ٹک کے ساتھ گزرتی جارہی تھی۔
بوا اپنے بستر سے اٹھ کھڑی ہوئیں۔ وہ دروازے کے قریب اپنی تسلی کرنے کے لئے گئیں حالانکہ دروازہ اندر سے لاک تھا پھر بھی انہوں نے اپنی تسلی ضروری سمجھی تھی۔
کمرے میں زیرورپاور کا بلب جل رہا تھا۔ انہوں نے دوسری لائیٹ جلائی۔ اب کمرے میں بھرپور روشنی تھی سب کچھ نظر آرہا تھا۔ بوا کونے میں رکھے اپنے جستی ٹرنک کی طرف بڑھیں۔ جستی ٹرنک کے ساتھ ہی ایک طرف کپڑوں کی الماری تھی انہوں نے الماری کھول کر چابیوں کا گچھا برآمد کیا۔
جستی ٹرنک پہ موٹا تالا جھول رہا تھا۔ چابیوں کے گچھے میں سے ایک چابی منتخب کر کے انہوں نے تالے پہ آزمائی تو وہ فوراً کھل گیا۔ انہوں نے آگے جا کر ٹرنک میں رکھی اشیاء باہر نکالنی شروع کردیں۔
ٹرنک میں رکھی سب چیزیں اب باہر بچھے بستر پہ پڑی تھیں۔ ٹرنک کے سب سے نچلے حصے میں ایک پوٹلی تھی۔ بوا نے کپکپاتے ہاتھوں سے وہ پوٹلی باہر نکالی اور اس کی گرہیں کھولنی شروع کیں۔
ان کا اندازچوکنا اور رازدارانہ تھا۔ رات کے سناٹے میں اس طرح ٹرنک کھول کر کچھ ڈھونڈنا ظاہر کر رہا تھا کہ پوٹلی کے ساتھ یقینا کوئی اہم راز وابستہ ہے۔
ورنہ وہ دن کے کسی بھی حصے میں آ کر ٹرنک کھول کر کچھ بھی نکال اور رکھ سکتی تھیں۔ بوا پوٹلی کھول چکی تھیں۔ اس میں رکھی چیزیں بوا کے ہاتھوں میں تھیں۔ اس میں دو سونے کی انگوٹھیاں اور کانوں کی بھاری بالیاں پڑی تھیں۔
بوا نے ان پہ مطلق توجہ نہ دی بلکہ انہوں نے وہ چیزیں ایک طرف رکھ کر پوٹلی میں پڑے ایک شاپر کو باہر نکالا۔ شاپر مضبوط اور گہرے رنگ کا تھا۔ بوا نے شاپر کھول کر اندر موجود لفافے کو باہر نکالا۔ لفافہ مٹیالے رنگ کا تھا۔ اس کے اندر پڑا کاغذ گردش زمانہ سے پیلا اور بوسیدہ ہو رہا تھا۔ بوا نے کانپتے ہاتھوں سے کاغذ کی تہیں کھولنا شروع کیں۔ یہ ایک خط تھا جو برسوں پہلے انہیں تحریر کیا گیا تھا۔
برسوں پہلے جب یہ خط بوا کو بھیجا گیا تھا تب وہ اس کا جواب چاہنے کے باوجود بھی نہ دے پائی تھیں۔ اس ناکامی نے انہیں عجیب سے احساس جرم کا شکار بنا دیا تھا۔ اسی وجہ سے وہ ذیان کا بہت خیال رکھتی تھیں اسے ایک لمحہ کے لئے بھی آنکھوں سے اوجھل نہ ہونے دیتیں۔ ذیان ان کے ہاتھوں میں پلی بڑھی تھی انہوں نے ایک ماں کی طرح اس کی ذمہ داریاں نبھائی تھیں۔ راتوں کو اس کے لئے جاگی تھیں اس کے کھانے پینے سے لے کر صفائی ستھرائی، تربیت ہر چیز کا خیال رکھا تھا۔ زرینہ سے امیر علی کی شادی کا ایک سبب ذیان بھی تھی۔ پر بوا نے زرینہ بیگم کو ذیان کی طرف سے بالکل بے فکر اور پرسکون کردیا تھا۔

Chapters / Baab of Mein Guman Nahi Yaqeen Hon By Nabila Abar Raja