بوا نے پورے گھر کا چکر لیا اور سب دروازے چیک کیئے۔ یہ ان کا پرانا معمول تھا جس پہ وہ برسوں سے کار بند تھی۔ اپنے کمرے کی طرف جاتے جاتے وہ ایک بار پھر ذیان کے کمرے کے سامنے رُکیں۔ ہاتھ سے دروازے پہ دباؤ ڈالا وہ اندر سے لاک تھا۔ کچھ دیر وہ وہیں کھڑی سوچتی رہیں اورپھر سر جھٹک کر اپنے کمرے کی طرف چل دیں۔ وہ جب دودھ لے کر امیر احمد کے کمرے کی طرف جارہی تھیں تو زرینہ بیگم کی کچھ باتیں دروازہ بند ہونے کے باوجود بھی انکے کانوں میں پڑ گئی تھی کیونکہ وہ اونچی آواز میں بولنے کی عادی تھی۔
بوا کی عمر کا بیشتر حصہ اسی گھر کے مکینوں کے ساتھ گزرا تھا وہ زرینہ بیگم سے بھی پہلے یہاں تھی زمانے کے سردو گرم سے آشنا اور جہاں دیدہ تھیں۔ زرینہ بیگم کا اول دن سے ہی ذیان کے ساتھ مخصامانہ رویہ ڈھکا چھپا نہیں تھا۔
(جاری ہے)
انہوں نے ذیان کو امیر احمد کی بیٹی نہیں اپنی حریف سمجھا تھا۔ بوا کا دل اس سلوک پہ احتجاج کرتا لیکن وہ کچھ نہیں کرسکتی تھی ہاں ذیان کے لیے ان کی محبت توجہ پہلے سے بڑھ گئی تھی وہ ہر ممکن اس کی دلجوئی کرتیں۔
اب زرینہ بیگم نے جو اچانک شادی کا شوشہ چھوڑا تھا وہ بلاوجہ نہیں تھا۔ گھر میں سب کو ہی پتہ تھا ذیان کو اعلیٰ تعلیم حاصل کا بے پناہ شوق ہے۔
اسکے ارادے بلند تھے وہ گھر کے گھٹے گھٹے ماحول سے چھٹکارا پانا چاہتی تھی۔ سو اس کی تمام تر توجہ اپنی پڑھائی پہ تھی اور اس پہ وہ کوئی سمجھوتہ کرنے کی قائل نہیں تھی۔ایسے میں اپنی شادی کا ذکر اسے مشتعل کرسکتا تھا۔
بوا آنے والے وقت کے خیال سے پریشان تھیں۔
###
یونیورسٹی کے وسیع سبزہ زار پہ دھوپ نے ڈیرا جما رکھا تھا۔ کلاسز آف ہونے کے بعد وہ پانچوں کے پانچوں پھسکڑا مار کر ادھر ہی بیٹھ گئے تھے۔ رنم نے کومل کے کندھے سے ٹیک لگائی ہوئی تھی جبکہ اسکے چہرے پہ کوفت کے آثار تھے۔ راعنہ نے سبب دریافت کیا تو وہ پھٹ سی پڑی”کتنے دن ہوگئے ہیں نہ کوئی پارٹی نہ پکنک نہ موج مستی نہ ہنگامہ… میں روٹین لائف سے بور ہوگئی ہوں“ اسکے چہرے پہ دنیا جہاں کی بے زاری تھی۔
رنم نے پیار سے اسکے بال سہلائے اور اسکے کندھے سے اپنا سر اٹھا لیا”تو کیا خیال ہے رات کو Basement night club نہ چلا جائے؟“ اس نے باری باری سب کی طرف تائید طلب نگاہوں سے دیکھا تو سب سے پہلے اشعر نے نعرہ مستانہ بلند کیا۔
”واؤ ونڈرفل آئیڈیا“ ”ہاں ٹھیک ہے انجوائے منٹ رہے گی“ راعنہ بھی راضی تھی۔ ”اوکے ڈن ہے رات کو چلیں گے“ رنم فیصلہ کن لہجے میں بولی تو سب نے اثبات میں سر ہلایا۔
”اب میں تو گھر جارہا ہوں“ فراز سب سے پہلے اٹھا وہ کی رنگ جھلاتا پارکنگ ایریا کی طرف آیا تو رنم بھی اٹھ کھڑی ہوئی۔ تینوں کو سی یو بول کر وہ اپنی گاڑی نکالنے لگی۔ کچھ ہی دیر بعد وہ بڑی طوفانی رفتار سے گاڑی ڈرائیو کرتی ایف ایٹ ون کی طرف جارہی تھی جہاں اسکی جنت اس کا گھر تھا۔
###
احمد سیال ڈیلی گیشن کے ساتھ مصروف تھے انہوں نے رنم کو اپنی مصروفیات سے آگاہ کردیا تھا اسلئے وہ اندھیرا چھاتے ہی اپنی تیاری میں لگ گئی تھی۔
پارٹیز، پکنک، ہلا گلا، سیر و تفریح میں اس کی جان تھی۔ ہر ہفتے وقت نکال کر وہ سب فرینڈز اپنی اپنی پسندیدہ ایکٹویٹیز سے لطف اندوز ہوتے رنم پیش پیش ہوتی۔
اپنے پسندیدہ بلیک کلر کے ڈریس میں ملبوس وہ ہمیشہ کی طرح خوبصورت لگ رہی تھی اس کی خوبصورتی کے دو آتشہ ہونے میں کلام نہیں تھا۔ اپنے حسن اور کشش کا اسے اچھی طرح اندازہ تھا اسی بات اور احساس نے اسے بے پناہ اعتماد بخشا تھا جسے وہ بہت سے لوگوں میں الگ سے ہی پہچانی جاتی۔
وہ سب دوست ہائی سوسائٹی کے اس کلب کے باقاعدہ رکن تھے۔ احمد سیال کی بیٹی ہونے کے ناطے اور پھر اپنی بے پناہ خوبصورتی کی وجہ سے گمنام نہیں رہی تھی سب اسے اچھی طرح جانتے تھے اور اسی حساب سے پروٹوکول بھی دیتے۔
آج بہت دن بعد سب دوست کلب میں اکٹھے ہوئے تھے۔
ڈائننگ فلور پہ شوخ مغربی دھن پہ نوجوان جوڑے قدم سے قدم ملائے رقص کر رہے تھے۔
رنم کو بذات خود ڈانس اور موسیقی کے اس مظاہرے سے دلچسپی نہیں تھی۔ پر اسے نوجوان جوڑوں کی ہی حرکات محظوظ کرتی۔ ہال کے چاروں طرف مخصوص فاصلے کی حد میں چھوٹی چھوٹی گول میزیں اور انکے گرد کرسیاں پڑی تھی۔ جو رقص سے تھک کر آرام کرنے والوں کے کام آتی۔ راعنہ، رنم اور فراز تینوں ایک میز کے گرد بیٹھے تھے جبکہ کومل، اشعر، ڈائننگ فلور پہ دوسرے جوڑوں کے ساتھ رقص کر رہے تھے۔
وہ تینوں دوست انہی کے بارے میں بات کر رہے تھے۔ اشعر نے تین ماہ پہلے کومل کو پروپوز کیا تھا اس نے اشعر سے سوچنے کے لئے مہلت مانگی اور ابھی تک کوئی جواب نہیں دیا تھا یہ بات انہیں فکر مند کر رہی تھی کومل سیدھے سیدھے ہاں کیوں نہیں کر دیتی دونوں میں ذہنی ہم آہنگی اور لگاؤ تھا، رہی ان کی محبت تو وہ بھی ڈھکی چھپی نہیں تھی اس کے باوجود بھی کومل سوچنے کے لیے وقت مانگ رہی تھی۔
”رنم تم نے کیا پلان کیا ہے فیوچر کے لئے؟“ راعنہ نے ایک دم سے سوال کر کے موضوع بدل دیا۔ ”پلان کیا کرنا ہے بس لائف کو انجوائے کر رہی ہوں۔“ وہ بے نیازی سے بولی۔ راعنہ اسے دیکھ کر رہ گئی۔ اوہو آئی مین تم نے لائف پارٹنر، شادی کے بارے میں کیا سوچا ہے؟“ اس بار فراز بھی دھیان دینے پہ مجبور ہوگیا۔ ”ابھی بہت ٹائم ہے یار“ اس نے بات ہنسی میں اڑا دی تو راعنہ کا منہ سا بن گیا۔
رنم اتنی آسانی سے کسی کو اپنی سوچوں تک رسائی حاصل کرنے نہیں دیتی تھی۔
خود سر اور خود اعتمادی کی دولت سے مالا مال۔ فراز دونوں کی باتیں غور سے سن رہا تھا۔ اس نے ایک بار بھی ان کی گفتگو میں دخل نہیں دیا۔ اس کی یہ عادت کم سے کم رنم کو بہت پسند تھی۔ اسے یوں محسوس ہوتا جیسے فراز اس کا خاموش حمایتی ہو۔ رنم کی مخالفت کرنا اسے آتا ہی نہیں تھا۔
اس کی یہ خاموشی اور حمایت بہت دفعہ راعنہ کو شک میں ڈالتی کہ فراز کے دل میں رنم کے لئے کوئی نہ کوئی سوفٹ کارنر ضرور ہے۔ ورنہ تقریر کرنے دلائل دینے میں اس کا کوئی مقابلہ نہ کرسکتا تھا۔ رنم اسے اپنا سب سے بہترین دوست کہتی اور یہ بات صرف کہنے یا دعوی کی حد تک نہیں تھی ان کی ایک ایک حرکت سے اس کا اظہار ہوتا کہ فراز اور وہ ایک دوسرے کے لئے بے پناہ اہمیت کے حامل ہیں۔ مگر کبھی یہ ظاہر نہیں ہوا کہ وہ ایک دوسرے کے لئے”وہ خاص جذبہ“ بھی رکھتے ہیں۔ کم سے کم راعنہ ابھی تک اس کا سرا پکڑ نہیں پائی تھی۔ ”خیر مجھے جو بھی ہے“ راعنہ انہیں نظر انداز کر کے جوڑوں کا رقص دیکھنے لگی۔
###