Episode 24 - Mein Guman Nahi Yaqeen Hon By Nabila Abar Raja

قسط نمبر 24 - میں گمان نہیں یقین ہوں - نبیلہ ابر راجہ

زرینہ تیار ہو کر روبینہ آپا کے گھر آگئی تھی۔ وہاب حسب معمول اپنے آفس میں تھا۔ زرینہ نے اس کی عدم موجودگی سے اطمینان سا محسوس کیا۔ کیونکہ اس کی موجودگی میں کچھ چھپانا دشوار تھا۔ ایک دفعہ ذیان کے ساتھ کمال کا رشتہ طے ہوجاتا پھر بعد کی بعد میں دیکھی جاتی۔ فی الحال زرینہ وہاب کے تیور اور دھمکی دونوں سے خائف تھی۔ ”آپا جلدی کریں ناں۔“ وہ بڑے صبر سے روبینہ آپا کو بالوں میں برش کرتا دیکھ رہی تھی۔
اسے کمال احمد کے گھر جانے کی جلدی تھی وہ اسی مقصد کے لئے روبینہ آپا کی طرف آئی تھی۔ کل رات بطور خاص انہیں فون پہ یاد دہانی کروائی تھی کہ میرے آنے سے پہلے تیار رہیے گا ابھی آنے سے پہلے بھی اس نے آپا کو فون کیا تھا کہ میں گھر سے نکل رہی ہوں۔ یہاں پہنچی تو وہ اطمینان سے بیٹھی ہوئی چائے پی رہی تھیں۔

(جاری ہے)

اسکے شور مچانے پہ انہوں نے کپڑے بدلے۔

بال بنانے کے بعد انہوں نے پورے آرام سکون کے ساتھ چادر اوڑھی پرس اٹھایا اور آئینے میں اپنا تنقیدی جائزہ لیا۔ ”چلیں۔“ روبینہ زرینہ کی طرف مڑی جو اضطراب کے عالم میں تھی۔ ”ہاں آپا چلیں پہلے ہی کافی دیر ہوگئی ہے۔“ زرینہ پہ عجلت سوار تھی۔
کمال کے گھر ان کا استقبال سب سے پہلے گیٹ پہ متعین چوکیداری نے کیا۔ زرینہ اندر آ کر جائزہ لینے میں مصروف تھی۔
گھر پرانے وقتوں کا تعمیر شدہ تھا اس لئے اس میں جدیدیت مفقود ہی تھی۔ کمال کی والدہ عفت خانم انہیں دیکھ کر پریشان اور ہراساں سی نظر آئیں حالانکہ زرینہ نے دو دن پہلے ہی اپنے آنے کی اطلاع کردی تھی۔
انہوں نے خیر مقدمی چہرے پہ سجاتے ہوئے حال احوال پوچھنے کے بعد دونوں بہنوں کو ڈرائنگ رو م میں لا بٹھایا یہاں جگہ جگہ بے ترتیبی نظر آرہی تھی شاید صفائی کرنے والی نہیں آئی تھی۔
زرینہ نے دل ہی دل میں اندازہ لگایا جو بعد ازاں درست ثابت ہوا عفت خانم شرمندہ انداز میں بتا رہی تھیں کہ صفائی کرنے والی پورے ہفتے سے غائب ہے۔ ”تب ہی گھر کا یہ حال ہے۔“ زرینہ نے دل میں کہا۔ عفت خانم گزشتہ چالیس منٹ سے اپنے دکھڑے رو رہی تھی اس دوران انہوں نے ایک بار مروتاً بھی دونوں بہنوں سے چائے پانی کا نہیں پوچھا۔ بہت دیر بعد جب روبینہ نے بے زار ہو کر زرینہ کو آنکھوں آنکھوں میں اٹھنے کا اشارہ کیا تو تب عفت خانم کو مہمانوں کی خاطر مدارات کا خیال آیا۔
”اصل میں ہماری کھانا بنانے والی پچھلے ہفتے سے اپنے گاؤں گئی ہوئی ہے۔ کھانابنا کر وہ فریج میں رکھ گئی تھی۔ کمال اور میں گرم کر کے کھالیتے ہیں۔ روٹی کمال ہوٹل سے لے آتا ہے۔ میں صرف چائے ہی مشکل سے بنا پاتی ہوں جوڑوں کے درد نے لاچار کردیا ہے کچھ بھی نہیں ہوتا مجھ سے۔ لیکن آپ دونوں تو خاص الخاص ہیں ہمارے لئے میں چائے بنا کر لاتی ہوں۔
“ عفت خانم وضاحت دینے کے بعد باورچی خانے کی طرف چلی گئیں۔ روبینہ کی نگاہ پورے ڈرائنگ روم کا جائزہ لے رہی تھی۔ سامنے رنگ اتری دیوار پہ ایک تصویر فریم میں ٹنگی تھی انہوں نے سوالیہ نگاہوں سے بہن کی طرف دیکھا جیسے پوچھنا چاہ رہی ہوں کہ یہ کس کی ہے۔ زرینہ نے فوراً ان کا سوال سمجھ لیا۔ ”یہ کمال کی فوٹو ہے عفت خانم کا بیٹا تین بہنوں کا اکلوتا بھائی جس کا رشتہ ذیان کے لئے آیا ہے۔
“ روبینہ سرہلا کر رہ گئی۔ وہ معنی خیز نگاہوں سے زرینہ کی طرف دیکھ رہی تھیں۔ انہیں عفت خانم، گھر اور کمال کی فوٹو کچھ بھی پسند نہ آیا تھا۔ بندا مہمانوں کا ہی خیال کرلیتا ہے۔ پورے ایک گھنٹے بعد عفت خانم کو چائے پانی کا خیال آیا تھا۔ روبینہ اٹھنا چاہ رہی تھی پر زرینہ نے ہاتھ پکڑ کر اس عمل سے باز رکھا۔ وہ کونسا یہاں خوشی سے بیٹھی تھی۔
رشتے کا خیال نہ ہوتا تو کب کی یہاں سے جاچکی ہوتی۔ فطرتاً وہ صفائی پسند اور سلیقہ مند عورت تھی۔یہاں جگہ جگہ گرد، مٹی، دھول اور بے ترتیبی دیکھ کر ان کی نفاست پسند طبیعت خراب ہونا شروع ہوچکی تھی۔اسی وجہ سے عفت خانم کی بنائی چائے کے چند گھونٹ زبردستی پیئے۔ کالی بد رنگ بد ذائقہ چائے تھی ساتھ باسی فروٹ کیک۔ حالانکہ زرینہ آتے ہوئے انکے گھر کیک، مٹھائی، اور کافی سارا موسمی فروٹ بھی لائی تھی۔
عفت خانم کو اتنی توفیق نہیں ہوئی کہ ان میں سے ہی کچھ مہمانوں کے آگے رکھ دیتیں۔
چائے پی کر عفت خانم کے لاکھ روکنے کے باوجود دونوں وہاں سے اٹھ آئیں۔باہر نکل کر سکون کاسانس لیا جیسے جیل سے رہائی ملی ہو۔ عفت خانم کے گھر عجیب سی بساند پھیلی ہوئی تھی جو وہاں بیٹھے مسلسل محسوس ہوتی رہی پر زرینہ نے ایک بار بھی اظہار نہیں کیا۔ اُسے گھٹیا سی خوشی ہو رہی تھی۔
ذیان کو کمال کے گھر میں جو جو مسائل پیش آنے تھے اس کا اندازہ زرینہ کو قبل از وقت ہی ہوگیا تھا۔ ذیان کا سارا غرور نخرہ اکڑ دھری کی دھری رہ جانے والی تھی۔ امیر علی اپنے باپ کے گھر میں اس نے بہت عیش کر لئے تھے۔ اب عفت خانم کے گھر بھگتنے کی باری اس کی تھی۔ زرینہ بہت مسرور تھی۔
                                          ###
زرینہ امیر علی کے بیڈ کے پاس کرسی رکھے اس پہ بیٹھی آہستہ آواز میں بات کر رہی تھیں۔
سب اپنے اپنے کمروں میں تھے۔ ”میں دیکھ آئی ہوں آپا روبینہ کے ساتھ کمال کا گھر!!“اتنا بول کر وہ چپ ہوگئیں۔ وہ دراصل ان کے تجسس کو ابھارنا چاہ رہی تھی۔ امیر علی خاموشی سے اس کے اگلے جملے کا انتظار کر رہے تھے سو زرینہ خود ہی پھر سے شروع ہوگئی۔ ”اتنے بڑے گھر میں صرف عفت خانم تھیں کمال آفس میں تھا۔ انہوں نے اتنے اچھے طریقے سے خاطر مدارات کی ہے کہ دل خوش ہوگیا ہے۔
ذیان وہاں راج کرے گی راج۔ نہ کوئی روک نہ ٹوک سب اپنی مرضی سے کرے گی۔ میں تو کہتی ہوں کہ اب کوئی چھوٹی موٹی سی رسم ہی کرلیں اور ساتھ ہی شادی کی تیاری کریں۔“
”تمہیں اتنی جلدی کیوں ہے؟“ اس کی اتنی باتوں کے جواب میں انہوں نے مختصر سوال کیا پر زرینہ تیار تھی۔ ”کمال بہت اچھا لڑکا ہے انہیں شادی کی جلدی ہے ایسا نہ ہو یہاں سے مایوس ہو کر وہ کسی اور طرف کا رخ کرلیں اور ذیان بیٹھی رہ جائے۔
“ آخری جملے پہ امیر علی نے تڑپ کر اس کی طرف دیکھا۔ ”میری بیٹی میں کوئی عیب یا کردار میں خرابی نہیں ہے لاکھوں میں ایک ہے وہ… بہت اچھا مقدر ہوگا اس کا۔ اللہ نہ کرے وہ بیٹھی رہے۔“ امیر علی اچانک تلخ ہوگئے۔ 
زرینہ وقتی طور پہ خاموش ہوگئی پر امیر علی کا رویہ حیران کن تھا۔ وہ جتنا جلدی ذیان نامی بلا کو سر سے اتارنا چاہ رہی تھی اس میں اتنی ہی رکاوٹیں پیش آرہی تھیں۔
ادھر امیر علی کی محبت جاگ اٹھی تھی۔ ”میرا وہ مطلب نہیں ہے جو آپ سمجھ رہے ہیں۔“ زرینہ نے فوراً مصلحت کا لبادہ اوڑھتے ہوئے نرم لہجہ اختیار کیا۔ ”ذیان ماشاء اللہ خوبصورت ہے تب ہی تو کمال جیسے نوجوان کا رشتہ آیا ہے۔“ انہوں نے بمشکل خود کو”مرد“ کہنے سے روکا۔ ”ذیان میں کوئی کمی یا عیب نہیں ہے۔ میں تو ہر وقت آپ کی صحت کی طرف سے پریشان رہتی ہوں۔
میں کہتی ہوں آپ جلدی اس فرض سے سبکدوش ہوجائیں۔“ بوجھ کہتے کہتے زرینہ نے بروقت فرض بولا تھا۔ دل ہی دل میں خود کو داد بھی دی۔ ”ہاں دیکھو کیا حکم ہے میرے رب کا۔ وہ اچھی ہی کرے گا۔“ امیر علی نے آنکھیں موند لی تھیں جیسے اب مزید کوئی بات نہ کرنا چاہ رہے ہوں۔ زرینہ کو دل میں بہت غصہ آیا۔
                                        ###
افشاں بیگم اور ملک جہانگیر دونوں لان میں بیٹھے چائے پی رہے تھے۔
موسم بہت خوبصورت تھا۔ ملک جہانگیر نے بہت دن بعد لان میں بیٹھ کر چائے پینے کی فرمائش کی تھی۔ ”ملک صاحب آپ اپنے دوست کے گھر دوبارہ کب جائیں گے۔“پہلے آپ بہت جلدی میں تھے۔“ افشاں بیگم کے دل میں اس وقت اچانک یہ بات آئی تھی۔ انہوں نے یہ قصہ چھوڑ کر ملک جہانگیر کی توجہ پھر سے اس زیر التواء مسئلے کی طرف مبذول کروا دی تھی۔ ”ہاں جاؤں گا، سیال کی طرف بھی۔
اس نے بولا تو تھا کہ پہلے اپنی بیٹی کی رائے لوں گا اس کے بعد بتاؤں گا۔“ چائے سپ کرتے ہوئے ملک جہانگیر نے اطمینان سے افشاں بیگم کو جواب دیا۔ ”ویسے معاذ کی جگہ ابیک کی بات چلا کر آپ نے اچھا نہیں کیا ہے ممکن ہے اس کے دل میں یہ بات ہو تب ہی تو میرا ابیک خاموش خاموش سا رہنے لگا ہے۔“ افشاں بیگم نے نازک سی بات کردی تھی۔ ”میں ابیک کا باپ ہوں اس کی مرضی کے بغیر اس کی زندگی کا اتنا اہم فیصلہ کیسے کرسکتا ہوں۔
“ ”آپ کی مہربانی ہوگی ملک صاحب اگر آپ ایسا کریں تو۔“ جواباً وہ مسکرانے لگے۔ ”تم فکر مت کرو۔“ ”ٹھیک ہے ملک صاحب میں فکر نہیں کرتی پر معاذ کے بارے میں بھی سوچیں وہ پردیس جا کر بیٹھ گیا ہے ایسا نہ ہو کہ کوئی گوری بغل میں داب کے لے آئے۔“ ایک ماں کی حیثیت سے افشاں کی پریشانی فطری تھی۔ ”معاذ کا بھی کرنا پڑے گا۔ کچھ۔ سچ پوچھو تو احمد سیال کی بیٹی میں نے اس نالائق کے لئے ہی پسند کی تھی۔ وہ ناخلف مجھے مشورہ دے رہا تھا کہ پہلے بڑے بھائی کی شادی کریں“ ملک جہانگیر تھوڑے تلخ ہوگئے تھے۔ اس لئے افشاں بیگم نے فوراً ہی ان سے اِدھر اُدھر کی باتیں شروع کردیں۔
                                        ###

Chapters / Baab of Mein Guman Nahi Yaqeen Hon By Nabila Abar Raja