Episode 74 - Mein Guman Nahi Yaqeen Hon By Nabila Abar Raja

قسط نمبر 74 - میں گمان نہیں یقین ہوں - نبیلہ ابر راجہ

چند لمحے بعد وہاں ذیان کی ہذیانی چیخیں گونج رہی تھیں۔ چیخیں تھیں کہ صور اسرافیل تھا۔
اس بار افشاں بیگم کے ساتھ ملک جہانگیر بھی افتاداں و خیزاں ابیک کے کمرے میں موجود تھے۔ ذیان کی حالت بہت بری تھی۔ لمبے بال چہرے کے اطراف جھول رہے تھے اور وہ خود آنکھیں بند کیے جھوم رہی تھی جیسے اپنے حواس میں نہ ہو۔ وہ کچھ بڑبڑا رہی تھی۔ اس کے حلق سے دبی دبی مردانہ آوازیں برآمد ہو رہی تھیں۔
”نہیں چھوڑوں گا نہیں چھوڑوں گا اس کے پاس آیا تو بھسم کردوں گا۔“ اشارہ یقینا ابیک کی طرف تھا۔ ملک جہانگیر اور افشاں بیگم نہایت پریشانی اور حواس باختگی سے ذیان کو دیکھ رہے تھے۔ خاص طور پہ افشاں بیگم کی حالت بہت پتلی ہو رہی تھی۔ ”میری بہو پہ سچ مچ کا جن عاشق ہوگیا ہے ملک صاحب۔

(جاری ہے)

“ ان کا لہجہ مارے خوف کے کانپ رہا تھا۔

انہوں نے ذیان پہ عاشق ہونے والے جن کی دھمکی سن کر ابیک کو کمرے سے باہر جانے کو کہا۔
کیونکہ ذیان لال لال آنکھیں نکالے ابیک کو گھور رہی تھی۔ ابیک اپنی جگہ سے ٹس سے مس نہ ہوا تو وہ اسے بہلا کر باہر لے گئی۔ بہو پہ تو جن عاشق ہوگیا تھا اب بیٹے کی سلامتی بھی خطرے میں تھی۔
ایک بار پھر وہی صورت حال تھی۔ ذیان بے ہوش ہوچکی تھی۔ عتیرہ اور ملک ارسلان بھی افشاں بیگم کے بے وقت بلاوے پہ آچکے تھے۔ ذیان کی حالت دیکھ دیکھ کر عتیرہ رو رہی تھیں۔
”ذیان کی حالت تمہارے سامنے ہے جن نے براہ راست دھمکی دی ہے تمہیں میرے بچے۔ اس لئے تمہیں اس کے سامنے جانے کی ضرورت نہیں ہے۔“ افشاں بیگم الگ لے جا کر ابیک کو سمجھانے کی کوشش کر رہی تھیں۔ ”امی آخر ایسا کب تک ہوگا۔ ایک ہی گھر میں رہتے ہوئے یہ کیسے ممکن ہے کہ میرا اس کے ساتھ آمنا سامنا نہ ہو۔“ اس بات پہ افشاں بیگم اسے بے بسی سے دیکھ کر رہ گئی۔
حالات نے انہیں حواس باختہ کردیا تھا۔ نئی نویلی دلہن گھر میں لاتے ہی پریشانی نے منہ دیکھ لیا تھا۔ ابیک کو دیکھتی تو دل مسوس کر رہ جاتیں اس نے ازدواجی زندگی کی خوشی ہی نہیں پائی تھی جن نے صاف بولا تھا کہ قریب آئے تو بھسم کردوں گا۔
”ذیان کو ایسے تو نہیں چھوڑیں گے ناں۔ طاہرہ کہہ رہی تھی آپ کو سائیں بابا کے پاس لے جاؤں گی جن نکالنے کے ماہر ہیں۔
“ افشاں بیگم نے اپنی بہن کا نام لیا تو وہ دل میں محض افسوس ہی کرسکا۔
افشاں بیگم اپنی بہن طاہرہ کے ساتھ سائیں بابا کے ڈیرے پہ پہنچیں تو وہ بھائیں بھائیں کر رہا تھا۔ سائیں بابا کا ڈیرہ گاؤں سے باہر قبرستان کے پاس بنا ہوا تھا۔ طاہرہ کے ساتھ افشاں بیگم پہلی بار وہاں آئی تھیں۔ اپنی حویلی میں کام کرنے والی نوکرانیوں سے بھی انہوں نے سائیں بابا کی بہت تعریفیں سن رکھی تھیں لیکن ابھی بابا جی کے آستانے پہ الو بول رہے تھے۔
ملازم صورت ایک آدمی آستانے کے وسیع صحن سے جھاڑو لگا رہا تھا۔ طاہرہ نے اس آدمی سے سائیں بابا کی بابت دریافت کیا۔
”سائیں بابا اپنے عقیدت مندوں کی خواہش پہ دوسرے ڈیرے پہ چلے گئے ہیں۔ میں ان کا مرید ہوں۔ صبح و شام یہاں کا ایک چکر لگا لیتا ہوں۔“ ملازم صورت شخص سائیں بابا کا مرید تھا وہ ان کے بارے میں بہت ادب و احترام سے بات کر رہا تھا۔
”دوسرا ڈیرہ کہاں ہے؟“ افشاں بیگم نے خود سوال کیا۔ ”وہ تو جی دوسرے ضلع میں ہے۔“ مرید نے جواب دیا۔
”یعنی اب بابا جی اس ڈیرے پہ نہیں آئیں گے؟“ طاہرہ کے لہجے میں امید تھی۔
”سائیں بابا اب اس سال کے آخر میں یہاں آئیں گے۔“ مرید فکر انگیز لہجے میں بولا۔
”ویسے آ پ کو کیا کام ہے۔ کافی پریشان لگ رہی ہیں آپ دونوں۔“ مرید غضب کا ذہین ثابت ہوا فوراً تاڑ گیا کہ دونوں عورتیں کسی خاص مسئلے کے لیے آئی ہیں۔
”ہاں پریشانی تو بہت بڑی ہے بابا سائیں ہوتے تو ان سے بات کرتے ہم۔“ طاہرہ نے جواب دیا۔ ”آپ اپنی پریشانی مجھے بتائیں تو ہوسکتا ہے کہ میں آپ کے کام آؤں۔ ساتھ والے پنڈ میں سائیں بابا کے مرید خاص”جلالی باوا“ اللہ کے پریشان حال بندوں کی مدد کے لیے بیٹھے ہوئے ہیں۔ وہ سائیں بابا کے ساتھ ہی جانا چاہ رہے تھے پر ان کے حکم پہ نور پور میں رک گئے۔
وہاں اللہ کی مخلوق بڑی پریشانیوں کا شکار ہے بابا جی سارا دن اپنے پاس آنے والوں کی مشکلات سنتے ہیں اور اللہ کے حکم سے ان کی پریشانیاں دور کرتے ہیں۔ نور پور کے وسنیک بہت خوش ہیں کہ ایک اللہ والا ان کے درمیان موجود ہے۔
”بابا جی اپنے پاس آنے والوں کے لیے دعا کرتے ہیں۔ ان کی دعا سے بے اولادوں کو اولاد بیماروں کو شفا ملتی ہے لاعلاج سے لاعلاج بیماری کا علاج وہ محض اپنی دعا سے کرتے ہیں۔
بابا جی جن اتارنے کے ماہر ہیں۔“ سائیں بابا کا مرید”جلالی باوا“ سے خاص عقیدت رکھتا تھا اس نے تفصیل سے”جلالی باوا“ کی کرامات کے بارے میں بتایا۔ خاص طور پہ بابا جی جن اتارنے کے ماہر تھے۔ طاہرہ نے افشاں کا ہاتھ دبایا جو اس بات کا اشارہ تھا کہ وہ ٹھیک جگہ پہ پہنچی ہیں۔ انہوں نے”جلالی باوا“ کا پتہ ٹھکانہ اچھی طرح سمجھ لیا تھا۔ ویسے بھی نور پور اتنا دور نہیں تھا۔
نیناں عتیرہ کی طرف واپس آگئی تھی۔ نوکرانیاں دبی دبی آواز میں ذیان کے بارے میں بات کر رہی تھیں۔ نیناں دلچسپی سے سن رہی تھی خود وہ ایک لفظ بھی نہیں بولی تھی۔
”بے چاری چھوٹی بی بی پہ جن آگیا ہے اب ملک صاحب کی خیر نہیں ہے۔“ فریدہ نے جھرجھری لی۔ ”جن نے ملک صاحب کو تو کمرے کے اندر قدم بھی نہیں رکھنے دیا ہے۔“ یہ زیبو تھی۔
”ہاں تو کیا کرتے پھر وہ۔
چھوٹی بی بی کی حالت ہی اتنی خراب ہو رہی تھی۔“ زیبو کو بھی ملک ابیک سے ہمدردی ہو رہی تھی۔
عتیرہ ذیان کے پاس تھیں بلکہ افشاں بیگم، اپنی بہن طاہرہ کے ساتھ جلالی باوا کے پاس گئی ہوئی تھیں۔
جلالی باوا کا آستانہ گاؤں کے انتہائی سرے پہ باہر کی طرف اور قبرستان کے پا س تھا۔
آستانے کی طویل و عریض دیوار کے بیچ میں لوہے کا خاصا بڑا اور موٹا گیٹ لگا ہوا تھا۔
افشاں بیگم اور طاہرہ ڈرائیور کے ساتھ”جلالی باوا“ کے آستانے پہ آئی تھیں۔ گیٹ کے باہر خالی میدان میں دو گاڑیاں کھڑی تھیں افشاں بیگم اور طاہرہ نے متاثر کن نگاہوں سے آستانے کے گیٹ کو دیکھا اس کا چھوٹا دروازہ کھلا ہوا تھا جبکہ بڑا گیٹ بند تھا۔
دونوں گاڑی سے اتر کر آستانے کے چھوٹے گیٹ سے اندر داخل ہوئیں۔ اندر صحن میں اچھا خاصا سبزہ تھا۔
دیوار کے ساتھ ساتھ اونچے اونچے درخت ایستادہ تھے۔ صحن کے بالکل درمیان میں برگد کا درخت تھا جس کی گھنی چھاؤں نے صحن کے بڑے حصے کو اپنی لپیٹ میں لے رکھا تھا۔ اس کے علاوہ پھولوں کے پودے تھے۔ یعنی جلالی باوا کو قدرتی حسن سے بڑی دلچسپی تھی لگتا تھا خاصی باغ و بہار قسم کی شخصیت ہوں گے۔ صحن سے آگے برآمدہ تھا اور اسکے پیچھے چار بڑے بڑے کمرے تھے۔
کمروں کے علاوہ صحن میں بھی اچھے خاصے مرد و زن اپنی اپنی باری کے انتظار میں بیٹھے ہوئے تھے۔ ایک کمرہ جلالی باوا کا حجرہ تھا جس میں وہ آرام فرماتے اور عبادت کرتے۔ ایک کمرے میں بیٹھ کر وہ سائلین کے مسائل سنتے اور ان کے حق میں دعا فرماتے جس کو تعویذ دھاگہ دینا ہوتا اس کو اگلے دن پھر بلواتے۔ باقی دو کمروں میں ان کے مرید رہتے تھے۔
آستانہ صبح نو بجے سے شام چھ بجے تک ہر خاص و عام کے لیے کھلا رہتا۔
کوئی خاص قسم کی پریشانی کا شکار ہوتا تو جلالی باوا اسے ہمیشہ مغرب کے بعد بلواتے اور خاص قسم کی پریشانی کا علاج خاص قسم کے عمل سے کرتے۔ یہ سب باتیں آستانے پہ موجود عورتوں سے افشاں بیگم اور طاہرہ کو معلوم ہوئیں۔ افشاں بیگم بے حد مرعوب نظر آرہی تھیں۔ جلالی باوا کے پاس صاحب حیثیت پیسے والے امیر ترین لوگ بھی آتے تھے۔ باہر کھڑی دو گاڑیاں اس کا منہ بولتا ثبوت تھیں۔
اتنے رش اور ہجوم دیکھ کر دونوں مایوس ہو رہی تھیں۔ بالا آخر ان کی پریشانی پہ جلالی باوا کے ایک مرید کو ترس آگیا۔ اس نے ایک پرچی پہ ان کے نام لکھ کر اندر بجھوائے تو انہیں جلالی باوا کی بارگاہ میں حاضری کا اجازت نامہ مل گیا۔ افشاں بیگم خوشی سے پھولے نہ سمارہی تھیں۔ ورنہ انہیں لگتا تھا آج تو مایوس ہی لوٹنا پڑے گا اور جلالی باوا سے ملاقات نہیں ہوپائے گی۔
پر بھلا ہو اس مرید کا جس کو ان کی پریشان صورتوں پہ رحم آگیاتھا۔ اس نے دونوں کو جلالی باوا کے پاس پہنچا دیا۔
جلالی باوا دیوار کے ساتھ ایک مسند پہ تشریف فرما تھے جس پہ سفید چاندنی بچھی تھی۔ وہ آنکھیں بند کیے مستغرق تھے اور ایک ہاتھ سے اپنی بالشت بھر لمبی داڑھی میں خلال کر رہے تھے۔ ان کے ہاتھ کی انگلیوں میں چاندی کی نگینے جڑی انگوٹھیاں سجی تھیں۔
گلے میں منکے کے دو ہار تھے انہوں نے سفید چغہ زیب تن کر رکھا تھا۔ سر کے بال کندھوں تک بڑھے ہوئے تھے۔
ان کا ڈیل ڈول خاصا بھاری بھرکم اور رعب دار تھا۔ کمرے میں لوبان اور عنبر کی خوشبو پھیلی ہوئی تھی اور نیم اندھیرا تھا۔ دونوں خواتین عقیدت سے ایک طرف بیٹھ گئیں۔ ان سے پہلے ہی وہاں پانچ مرد و زن موجود تھے۔ جلالی باوا غور سے ان کے مسائل سن رہے تھے اور دعا کرتے جارہے تھے۔
ان پانچوں کو فارغ کرنے کے بعد وہ ان دونوں کی طرف متوجہ ہوئے۔ ”ہاں بی بیو کیا مسئلہ ہے۔ بہت پریشان ہو۔ پریشانی سے نکلنے کی کوئی صورت نظر نہیں آتی تھی۔“ وہ سرخ سرخ آنکھوں سے انہیں دیکھ رہے تھے۔ افشاں بیگم جلالی باوا کی آنکھوں کی تاب نہ لاپائی اور فوراً زمین پہ نظر گاڑی۔ ”بابا جی ہم واقعی بہت بڑی پریشانی کا شکار ہیں۔“ طاہرہ نے لب کشائی کی جرأت کی۔ ”سب پتہ ہے سب پتہ ہے اس لیے تو تم دونوں کو یہاں اکیلے میں بٹھایا ہے۔ تم اپنی پریشانی کسی پہ ظاہر نہیں کرنا چاہتی اس لیے ہم نے بھی تمہارا پردہ رکھا ہے۔“ جلالی باوا اپنی بھاری گونجدار آواز میں بولے تو افشاں بیگم اس بات پہ ایمان لے آئی کہ بابا واقعی بہت پہنچے ہوئے ہیں۔

Chapters / Baab of Mein Guman Nahi Yaqeen Hon By Nabila Abar Raja