Episode 25 - Mein Guman Nahi Yaqeen Hon By Nabila Abar Raja

قسط نمبر 25 - میں گمان نہیں یقین ہوں - نبیلہ ابر راجہ

راعنہ پارلر جانے کے لئے تیار تھی۔ ملازمہ اس کا عروسی لباس اور دیگر چیزیں رکھ رہی تھی۔ کومل اور رنم دونوں اس کے ساتھ جارہی تھیں۔ ”تمہیں اپنا برائیڈل پسند ہے؟“ گاڑی پارلر جانے والی سڑک پہ مڑ رہی تھی جب کومل نے گھما پھرا کر تیسری بار یہی سوال کیا۔ ”ہاں مجھے بہت پسند ہے۔“ وہ پورے اعتماد سے بولی۔ ”تمہیں اس ڈیزی ڈریس کو پہن کر آکورڈ فیل نہیں ہوگا؟“
کومل نے اب ایک نئے زاویے سے سوال کیا۔
”کیوں آکورڈ فیل ہوگا ساری عمر اپنے پپا کے دئیے ہوئے پیسوں سے خریداری کی ہے بے دردی سے رقم خرچ کی ہے۔ یہ شہریار نے اپنی کمائی سے خریدا ہے مجھے فخر ہے اس پہ۔“ راعنہ اس بار قدرے غصے سے بولی تو کومل جہاں کی تہاں بیٹھی رہ گئی۔
دلہن بن کر راعنہ بہت خوبصورت لگ رہی تھی۔

(جاری ہے)

اس کا عروسی لباس اور جیولری اتنی قیمتی نہیں تھی پر ایسی گئی گزری بھی نہیں تھی۔

شہریار کو جاب شروع کیے اتنا زیادہ ٹائم نہیں ہوا تھا اس نے اپنی حیثیت کے مطابق ہی سب کچھ لیا تھا۔ نہ تو اس نے اپنے والدین سے شادی جیسا معاشرتی فرض نبھانے کے لئے کوئی مالی مدد لی تھی اور نہ ہی راعنہ کے پپا سے کچھ لینا گوارا کیا تھا۔ اسے اپنی محنت اور اللہ پہ بھروسہ تھا وہ اکثر نوجوانوں کی طرح شارٹ کٹ جیسے راستوں سے راتوں رات ترقی کی منازل طے کرنے والے خواب نہیں دیکھتا تھا۔
اس نے اللہ کا نام لے کر جاب کیساتھ ساتھ اپنا پارٹ ٹائم بزنس بھی شروع کردیا تھا۔ یہ اسی کی برکت تھی کہ اس نے راعنہ کے لئے شادی کی خریداری کرنے کے ساتھ ساتھ اپنا چھوٹا سا گھر بھی خرید لیا تھا۔
اسے جب راعنہ کے برابر لا کر بٹھایا گیا تو انجانے سے تفاخر سے اس کی گردن اور سر اوپر اٹھا ہوا تھا۔
اس کی آنکھوں اور چہرے کی چمک بتا رہی تھی کہ راعنہ کے مقابلے میں اپنی حیثیت پہ شرمندہ نہیں ہے۔
اس کے پاس راعنہ کے پپا جتنی دولت نہیں تھی لیکن اس کے انداز اورشخصیت سے کسی بھی قسم کا احساس کمتری نہیں جھلک رہا تھا۔
رنم، راعنہ سے قدرے دور کھڑی اسے دیکھتے ہوئے کچھ سوچ رہی تھی۔اگر ایسا برائیڈل ڈریس اس کا ہوتا تو وہ اتنے مہمانوں کے بیچ کبھی نہ پہنتی۔ پر راعنہ کتنی مسرور تھی۔ رنم کے لئے تو یہ بات ہی حیران کن تھی کہ شہریار، راعنہ سے کم حیثیت ہونے کے باوجود سسرال سے کسی بھی قسم کی مدد نہیں لے رہا تھا۔
وہ چاہتا تو بہت آسانی سے سب کچھ حاصل کرسکتا تھا کیونکہ راعنہ کے پپا بیٹی کو گھر، گاڑی، بنک بیلنس بیش قیمت فرنیچر، زیورات سب کچھ ہی تو دینا چاہ رہے تھے۔ پر شہریار نے سب کچھ لینے سے انکار کردیا تھا اور راعنہ کو بھی سختی سے منع کیا تھا۔
رنم جلد از جلد گھر جا کر اپنے پپا سے یہ خبر شیئر کرنا چاہ رہی تھی۔
                                          ###
روبینہ آپا آئی ہوئی تھیں۔
کمال اور عفت خانم کے گھر سے واپسی کے بعد آج روبینہ کے یہاں ان کا پہلا چکر تھا۔ اس کے بعد بہن سے ان کی بات ہی نہیں ہوئی۔ وہ معلوم کرنا چاہ رہی تھیں کہ کمال کے بارے میں امیر علی نے کیا فیصلہ کیا ہے۔
اِدھر اُدھر کی باتوں کے دوران روبینہ نے اچانک بہن سے یہ سوال کرلیا۔
”امیر بھائی نے کیا فیصلہ کیا کمال کے رشتے کے بارے میں؟“
”ابھی تک تو اونٹ کسی کروٹ نہیں بیٹھا ہے۔
تمہارے بھائی کہتے ہیں کہ اتنی جلدی کاہے کی ہے۔“ وہ برا سا منہ بناتے بولی۔ ”ویسے سچ پوچھو تو مجھے کمال کی ماں سے مل کر ذرا بھی کسی خلوص یا گرمجوشی کا احساس نہیں ہوا پھر گھر کی حالت کیسی عجیب سی ہے اوپر سے کمال کی جو فوٹو میں نے دیکھی مجھے تو کمال بھی پسند نہیں آیا ہے۔ اتنی زیادہ عمر کا لگ رہا ہے۔ کم سے کم لڑکا ذیان کے جوڑ کا ہو۔“ روبینہ نے تو بڑے عام سے انداز میں اپنے خیالات کا اظہار کیا تھا پر زرینہ بیگم کو بہت غصہ آیا۔
روبینہ آپا، کمال، اسکے گھر اور اس کی ماں عفت خانم کے خلاف بولتے ہوئے در حقیقت ذیان کی سائیڈ لے رہی تھیں اور یہی اس معاملے کا اختلافی پہلو تھا۔
”اتنی بھی زیادہ عمر کا نہیں ہے کمال… رہی گھر کی بات تو اچھا کماتا کھاتا لڑکا ہے گھر بھی ٹھیک کروا لے گا۔ ذیان کے عیش ہوں گے۔ نندیں اپنے گھروں کی ہیں ساس بوڑھی اور بیمار ہے اس کا اپنا راج ہوگا۔
زرینہ بڑھ بڑھ کر کمال کی حمایت میں بول رہی تھی۔ پر بہن کے لاکھ چاہنے کے باوجود بھی وہ اسے متفق نہیں ہو پا ئی تھیں۔ کچھ بھی سہی وہ لاکھ بری ہونے کے باوجود زرینہ کی طرح دشمنی اوربد گمانی میں اندھے ہوجانے والوں میں شامل نہیں تھیں۔ وہاب ان کا لاڈلہ بیٹا ذیان کی محبت میں پاگل تھا۔ اس کی خوشی دیکھتے ہوئے روبینہ ماں ہونے کی حیثیت سے چاہ رہی تھی کہ ذیان کا رشتہ وہاب سے طے ہوجائے۔
پر زرینہ ان کی ماں جائی اس حق میں نہیں تھی۔ روبینہ اپنی بہن کی فطرت، ہٹ دھرمی اور ضد سے اچھی طرح واقف تھیں اس لئے انہیں ایک فی صد بھی امید نہیں تھی کہ زرینہ اس رشتے پہ آمادہ ہوگی۔ اسی لئے وہ خاموش ہوگئی تھیں۔ پر کمال کی صورت میں زرینہ نے ذیان کے لئے جو رشتہ اسے دکھایا تھا وہ بھی ذیان کے لئے ہر لحاظ سے ناموزوں تھا۔ چپ چاپ خاموش گہری اداس آنکھوں والی ذیان پہ نہ جانے کیوں انہیں رہ رہ کر ترس آرہا تھا۔
آپا روبینہ کے منہ سے کمال کی زیادہ عمر والی بات انہیں بالکل پسند نہیں آئی تھی۔ امیر علی کے بعد آپا کے منہ سے بھی یہی اعتراض زرینہ کوبھایا نہیں۔ عمر سے کچھ نہیں ہوتا مرد کی قابلیت دیکھی جاتی ہے۔ کمال خوب کما رہا ہے(یہ الگ بات اس کے گھر کی حالت زار اور عفت خانم کی مہمان نوازی سے کمال کا خوب کماؤ پوت ہونا ثابت نہیں ہو رہا تھا) ذیان کو ہر خوشی اور سہولت دے سکتا ہے۔
کسی عورت کی طلب کی یہ آخری حد ہوتی ہے کہ اس کی ضروریات و خواہشات پوری ہوتی رہیں۔ زرینہ بیگم کے پاس اپنے دلائل اور اپنا دماغ تھا۔
ذیان کالج سے لوٹی تو گھر میں سناٹا تھا۔ ویسے بھی اس وقت سب کھانا کھا کر آرا م کرتے تھے۔ آفاق، رابیل اور مناہل اس سے پہلے گھر آتے اور کھانا کھا کر اپنے اپنے کمرے کی راہ لیتے۔

Chapters / Baab of Mein Guman Nahi Yaqeen Hon By Nabila Abar Raja