Episode 90 - Mein Guman Nahi Yaqeen Hon By Nabila Abar Raja

قسط نمبر 90 - میں گمان نہیں یقین ہوں - نبیلہ ابر راجہ

ملک محل میں سب نے کھلے دل سے اسے خوش آمدید کہا۔ ملک ابیک اور ملک معاذ چھوٹے چھوٹے تھے۔ انہیں دیکھ کر عتیرہ کو ذیان یاد آنے لگتی۔ دل کے ہاتھوں مجبور ہو کر اس نے ایک بار پھر اسے ملنے کی سعی کی۔ اس مقصد کے لیے اس نے بوا رحمت کو خط لکھا اور ذیان سے کسی بھی طرح چھپ کر ملاقات کروانے کو کہا۔ اس خط کے مندرجات الفاظ دل ہلا دینے والے تھے یہ صرف ایک خط نہیں تھا ماں کے دکھی دل کی فریاد تھی۔
اس نے جس جتن سے یہ خط بوا کو بھیجا یہ وہی جانتی تھی۔ پر اسے خط کا کوئی جواب نہیں ملا۔
ملک ارسلان اس کی حالت دیکھ دیکھ کر کڑھتے۔ وہ اسے گھمانے پھرانے کے لیے ورلڈ ٹور پہ لے گئے۔ پر عتیرہ کے دل کی بے کلی ختم نہ ہوئی۔وہ کافی عرصہ نفسیاتی معالج کے زیر علاج رہیں لیکن دل سے بیٹی کی یاد کو نہ نکال سکیں۔

(جاری ہے)

ملک ارسلان نے انہیں اندھیری راتوں میں سب سے چھپ کر اللہ کے سامنے فریاد کرتے روتے گڑگڑاتے دعائیں مانگتے دیکھا۔

عتیرہ کی دعاؤں کی قبولیت میں سالوں لگ گئے۔ پھر ایک دن وہ معجزہ ہوگیا جس کی توقع وہ جانے کب سے کر رہی تھیں۔ بوا رحمت نے خود ان سے رابطہ کیا اور ذیان کو اپنے ساتھ لے جانے کے لیے کہا۔ اٹھارہ برس بعد یہ انہونی ہوئی تھی۔ خوشی سے ان کے ہاتھ پاؤں پھولے جارہے تھے۔ ملک ارسلان عتیرہ کو خوش دیکھ کر خود بھی شادمان تھے۔ وہ بذات خود جا کر ذیان کولے کر آئے۔
عتیرہ جس بیٹی سے ملنے کی تمنا میں برسوں سے تڑپ رہی تھی یہ وہ تو نہیں تھی۔ ذیان تو ان کی شکل تک دیکھنے کی روا دار نہ تھی۔
”بس یہ تھی میری زندگی کی کہانی اور سچائی۔“ عتیرہ ماضی کا سفر کر کے حال میں لوٹ آئی تھیں۔ انہوں نے ذیان کی طرف دیکھا دونوں بغیر پلک جھپکائے ایک دوسرے کی سمت دیکھ رہی تھیں۔ اچانک ذیان اپنی جگہ سے اٹھی اور بھاگ کر ان کے گلے سے آلگی۔
آنسوؤں کی جھڑی اس کی آنکھوں سے بہہ رہی تھی۔ اپنی غلط فہمیوں غلط سوچوں پہ وہ جی بھر کر شرمندہ تھی۔ اپنی ماں کی مجبوریوں کا ادراک اسے اب آ کر ہوا تھا۔ ذیان نے انہیں ہمیشہ انہیں قصور وار اور مستوجب سزا ہی تصور کیا کتنا برا کرتی آئی تھی وہ ان کے ساتھ۔ پھر انہوں نے اپنی تکلیف کا اظہار کبھی بھی نہیں کیا۔ ذہنی اذیت کرب آنسو جو وہ انہیں دے چکی تھی کچھ بھی تو بھولنے کے قابل نہ تھا۔
ذیان اپنی گزشتہ زندگی اور رشتوں سے بدگمان ہی رہی۔ امیر علی کی کمزوری اور نفرت کی بدولت زرینہ بیگم کے ہاتھ مضبوط ہوئے جس کی وجہ سے وہ ذیان کو اذیت دیتی رہی۔ امیر علی گھر کے سکون کو خراب ہونے سے بچانے کی خاطر خاموش رہے ان کی یہی خاموشی اور چشم پوشی ذیان کو اذیت پرستی اور خود اذیتی کے گہرے اندھیروں میں لے جانے کا باعث بنی۔ وہ خود سے وابستہ خود سے چاہنے والوں کو اذیت دینے کی عادی ہوتی گئی۔
یہ بات بھی قابل غور تھی کہ وہ خود سے وابستہ بہت قریبی رشتوں کو ہی اذیت دیتی آئی تھی سب سے پہلے امیر علی ہی اس کا نشانہ بنے تھے نفرت کا جو بیج انہوں نے بویا تھا اب ذیان کی صورت کاٹنا تو تھا۔ اسے انہیں بے سکون کر کے نظر انداز کر کے عجیب سی خوشی ملتی۔ امیر علی کے بعد عتیرہ اور پھر ابیک کا نام اس فہرست میں تھا۔
وہ ملک ارسلان سے بھی برگشتہ رہی تھی اس کے خیال میں وہ بھی برابر کے قصور وار تھے۔
اب وہ عتیرہ کی گود میں سر رکھے رو رہی تھی۔
ملک ارسلان اچانک اس طرف آئے تھے۔ دونوں ماں بیٹی کو دھواں دھار روتے دیکھ کر وہ بغیر کچھ پوچھے ہی سمجھ گئے تھے۔ انہوں نے دونوں کو چپ کروایا۔ عتیرہ کے آنسو اب بھی نہیں رک رہے تھے۔ ملک ارسلان کا ایک ہاتھ ذیان کے سر پہ تھا وہ اسے تسلی دے رہے تھے وہ ننھے بچے کی طرح ہمک کر ان کے دائیں بازو سے آلگی۔
”بابا ایم سوری بابا میں آپ دونوں کو غلط سمجھتی رہی۔“ ندامت سے اس کی نگاہیں جھکی ہوئی تھیں۔ ملک ارسلان نے ہاتھ بڑھا کر اسے اپنے سینے سے لگا لیا۔
عتیرہ، ذیان اور ارسلان، تینوں ایک ساتھ ، روتی آنکھوں کے ساتھ چہرے پہ مسکراہٹ لیے، یہ تصویر اب مکمل تھی۔
###
احمد سیال کی طرف سے دی گئی دعوت میں ملک جہانگیر، افشاں بیگم ملک ابیک اور ذیان چاروں ہی آئے تھے۔
ذیان کا اس قسم کی دعوت میں آنے کا پہلا اتفاق تھا۔ احمد سیال کا تعلق بزنس کلاس سے تھا ان کے مدعو کیے گئے مہمانوں میں اکثران کے سوشل سرکل سے تعلق رکھتے تھے۔
احمد سیال نے بڑی گرمجوشی سے ان سب کی اور خاص طور پہ ذیان کی خیر خیریت دریافت کی تھی۔ اسے ایک ثانیے کے لیے ایسا محسوس ہوا تھا جیسے انہوں نے اسے گہری نگاہ سے دیکھا ہو بعد میں یہ احساس پوری تقریب کے دوران اس پہ حاوی رہا۔
احمد سیال نے اپنی اکلوتی صاجزادی سے ان کا تعارف کروایا۔ ریڈ کلر کے ماڈرن ڈریس میں ان کی بیٹی شعلہٴ جوالہ بنی ہوئی تھی۔ ذیان بھی ڈیپ ریڈ کلر کے کامدار سوٹ میں ملبوس تھی۔ مگر نہ جانے احمد سیال کی بیٹی سے تعارف حاصل کرنے کے بعد ذیان کو اپنی تیاری اپنا قیمتی ڈریس میچنگ جیولری نفاست سے کیا گیا میک اپ سب کا سب ہی انتہائی فضول لگنے لگا۔
احمد سیال کی لاڈلی بیٹی پوری محفل پہ چھائی ہوئی تھی۔
ذیان اسے دیکھ کر دنگ رہ گئی تھی۔ وہ احمد سیال کے گھر میں ان کی بیٹی کے روپ میں اس حلیے میں اسے نہ ملتی تو وہ کبھی بھی اسے رنم سیال ماننے پہ آمادہ نہ ہوتی ایسے لگ رہا تھا جیسے یہ نیناں کی مشابہت لیے رنم سیال ہے۔ لیکن یہ سو فیصد احمد سیال کی بیٹی رنم تھی بھلا کہاں نیناں ایک عام سی لڑکی اور کہاں رنم سیال ایک بزنس ٹائیکون کی ماڈرن بیٹی جو پڑھنے کی غرض سے پاکستان سے باہر گئی ہوئی تھی۔
کچھ ایسا ہی حال ملک ابیک کا بھی تھا جب احمد سیال نے رنم کا تعارف ملک فیملی سے کروایا۔ وہ بے یقینی سے رنم سیال کو دیکھ رہا تھا جس کے ریڈ لپ سٹک سے سجے ہونٹ بہت خوبصورتی سے مسکرا رہے تھے۔ اس نے انتہائی گرمجوشی سے ملک ابیک سے ہاتھ ملایا۔ خیر مقدمی مسکراہٹ اس کے ہونٹوں سے جدا ہی نہیں ہو رہی تھی۔ ابیک بہت غور سے اسے دیکھ رہا تھا جبکہ رنم کی آنکھوں میں شناسائی کی کوئی رمق نہ تھی۔
ابیک اور ذیان تو اسے دیکھ کر چونک گئے تھے جبکہ افشاں بیگم کا رویہ نارمل تھا۔
کیونکہ رنم سیال کی پوری لک ہی Change تھی صرف ہلکی پھلکی نقوش کی مشابہت سے کیا ہوتا تھا۔ رہ گئے جہانگیر ملک تو ملک محل میں بہت کم ان کا سامنا نیناں سے ہوا تھا اور انہوں نے اس پہ خاص توجہ ہی نہیں دی تھی ویسے بھی موتیے کے آپریشن کے بعد ان کے ساتھ بصارت کے مسائل ہو رہے تھے۔
ابیک اور ذیان دونوں رنم سیال کو دیکھ دیکھ کر حیران ہو رہے تھے۔ اس کا ہر انداز نیناں سے مختلف تھا۔
ڈنر کے بعد گاؤں واپسی کے لیے ٹائم نہیں رہا تھا۔ احمد سیال نے بڑی محبت کے ساتھ انہیں رکنے کی پیش کش کی۔ تقریب ختم ہوچکی تھی ان کے سوا باقی سب مہمان واپس جا چکے تھے۔ رنم نے اپنے کلاس فیلوز میں سے کسی کو بھی مدعو نہیں کیا تھا انہیں اس کے آنے کی ابھی تک خبربھی نہیں ملی تھی۔
وہ دل ہی دل میں ان سے ناراض تھی خاص طور پہ کومل اور فراز سے تو وہ انتہائی بدگمان اور برگشتہ تھی اس لیے تو اس نے ان دونوں کو ابھی تک اپنی واپسی کا بھی نہیں بتایا تھا۔
رنم بہت خوش تھی ابیک پہلی بار اس سے ملا تھا۔ وہ رنم سیال کے چہرے کے ساتھ تھی اس کی حیرت دیکھ دیکھ کر محظوظ ہو رہی تھی۔ اس کے چہرے پہ الجھن تھی یہی حال ذیان کا بھی تھا پر رنم نے اسے خاص اہمیت نہیں دی تھی۔
اس کی پوری توجہ ملک ابیک کی طرف تھی۔
ملک جہانگیر، افشاں بیگم، احمد سیال اور ذیان ایک ساتھ بیٹھے باتیں کر رہے تھے بلکہ ذیان صرف سامع کے فرائض سر انجام دے رہی تھی۔ جبکہ رنم ایک الگ صوفے پہ ملک ابیک کے ساتھ بیٹھی باتیں کر رہی تھی۔ وہ کم سے کم وقت میں زیادہ سے زیادہ معلومات حاصل کرنے کے چکر میں تھی۔
”اچھا آپ شہر کے ساتھ ساتھ گاؤں میں بھی پراجیکٹ پہ کام کر رہے ہیں واؤ گریٹ۔
“ رنم نے آنکھیں پھیلاتے ہوئے خوشی کا اظہار کیا۔ ”جی ہاں میں ایک سکول بھی بنوا رہا ہوں تعمیر کے مراحل میں ہے وہ۔ اور انڈسٹریل ہوم مکمل ہو کر کام شروع کرچکا ہے۔ بہت سی عورتیں بچیاں وہاں آتی ہیں ان کے ہاتھ کا تیار کیا ہوا کام ہنر اور دست کاری کے نمونے شہر کی مارکیٹس تک رسائی حاصل کر رہے ہیں۔ نیا نیا کام ہے آہستہ آہستہ میں اپنا دائرہ کار بڑھاؤں گا۔
“ رنم کی دلچسپی محسوس کرتے ہوئے ملک ابیک اسے تفصیل سے بتا رہا تھا۔
 ”آپ تو بہت اچھا کام کر رہے ہیں۔ مجھے بھی سوشل ورک سے دلچسپی ہے میرا دل چاہتا ہے غریب بے سہارا لوگوں کے لیے کچھ کروں۔“ ”آپ ضرور کریں اگر اللہ نے توفیق دی ہے تو قدم آگے بڑھائیں۔ معاشرے کے یہ محروم پسے ہوئے لوگ بہت سے حقوق اور صحت کی بنیادی سہولتوں تک سے محروم ہیں۔
“ ”میں آپ کے گاؤں آؤں گی۔ سکول اور انڈسٹریل ہوم دیکھنے۔ مجھے بھی گائیڈ لائن چاہیے جس پہ کام شروع کرسکوں۔“
”آپ آئیے گا میں آپ کا انتظار کروں گا۔“ ملک ابیک بہت خوش ہوا۔ اس ماڈرن لڑکی کے منہ سے غریب، غریب لوگوں کے مسائل سن کر اسے بہت اچھا محسوس ہوا۔ وہ غریب لوگوں کے لیے ہمدردی رکھتی تھی اس کی سوچ عام امیروں کی مانند صرف اپنے آپ تک محدود نہیں تھی وہ انسان اور انسانیت کا درد اپنے دل میں رکھتی تھی۔ پہلی ملاقات میں ہی وہ دونوں بے تکلف ہوگئے تھے۔

Chapters / Baab of Mein Guman Nahi Yaqeen Hon By Nabila Abar Raja