Episode 48 - Mein Guman Nahi Yaqeen Hon By Nabila Abar Raja

قسط نمبر 48 - میں گمان نہیں یقین ہوں - نبیلہ ابر راجہ

نیناں باغ میں تھی۔ دور دور تک ہریالی کی چادر بچھی تھی۔ وہ پھول توڑتے ہوئے عتیرہ ملک کی بیٹی کے بارے میں سوچ رہی تھی جس کے استقبال کی تیاریاں ایسے ہو رہی تھیں جیسے کسی ریاست کی شہزادی آرہی ہو۔ کچھ دیر کے لئے اسے عتیرہ ملک کی بیٹی سے حسد سا محسوس ہوا۔ اسے پپا یاد آگئے تھے۔ ان کی یاد آتے ہی دل پہ جیسے بھاری بوجھ آن گرا۔
نیناں یعنی رنم نے بہت جلد حویلی کے رنگ ڈھنگ اپنالئے تھے۔
یہاں کا ماحول شہر سے یکسر مختلف تھا۔ لیکن اس فرق میں اسے ایڈونچر اور کشش محسوس ہوتی۔ لگی بندھی زندگی سے یکسر مختلف۔ وہ یہاں ایک عام سی لڑکی تھی بے سہارا۔ بے آسرا عتیرہ ملک نے اپنے تئیں اسے ہر ممکن سہولت دینے کی پوری کوشش کی تھی۔ وہ نوکرانیوں کو ہدایات دیتی ان کی نگرانی کرتی تو اس میں بھی اسے لطف آتا کیونکہ اسکے اندر کی رنم سیال زندہ تھی جو احمد سیال کی لاڈلی نازوں پلی بیٹی تھی۔

(جاری ہے)

اسے رات کی تنہائیوں میں ان کی یاد آتی تو دل میں ہوک سی اٹھتی انہوں نے اس کی ذرا سی بات تک نہ مانی تھی۔ مان لیتے تو آج یہاں نہ پڑی ہوتی، شادی کر کے اپنے شوہر کے ساتھ ہوتی۔ سب کچھ ہونے کے باوجود وہ لاوارثوں کی طرح یہاں پڑی تھی۔ اور وہ خود منوں مٹی تلے جا سوئے تھے۔ پھول توڑتے ہوئے کوئی کانٹا اس کے ہاتھ میں چبھا تھا جس نے تکلیف کے احساس سے دو چار کرنے کے ساتھ ساتھ پپا کی یادوں کے حصار سے بھی نکالا۔
لیکن یہ کیسے ممکن تھا آنسو اس کی آنکھوں میں نہ آتے۔
سنگ مرمر کی سفید عمارت ان کی منزل ثابت ہوئی۔ یہ عمارت دور ہی سے مکینوں کی امارت اور خوشحالی کا اعلان کر رہی تھی۔ اس میں قدم رکھتے ہی ذیان کو بہت سی باتوں کا اندازہ ہوگیا۔ لینڈ روور جس میں بیٹھ کر وہ یہاں پہنچی تھی رہائشی حصے سے باہر کھڑی تھی ذیان کا مختصر سا سامان اس میں سے نکال کر اندر پہنچایا جاچکا تھا۔
عتیرہ اس کے استقبال کے لئے منقش دروازے کے پاس ہی کھڑی تھیں۔ سفید سنگ مر مر کی اس عمارت کی طرح ان کی شخصیت بھی بے انتہا شاندار تھی۔ انکے ساتھ ہی باوقار سی ایک اور خاتون بھی تھیں یہ افشاں بیگم تھیں۔ عتیرہ کو دیکھتے ہی ذیان کے دل نے خاص گواہی دی کیونکہ ان کے چہرے پہ محبت ہی محبت تھی ممتا کا ٹھاٹھیں مارتا سمندر تھا۔ انہوں نے دونوں بازو کھولتے ہوئے بڑھ کر ذیان کو سینے سے لگالیا۔
وہ اس کے چہرے، ہاتھوں، بالوں اور ماتھے پہ دیوانہ وار بوسے دے رہی تھیں۔ ”میری بچی میری ذیان مجھے امید نہیں تھی کہ جیتے جی میں تمہیں دیکھ پاؤں گی۔“
وہ اسے سینے سے چمٹائے بولتے ہوئے روتی جارہی تھیں۔افشاں بیگم اور ساتھ کھڑی نوکرانیوں کی آنکھیں اس جذباتی منظر پہ خود بہ خود ہی بھیگ گئیں۔ عتیرہ نے طویل عرصہ بعد اپنے جگر کے ٹکڑے کو دیکھا تھا برسوں محسوس کیا تڑپی اور آج وہ حقیقت بن کر اس کے سامنے کھڑی تھی۔
ان کی ممتا امنڈی پڑ رہی تھی۔ لیکن ذیان بالکل نارمل انداز میں ملی۔ عتیرہ کی جذباتی دل گرفتہ کیفیت نے اس کے اندر وہ خاص جذبہ پیدا نہیں کیا جو برسوں بعد ماں سے ملنے والی بیٹی کے دل میں ہونا چاہیے تھا۔ عتیرہ کے بعد افشاں بیگم نے بھی اسے سینے سے لگایا اور اس کے ماتھے پہ بوسہ ثبت کیا۔ ذیان نے اچھے طریقے سے ان سے خیر خیریت دریافت کی۔ افشاں بیگم کے چہرے پہ ذیان کو دیکھتے ہی متاثر ہونے والی خاص کیفیت پیدا ہوئی تھی جسے مرعوبیت کا نام دیا جاسکتا تھا۔
سب نوکرانیوں نے فرداً فرداً اسے سلام کیا۔ عتیرہ ساتھ ساتھ تعارف بھی کرواتی جارہی تھیں۔ نیناں سب سے الگ آخر میں کھڑی تھی۔ اس نے بھی ذیان کو خوش آمدید کہا۔ ذیان نے سفید شیفون کی لانگ شرٹ اور چوڑی دار پائجامہ زیب تن کر رکھا تھا ساتھ ہمرنگ جھاگ جھاگ دوپٹہ جس کے کنارے پہ میرون اور سلور لیس کے ساتھ ننھے منے گھنگھرو لگے ہوئے تھے۔
پاؤں میں سلور نگوں والی ہائی ہیل جوتی، ریشمی بال جو دونوں شانوں کے گرد بکھرے تھے۔ ستواں ناک، مغرور جاذب نظر ناک نقشہ۔ وہ پہلی نظر میں ہی اوروں کے ساتھ ساتھ نیناں یعنی رنم کو بھی متوجہ کرگئی تھی۔ قدرت نے اسے جی بھر کر دل کشی اور جاذبیت سے نواز تھا۔ نیناں نے ایک گہری نظر اسے دیکھنے کے بعد خود کو دیکھا۔ کتنے عام سے کپڑے اور عام سے حلیے میں تھی وہ یونیورسٹی میں اسے فیشن آئیکون کہا جاتا تھا اس کے سٹائل کو کاپی کیا جاتا۔
اور اب یہ لڑکی جو کروفر سے ملک محل میں تازہ تازہ وارد ہوئی تھی اسے خواہ مخواہ ہی پریشانی سے دوچار کر گئی تھی۔ اتنے دن کے بعد نیناں عرف رنم کو اپنی پرانی زندگی یاد آئی تھی۔ کبھی وہ بھی اپنے پپا کے ساتھ اپنے گھر میں اسی کروفر اور آن بان کے ساتھ رہتی تھی۔ بالکل کسی شہزادی کی مانند۔ جو پروٹوکول عتیرہ ملک کی بیٹی کو یہاں مل رہا تھا اپنے گھر میں اسے بھی ملتا تھا۔
مگر اب سب بدل گیا تھا۔ وہ شہر سے گاؤں پہنچ چکی تھی۔ مالکن نوکرانی بن گئی تھی۔
عتیرہ محبت سے ذیان کو دیکھ رہی تھیں یہ پیاسی ممتا کی آنکھیں تھیں۔ انہوں نے ذیان کو کچھ دیر بعد نوکرانی کے ساتھ اوپر بھیج دیا تاکہ وہ فریش ہوجائے اور اپنا کمرہ بھی دیکھ لے۔
افشاں بیگم اور عتیرہ اب دونوں شاندار ویٹنگ روم میں بیٹھی باتیں کر رہی تھیں۔
موضوع گفتگو ذیان ہی تھی۔ ”ماشاء اللہ ذیان بہت خوبصورت ہے اپنے نام کی طرح۔ چاند کا ٹکڑا ہے۔“ افشاں بیگم نے چوتھی بار یہ جملہ کہا تو عتیرہ مسکرا دیں، یہ خوشی کی مسکراہٹ تھی کیونکہ ان کی ذیان کو حویلی میں قبول کرلیا گیاتھا۔ ”جہانگیر بھائی کی طبیعت اب کیسی ہے؟“ انہوں نے گفتگو کے دوران پوچھا۔ ”پہلے سے تو بہتر ہے لیکن آپریشن کروانے کے بعد بھی ملک صاحب کو آرام نہیں ہے۔
ڈاکٹر نے بہت احتیاط بتائی ہے پر سنتے ہی نہیں کسی کی۔“ افشاں بیگم کا لہجہ شکایتی تھا۔
”کل جب میں ان کی طبیعت کا پوچھنے گئی تو کہہ رہے تھے کہ لیٹے لیٹے تنگ آگیا ہوں کچھ پڑھ بھی نہیں سکتا۔“ ”ابھی تازہ تازہ موتیے کا آپریشن ہوا ہے اتنی جلدی کہاں کچھ پڑھ سکیں گے۔“ ”بھابھی۔ جہانگیر بھائی بھی کیا کریں مجلسی یار باش انسان ہیں۔ ایک کمرے میں رہ رہ کر گھبرا گئے ہیں۔
“ ”ہاں تم ٹھیک کہتی ہو یہ بڑھاپا اور بیماری انسان کو کہیں کا نہیں چھوڑتی میں نے ذیان کا بتایا تھا پر وہ ٹھیک نہیں ہیں اس لئے نہیں آئے ہیں ملک صاحب۔“ ”بھابھی شرمندہ تو نہ کریں مجھے۔ ذیان خود جا کر مل آئے گی ان سے بزرگ ہیں وہ ہمارے۔“ ”اور یہ نیناں کہاں ہے کافی دیر سے نظر نہیں آرہی ہے۔“ افشاں بیگم نے بات کا رخ بدلا۔ ”صبح سے نوکرانیوں کے ساتھ لگی ہوئی ہے۔
میں نے اوپر والا سب حصہ صاف کروایا ہے اور نئے پردے بھی لگوائے ہیں۔ نیناں بہت محنتی ہے۔ کہتی ہے بیٹھ بیٹھ کے تھک جاتی ہوں مصروف رہنا اچھالگتا ہے۔ اِدھر اُدھر کچھ نہ کچھ کرتی ہی رہتی ہے۔“ عتیرہ نے افشاں بیگم کو تفصیلی جواب دیا تو انہوں نے تاسف سے سر ہلایا۔ ”بے چاری۔“ ”ہاں بھابھی یہ ابیک انڈسٹریل ہوم کی تعمیر کب شروع کروائے گا؟“ عتیرہ نے اچانک پوچھا۔
”کہہ رہا تھا جلدی کام شروع کراؤں گا میٹریل تو منگوا لیا ہے۔ اسی سلسلے میں شہر گیا ہوا ہے۔“ افشاں بیگم نے سادہ انداز میں بتایا۔ ”بھابھی میں سوچ رہی ہوں جب ابیک اپنا انڈسٹریل ہوم بنالے تو میں نیناں کے بارے میں اس سے بات کروں۔“ ”کون سی بات؟“ وہ متفسر ہوئیں۔ ”یہی کہ نیناں کو بھی انڈسٹریل ہوم میں کوئی کام بتائے۔ پڑھی لکھی لڑکی ہے اسی حساب سے کام کرتی اچھی لگے گی ناں۔
“ ہاں بے چاری اچھے گھر کی لگتی ہے پر قسمت رول دیتی ہے انسان کو۔“ افشاں بیگم نے گہرے فلسفیانہ لہجہ میں کہا۔
”ہاں بھابھی ٹھیک کہتی ہیں آپ۔ مجھے تو بہت ترس آتا ہے نیناں پہ۔“ عتیرہ نے بھی ہمدردی کے جذبات کا اظہار کیا۔
وسیع و عریض ڈائننگ ہال میں کھانے کی میزپہ صرف تین نفوس تھے۔ عتیرہ، ملک ارسلان اور خود ذیان۔ ٹیبل انواع و اقسام کی ڈشز سے بھری ہوئی تھی۔
ملک ارسلان اور عتیرہ ایک ایک چیز خود اٹھا کر اس کی پلیٹ میں ڈال رہے تھے۔ چکھنے کے دوران ہی اس کا پیٹ بھر گیا تھا۔ یہ بات اس نے دل میں تسلیم کی تھی کہ کھانا بے حد لذیذ ہے عتیرہ نے ذیان کی آمد سے کئی گھنٹے پہلے ہی کھانا پکانے والی تینوں نوکرانیوں کو باورچی خانے میں مصروف کردیا تھا۔
ملک ارسلان کا رویہ بے حد دوستانہ اور اپنائیت بھرا تھا۔
کھانے کے بعد وہ اس کی اجنبیت دور کرنے کے لئے ادھر ادھر کی باتیں کرنے لگے۔ عتیرہ محبت بھری نگاہوں سے ذیان کو دیکھے جارہی تھیں۔ ذیان بہت کم بول رہی تھی یا مختصر ترین جواب دے رہی تھی۔ ان کے لہجے اور اندازمیں ذیان کے لئے شفقت تھی۔ اسے بہت سوچنے کے بعد بھی ایسا کوئی لمحہ یاد نہیں آیا جب امیر علی نے پاس بیٹھ کر اسے اتنی محبت اور توجہ سے کوئی بات کی ہو یا پوچھا ہو۔ یہ اجنبی مرد کیوں اس پہ حد درجہ مہربان ہے کیوں اتنی شفقت کا برتاؤ کررہا ہے جبکہ اپنے سگے باپ تک نے اسے کبھی اتنی اہمیت نہیں دی جتنی یہاں مل رہی تھی۔ اس کے دماغ میں کشش مکش ہو رہی تھی۔

Chapters / Baab of Mein Guman Nahi Yaqeen Hon By Nabila Abar Raja