Episode 54 - Mein Guman Nahi Yaqeen Hon By Nabila Abar Raja

قسط نمبر 54 - میں گمان نہیں یقین ہوں - نبیلہ ابر راجہ

افشاں بیگم بڑی دیر سے خاموش بیٹھی اپنی سوچوں میں ڈوبی ہوئی تھیں۔ ملک جہانگیر ان کا ارتکاز محسوس کر رہے تھے۔ وہ انہی کی طرف دیکھ رہے تھے۔ افشاں بیگم اپنی سوچوں کی محویت سے چونکیں۔ ”کیا سو رہی ہو ملکانی؟“ وہ بڑے موڈ میں تھے۔ تب ہی انہیں ملکانی کہہ کر مخاطب کیا۔ ”ملک صاحب میں ذیان کے بارے میں سوچ رہی ہوں۔“ ”کیا سوچ رہی ہو پتہ تو چلے۔
“ ”کل وہ جب تک یہاں تھی ہمارے گھر میں کتنی رونق تھی ناں۔ پوری حویلی اس کے آنے سے جیسے سج گئی تھی۔“ ”ہاں ملکانی اللہ نے ہمیں بیٹی نہیں دی بیٹی دیتا تو وہ ذیان جیسی ہوتی۔ محبت کرنے والی خیال رکھنے والی۔ کل وہ میرے لئے اتنی پریشان تھی۔ زندگی میں پہلی بار مجھے اپنے گھر میں بیٹی کی کمی محسوس ہوئی۔“ وہ بولتے بولتے اداس ہوگئے۔

(جاری ہے)

”ہم ذیان کو بیٹی بنا سکتے ہیں۔

“ افشاں بیگم کا لہجہ پرسوچ تھا۔ ”کیسے ہم اسے بیٹی بنا سکتے ہیں؟“ وہ الجھے۔ ”ذیان خوبصورت ہے، پڑھی لکھی ہے۔ عتیرہ کی بیٹی ہے۔ آپ کا کیا خیال ہے اس بارے میں؟“ افشاں بیگم نے ان کے سوال کو ذرہ بھر اہمیت نہیں دی تھی۔ ”ملکانی مجھے لگتا ہے تم کچھ خاص سوچ رہی ہو؟“ ”ہاں آپ ایسا کہہ سکتے ہیں۔“ افشاں بیگم نے انہیں جھٹلانے کی کوشش نہیں کی۔
”لگتا ہے تم نے میرے دل کی بات سمجھ لی ہے۔ کل جب وہ آئی تو کمرے میں میرے پاس کوئی نہیں تھا۔ اس نے ڈھونڈ کر انہیلر دیا۔ سہارا دے کر اٹھایا، اس وقت وہ بہت پریشان نظر آرہی تھی۔“ تب سے ہی میں اس کے بارے میں سوچ رہا ہوں۔بہت سلجھی ہوئی خاموش طبع بچی ہے۔ ”ملک جہانگیر کا انداز تعریفی تھا۔
 ”آپ ٹھیک کہہ رہے ہیں ذیان میں آج کل کی لڑکیوں والی بات ہی نہیں ہے نہ کوئی نخرا نہ چھچھورا پن۔
چپ چاپ رہتی ہے۔ ہمارے گھر آئی تو سب میں بیٹھ کر خاموش رہی۔ سچ مانو تو میرا دل دکھ رہا تھا۔“ افشاں بیگم کی بات پہ وہ تھوڑی دیر خاموش رہے جیسے لفظ جمع کر رہے ہوں۔ ”تو ملکانی صاحبہ کو ذیان بیٹی بہت پسند آگئی ہیں؟“ کچھ دیر بعد وہ بڑے شگفتہ لہجے میں گویا ہوئے۔ ”ہاں میرا تو ارادہ ہے کہ ہم ذیان کو بیٹی بنا کر اپنے گھر لے آئیں۔“ جہانگیر کی طرف سے حوصلہ افزائی محسوس کرتے ہی افشاں بیگم نے اچانک دل کی بات کھل کر کہہ دی۔
اس سے اچھی تو کوئی بات ہی نہیں ہوگی پھر۔ ذیان عزت دار خاندان کا خون ہے پھر اس کی ماں عتیرہ ہے۔ مجھے تو کوئی اعتراض نہیں ہے۔“ ”ملک صاحب سچ پوچھیں تو مجھے ذیان پہلی نظر میں ہی بہت اچھی لگی تھی۔ میں نے دل میں سوچ لیا تھا اسے عتیرہ سے اپنے ابیک کے لیے مانگ لوں گی۔“ ”ملکانی تم نے اتنے بڑے فیصلے اکیلے ہی کرلیے۔“ ملک جہانگیر شرارت سے مسکرائے۔
”میں اکیلی رہ رہ کر تنگ آگئی ہوں اس لئے یہ فیصلہ کیا ہے۔ ابیک کی دلہن آئے گی تو میری تنہائی تو ختم ہوگی ناں۔ آپ باپ بیٹے کو میری پرواہ ہی کب ہے۔ میں عتیرہ سے بات کرتی ہوں جلدی۔“ افشاں بیگم شکوہ کناں انداز میں بولیں۔ ”ابیک کی رائے لے لینا۔“ انہوں نے مشورہ دیا۔ ”میں آپ کی طرح نہیں ہوں کہ اٹھ کر بیٹے کو بتائے بغیر عتیرہ اور ارسلان کے پاس چلی جاؤں۔
“ ان کا اشارہ احمد سیال کے گھر جانے کی طرف تھا۔ وہ کھسیانے سے ہو کر مسکرائے۔ ”میں ابیک سے بات کروں گا۔ ویسے میرا نہیں خیال کہ اسے اعتراض ہوگا۔ شہزادیوں جیسا حسن اور آن بان پائی ہے ذیان نے۔ ابیک انکار کر ہی نہیں سکتا۔“ افشاں بیگم کے یقین کا پیمانہ بھی عجیب تھا۔ وہ سر ہلا کر رہ گئے افشاں بیگم ابھی سے ہی ابیک اور ذیان کے بارے میں مستقبل کے خواب بننا شروع ہوگئی تھیں۔
ذیان کو وہ تصور کی آنکھ سے دلہن بنے گھر میں چلتے پھرتے دیکھ رہی تھیں۔ ابیک ان کی پوری بات سننے کے بعد خاموشی سے کچھ سوچ رہا تھا۔ افشاں بیگم کو الجھن سی ہو رہی تھی کہ جانے وہ خاموش کیوں ہوگیا ہے کیا سوچ رہا ہے۔ بہت دیر توقف کے بعد اس نے خاموشی کا قفل توڑا۔ ”امی ذیان مجھے بہت مغرور لگتی ہے!!“ افشاں بیگم کا دل چاہا اپنا سر پیٹ لیں۔ اس نے کیا اعتراض کیا تھا۔
”وہ مغرور نہیں ہے بس زیادہ گھلتی ملتی نہیں ہے۔ نئی نئی یہاں آئی ہے تو مانوس ہونے میں کچھ وقت تو لگے گا ہی۔“
”ٹھیک ہے امی جیسی آپ کی مرضی۔“ ”میری مرضی نہیں۔ زندگی تم نے گزارنی ہے فیصلہ اور مرضی بھی تمہاری ہوگی۔ ابھی میں نے صرف سوچا ہے ذیان کے گھر جاکے بات نہیں کی ہے۔“
”امی رسک لے لیتے ہیں۔“ ابیک کا لہجہ آخر میں شرارتی ہوگیا۔
اس کی نگاہوں میں ذیان کا کچھ دن پہلے کا”میں ہی میں ہوں“ والا روپ لہرایا تھا۔ اس نے اپنی مسکراہٹ دبا لی تھی۔ ”میں عتیرہ اور ارسلان سے بات کروں گی جلدی۔“ آپ کو اتنی جلدی کیوں ہے امی۔“ ابیک نے ان کو چھیڑا۔ ابیک کی رضا مندی کے بعد ان کا چہرہ خوشی سے جگمگا رہا تھا۔ ”میں سارا دن اکیلی ہوتی ہوں بات کرنے تک کو ترستی ہوں میری بہو آئے گی تو تنہائیاں بانٹ لے گی میری۔
“ ان کا لہجہ محبت میں ڈوب گیا تھا متوقع بہو کے خیال سے ہی۔ ”میں ایک دو دن میں جاؤں گی ذیان کے لئے بات کرنے۔“ انہوں نے ایک بار پھر اپنے پروگرام سے مطلع کیا کیونکہ اس نے انہیں اجازت دے دی تھی۔
ملک ارسلان، ذیان کی پرابلم سمجھ گئے تھے۔ وہ اسے خود سے سنبھلنے کا، سوچنے کا موقعہ دے رہے تھے۔ ان کا رویہ محبت بھرا تھا جس میں حد درجہ اپنائیت تھی۔
انہیں یقین تھا ایک دن وہ ان کی محبت کی قائل ہوجائے گی۔ وہ عتیرہ کی کوکھ سے تھی لیکن انہیں کبھی حسد محسوس نہیں ہوا کہ بیج کسی اور کا بویا ہوا ہے وہ اس سے اپنی سگی اولاد کا سا برتاؤ کر رہے تھے، رہ گئے ملک جہانگیر اور افشاں بیگم تو انہوں نے بڑی محبت سے اس کے لیے بازو وا کیے تھے۔ افشاں بیگم کو اس کی خوبصورتی بھا گئی تھی۔
اپنے سگے باپ کے گھر کے مقابلے میں وہ یہاں محفوظ تھی۔
ابیک اب گاؤں میں ہی تھا اس کا ملک ارسلان کی طرف روز آنا جانا تھا۔ ذیان سے بھی آمنا سامنا ہوتا پر اس نے ذیان کو جوان لڑکی سمجھ کر بری نظر نہیں ڈالی تھی۔
ذیان کو اس بات پہ شکر ادا کرنا چاہیے تھا۔ وہ خوف و ڈر کے حصار سے نکل آئی تھی پر ماضی کی تلخیوں کو وہ اتنی جلدی فراموش کرنے والوں میں سے نہیں تھی اس کی اپنی عدالت اور انصاف تھا۔
                                        ###
کمرے میں موجود سب نفوس سہمے ہوئے تھے۔ اور تو اور زرینہ بیگم بھی بے حد خائف تھیں وہاب بری طرح گرج برس رہا تھا اس کے ساتھ روبینہ بھی کینہ توز تیور چہرے پہ سجائے موجود تھی۔ ”خالہ سیدھی طرح بتا دو کہاں ہے ذیان؟“ وہ ایک بار پھر غصے سے غرایا۔ ”بتایا تو ہے مجھے نہیں پتہ کہاں ہے۔ گھر سے اپنی سہیلی کے ہاں جانے کا بول کر نکلی تھی اب مجھے کیا پتہ کہاں گئی۔
“ ”خالہ آپ نے پوچھا نہیں اس کی سہیلی سے۔“ وہ ان کی بات پہ یقین نہ کرنے والے انداز میں بولا۔ ”پوچھا تھا اس نے صاف انکار کردیا کہ وہ یہاں آئی ہی نہیں۔“ ”آپ نے کیا کیا پھر؟“ ”میں نے کیا کرنا تھا۔ خاموش ہوگئی ہوں اپنی عزت کے ڈر سے۔“ ”یہ مت سمجھنا کہ میں ان باتوں کا یقین کرلوں گا۔ میں خود کھوج لگاؤں گا۔ اور بوا اگر آپ کو کچھ پتہ ہے تو بتا دیں۔
میں کسی کو کچھ بھی نہیں کہوں گا، وہ بات کرتے کرتے بوا کی طرف مڑا۔ ”وہاب میاں مجھے کچھ پتہ نہیں ہے سارا دن اپنے کام میں لگی رہتی ہوں۔“ وہ خوفزدہ لہجے میں بولی۔ ”کمال ہے یہاں کسی کوکچھ پتہ نہیں ہے۔ جیتی جاگتی جوان جہان لڑکی غائب ہوگئی ہے اور سب آرام سے بیٹھے ہیں۔“ روبینہ طنزیہ تاثرات چہرے پہ سجائے زرینہ کودیکھ رہی تھیں۔ زرینہ نے بڑی مشکل سے خود کو کوئی سخت بات کہنے سے روکا۔
کیونکہ اس وقت ان کی پوزیشن کمزور تھی وہ اپنے گھر میں رہتے ہوئے بھی بے سائباں تھیں۔ آفاق جس نے بڑے ہو کر ان کا سہارا بننا تھا خود نادان اور کمسن تھا۔
وہاب ذیان کی گم شدگی کا سن کر آپے سے باہر ہو رہا تھا۔ اس سلسلے میں اس نے عدالت لگائی تھی۔ روبینہ پوری طرح ساتھ دے رہی تھیں اس لئے وہ اور بھی شیر ہو رہا تھا۔
وہ دونوں ہاتھوں میں سر تھامے بیٹھا تھا۔
ساتھ ٹیبل پہ پڑی ایش ٹرے سگریٹ کے ٹوٹوں سے بھر چکی تھی۔ ”اماں ذیان بھلا خود سے گھر چھوڑ کر کہاں جاسکتی ہے؟“ اس نے بڑبڑاتے ہوئے جیسے سوال کیا۔ ”مجھے تو زرینہ پہ شک ہے کہ اسی نے کہیں ذیان کو اِدھر اُدھر کیا ہے کیونکہ وہ کسی صورت بھی ذیان کی شادی تم سے کرنے کے حق میں نہیں تھی۔“ روبینہ نے آج زرینہ کی ناپسندیدگی سے پردہ اٹھایا۔ ”اماں مجھے پتہ ہے سب۔
“ ”ساتھ ذیان باپ کی جائیداد میں حصے دار بھی تو ہے۔ زرینہ نہیں چاہتی کہ اسے کچھ دینا دلانا پڑے۔ روبینہ کا لہجہ پرسوچ تھا۔ ”میں چھوڑوں گا نہیں خالہ کو انہوں نے اچھا نہیں کیا ہے یہ سب کر کے۔“ ”ہاں زرینہ تو میری ماں جائی ہے اسے اپنی بہن کا بھلا سوچنا چاہیے تھا۔ ذیان کی شادی تمہارے ساتھ ہوجاتی تو اس کا کیا جاتا…“ روبینہ بہن سے بے حد شاکی اور کبیدہ نظر آرہی تھیں۔
”خالہ کو تو میں چھوڑوں گا نہیں۔ ساتھ بوا سے بھی پوچھ گچھ کروں گا۔“ اس نے خطرناک انداز میں اپنا ارادہ ظاہر کیا۔
وہاب اورروبینہ آپا کے جانے کے بعد، زرینہ تینوں بچوں اور بوا سمیت وہیں بیٹھی ہوئی تھیں۔ ”بوا اب کیا ہوگا؟ اس وہاب سے نمٹنا آسان نہیں ہے میرے لیے۔“ خاموشی میں زرینہ کی پریشان آواز ابھری۔
”وہاب میاں اس معاملے کو یہاں چھوڑنے والے نہیں ہیں کچھ نہ کچھ ضرور کریں گے۔
بوا خود از حد پریشان تھیں۔ ”بوا اس کا انداز دیکھا وہاب کا۔ کتنی بدتمیزی کے ساتھ بات کر رہا تھا۔ اس نے تو میرا بھی لحاظ نہیں کیا ہے اور آپا روبینہ نے اسے ذرا بھی نہیں روکا۔” ”چھوٹی دلہن میرا خیال ہے وہاب میاں پھر آئیں گے۔“ بوا کا لہجہ تفکر سے بھرپور تھا۔
”میں کیا کروں بوا۔ میں نے سوچا ہی نہیں تھا کہ ذیان کے جانے کے بعد یہاں ایسے ایسے مسئلے سر اٹھائیں گے“ ”چھوٹی دلہن حوصلہ مت ہاریں۔
اللہ مسب الاسباب ہے۔“ ”بوا میرے چھوٹے چھوٹے بچے ہیں میں امیر علی کے بعد جیسے جلتے سورج کے نیچے آگئی ہوں۔ پے درپے پریشانیاں، مشکلات اور خوف۔“ زرینہ کا لہجہ تفکر آمیزتھا۔‘ ”چھوٹی دلہن آپ سنبھالیں خود کو۔ بچوں کا کیا ہوگا۔ آپ کا ٹھیک رہنا بہت ضروری ہے۔ اور آپ اکیلی تو نہیں ہیں میں ہر حال میں آپ کے ساتھ ہوں۔“ بوا نے حتی الامکاں تسلی دی۔ ”بوا آپ کا ساتھ غنیمت ہے ورنہ پتہ نہیں کیا ہوتا۔“ زرینہ پھیکے انداز میں مسکرائیں۔ ”آپ فکر مت کریں چھوٹی دلہن۔ جو ہوگا اچھا ہوگا۔“ ”انشاء اللہ۔“ جواباً زرینہ نے دل کی گہرائیوں سے کہا تھا۔
                                         ###

Chapters / Baab of Mein Guman Nahi Yaqeen Hon By Nabila Abar Raja