Episode 49 - Mein Guman Nahi Yaqeen Hon By Nabila Abar Raja

قسط نمبر 49 - میں گمان نہیں یقین ہوں - نبیلہ ابر راجہ

ملک محل میں اس کی آمد کی پہلی رات تھی۔ عتیرہ خود ذیان کو کمرے میں چھوڑنے آئی تھیں۔ اس کا بیڈ روم اوپری منزل پہ تھا۔ ”چلو تم آرام کرو تھک گئی ہوگی لمبے سفر سے۔“ عتیرہ کو اس کے پاس بیٹھے پندرہ منٹ سے اوپر ہوگئے تھے۔ ان کی باتوں کے جواب میں ذیان ہوں ہاں کر رہی تھی یا پھر سر ہلانے پہ اکتفا کر رہی تھی۔ عتیرہ اسے نیند یا تھکن کا اثر سمجھی تھیں۔
”میں چلتی ہوں بیٹا تم ریسٹ کرو۔“ عتیرہ نے جانے سے پہلے اسے سینے سے لگا کر ایک بار پھر اس کا ماتھا چوما۔ وہ رسمی سے انداز میں مسکرائی۔ عتیرہ چھوٹے چھوٹے قدم اٹھاتی نیچے جارہی تھی۔ ذیان کی نظریں جیسے ان کے آگے بڑھتے قدموں کا حساب کر رہی تھیں۔ وہ نگاہوں سے اوجھل ہوئی تو اس نے دروازہ بند کیا۔
اس نے دروازہ لاک کرنے کے بعد آگے پردے بھی کھینچ دئیے پھر کھڑکیوں کے ساتھ بھی اس نے یہی سلوک کیا تو بعد میں اسے اپنی احتیاط پہ خود ہی ہنسی آگئی۔

(جاری ہے)

یہ زرینہ آنٹی کا گھر نہیں تھا بلکہ وہاں سے وہ آج یہاں آگئی تھی اور وہاب جیسا عفریت بھی نہیں تھا جو وہ اسطرح سب دروازے اور کھڑکیاں بند کر رہی تھی۔ بلکہ یہاں تو ملک ارسلان تھے شاندار پرسنالٹی کے مالک۔ اس کی ماں تھی عتیرہ بالکل ملک ارسلان کی طرح باوقار۔ یہ بے پناہ سہولیات والا شاندار کمرہ اسکا تھا۔ پر اس کے دل میں بے پناہ نفرت بھی تو تھی۔
دل میں اگنے والے نفرت و بیگانگی کے تناور درخت کو تازہ پانی مل گیا تھا۔ وہ کچھ مثبت سوچنے پہ آمادہ نہیں تھی۔
کچھ دیر بعد اس نے کھڑکیوں پہ پڑے پردے سرکائے۔ داخلی دروازے کے ساتھ کی پوری دیوار شیشے کی تھی جس پہ پردے تھے اس نے وہ سب پردے بھی ہٹا دئیے۔ شیشے کی دیوار کے آگے طویل برآمدہ تھا جس کے کونے کے ساتھ پودوں کے پینٹ کیے ہوئے گملے تھے برآمدے کو سہارا دینے والے ستونوں کے گرد سرسبز بیلیں لپٹی اوپر تک جارہی تھیں۔
ذیان کو شیشے کی دیوار سے پرے نظارا بڑا دلچسپ لگا۔ وہ بیڈ روم کا دروازہ کھول کر باہر برآمدے میں آگئی۔ سامنے کنارے پہ چار فٹ اونچی دیوار تھی۔ سامنے آگے کچھ فاصلے پہ بالکل اسی بناوٹ کی ایک اور عمارت تھی۔ شام کو عتیرہ نے اسے بتایا تھا کہ سامنے والا رہائشی حصہ افشاں بھابھی کا ہے۔
دونوں عمارتیں ایک جیسی تھیں۔ دوسری عمارت کی اوپری منزل پہ ذیان کے کمرے کے عین سامنے بالکل اسی جیسا کمرہ تھا۔
وہ دیوار پہ کہنیاں ٹکا کر کھڑی ہوگئی اور سامنے موجود کمرے کو دیکھنے لگی جس کی کھڑکی اور دروازہ دونوں کھلے ہوئے تھے۔ کمرے کی برآمدے کی سب لائیٹیں بھی آن تھیں۔ وسیع ٹیرس پھولوں کے بڑے بڑے گملوں سے سجا ہوا تھا۔ کھلے دروازے سے اندر کوئی ذی نفس دکھائی دے رہا تھا۔ پردے سمٹے ہونے کی وجہ سے وہ اندر موجود ایک ایک چیز کو دیکھ سکتی تھی۔ مشرقی دیوار کے ساتھ جہازی سائز بیڈ پڑا تھا۔
سلینگ فین کے چلنے کی وجہ سے سمٹے پردے دھیرے دھیرے ہل رہے تھے۔ وہ بڑی دلچسپی سے جائزہ لے رہی تھی جب اچانک ایک نوجوان تولیے سے سر رگڑتا جانے کہاں سے برآمد ہوا اور ڈریسنگ ٹیبل کے سامنے کھڑا ہوگیا۔ ذیان کی طرف اس کی پشت تھی، چوڑے کندھے اور بازوؤں کے مسلز واضح تھے۔ وہ بالوں میں برش کر رہا تھا۔ اس سے پہلے کہ وہ پلٹتا ذیان برآمدے سے ہٹ کر کمرے میں آگئی۔
افشاں آنٹی کے گھر سے ہی کوئی ہوگا اس نے اندازہ لگایا۔ اسے یہاں آئے ابھی چوبیس گھنٹے بھی نہیں ہوئے تھے اس لئے یہاں کے مکینوں کے بارے میں لاعلم ہی تھی۔ شکر ہے کہ وہ اس اجنبی نوجوان کے رخ موڑنے سے قبل ہی کمرے میں آگئی تھی وہ برآمدے کی دیوار کے ساتھ کھڑی بے دھیانی میں جائزہ لینے میں مگن تھی وہ جو کوئی بھی تھا اسے اس انداز میں دیکھتا تو جانے کیا سوچتا۔
دونوں کمرے اوپری منزل پہ بالکل آمنے سامنے اور طرز تعمیر، نقشے، بناوٹ، رنگ میں ایک جیسے تھے۔ ملک محل کے دو حصے تھے۔ ایک میں ملک جہانگیر اور دوسرے میں ملک ارسلان رہائش پذیر تھے۔ دونوں حصوں کو الگ اور جدا کرنے کے لئے ڈم ڈم کی باڑ اور اس کے بعد سرسبز میدان تھا۔
ذیان صوفے پہ بیٹھ گئی۔ وہ کچھ سوچ رہی تھی۔ اپنی بے معنی، لا یعنی سوچوں کے بھنور میں ڈوبتے ابھرتے جانے کتنی دیر گزر چکی تھی۔
اس کی پلکیں نیند سے بوجھل ہونے لگی تھیں۔ وہ اٹھ کربیڈ کی طرف آئی تو نہ چاہتے ہوئے نگاہ شیشے کی دیوار سے پرے کمرے کی طرف اٹھ گئی۔ دوسری طرف بھی شیشے کی دیوار پہ سے پردے سرکا دئیے گئے تھے۔ اندر زیروپاور کی سبز لائیٹ جل رہی تھی اور وہ جو کوئی بھی تھا بیڈ پہ لیٹا ایک تکیہ سیدھے بازو تلے دبائے سو رہا تھا۔ ذیان کے کمرے کی لائٹیں آف تھیں۔
پھر بھی احتیاطاً اس نے شیشے کے دیوار پہ پردے برابر کردئیے۔ البتہ کھڑکی ہنوز کھلی تھی اور پردے بھی ہٹے ہوئے تھے۔ وہ صوفے سے اٹھ کر مسہری پہ آئی اور نیم دراز ہوگئی۔
ذیان، عتیرہ اور ملک ارسلان تینوں ناشتہ کر رہے تھے۔ بیچ بیچ میں باتیں بھی جاری تھیں۔ ”ملک صاحب مجھے مارکیٹ جانا ہے۔ ذیان کو شاپنگ کروانی ہے۔“ عتیرہ نے ملک ارسلان کو مطلع کیا۔
ذیان نے ایک نگاہ اٹھا کر دونوں کے چہرے پہ ڈالی اور پھر سے ناشتے کرنے میں مصروف ہوگئی۔ ”ہاں تو تم ڈرائیور اور گارڈ کے ساتھ چلی جاؤ۔“ انہوں نے بخوشی عتیرہ کو اجازت دی۔
”آپ ساتھ نہیں جائیں گے؟“ عتیرہ کو جیسے تھوڑی مایوسی ہوئی۔ ”مجھے آج کورٹ جانا ہے چودھری ریاض والے کیس کے سلسلے میں۔ رات ابیک بھی واپس آگیا ہے۔ میرا جانا ضروری نہ ہوتا تو تمہارے ساتھ ضرور جاتا۔
ابیک بھی اسی وجہ سے آیا ہے۔“
”اچھا ابیک آگیا ہے۔“ عتیرہ نے خوشی کا اظہار کیا۔ ”ہاں رات کو آیا ہے۔ فجر کی نماز پڑھنے کے بعد میں اس سے ملا ہوں۔“ ملک ارسلان نے تفصیل بتائی۔ ”اچھا میں ذیان کے ساتھ چلی جاؤں گی۔“ عتیرہ انہیں بتانے لگی۔ ”تم ناشتہ کرنے کے بعد جانے کی تیاری کرو اچھا خاصا ٹائم لگ جائے گا۔“ ملک ارسلان نے مشورہ دیا تو انہوں نے اثبات میں سر ہلایا۔
”ذیان بیٹا، ناشتہ کرچکی تو Change کرو ہمیں جلدی جانا ہوگا۔“ عتیرہ نے روئے سخن اس کی طرف موڑا تو اس نے دھیرے سے اثبات میں سرہلایا۔
خریداری کرتے ہوئے ذیان نے کسی خاص دلچسپی کا اظہار نہیں کیا۔ بس عتیرہ جو لیتی گئیں وہ بغیر کسی تاثر کے دیکھتی رہی نہ پسندیدگی کا اظہار کیا نہ ناپسندیدگی کا۔ ایسے لگ رہا تھا وہ روبوٹ ہے سوئچ آن آف کرنے کا محتاج۔
عتیرہ نے اس کے لئے بے شمار کپڑے، جوتے جیولری کاسمیٹکس پروڈکٹس خریدیں۔ سب اشیاء برانڈڈ اور بیش قیمت تھیں۔ پر ذیان کے چہرے پہ ایک بار بھی کسی تاثر نے جگہ نہیں بنائی۔
اس کی یہ خاموشی، سرد مہری اور بیگانگی عتیرہ کے لئے تکلیف دہ تھی۔ گزرتے اٹھارہ برسوں نے ذیان کو ان سے صدیوں کے فاصلے پہ لا کھڑا کیا تھا۔ وہ اجنبی کی مانند برتاؤ کر رہی تھی۔
وہ خود سے مخاطب کرتیں تو ذیان بولتی ورنہ اس کے لبوں پہ چپ کا قفل تھا۔
واپسی پہ بہت دیر ہوجائے گی ورنہ آج میں تمہیں جہانگیر بھائی سے ملواتی۔ تم ان سے مل کر بہت خوشی محسوس کرو گی کیونکہ جہانگیر بھائی بہت محبت کرنے والے انسان ہیں۔“شاپنگ ختم کرنے کے بعد وہ اب واپس جارہی تھیں جب عتیرہ نے گفتگو کا آغاز کیا۔ جواب میں ذیان نے سر ہلایا۔
”پتہ ہے افشاں بھابھی تمہاری اتنی تعریف کر رہی تھیں کہتی ہیں ذیان چاند کا ٹکڑا ہے بہت خوبصورت ہے۔“ عتیرہ کا چہرہ یہ بتاتے ہوئے خوشی سے چمک رہا تھا۔ ذیان کے چہرے پہ مسکراہٹ ابھری۔ افشاں بھابھی کے دو بیٹے ہیں۔ چھوٹا معاذ پڑھنے کے لئے باہر گیا ہوا ہے جبکہ ابیک یہیں ہے۔ زیادہ تر شہر میں رہتا ہے۔بہت مصروف ہوتا ہے۔ کہتا ہے گاؤں میں انڈسٹریل ہوم بنواؤں گابلکہ اس نے کام بھی شروع کروا دیا ہے۔
اس کا ارادہ گاؤں میں بہت اچھا سکول بنانے کا بھی ہے۔ اس کے دل میں اوروں کے لئے کام کرنے کا جذبہ ہے۔ شہر کے ساتھ ساتھ وہ گاؤں میں بھی بہت مصروف رہتا ہے۔ ہم آج شاپنگ کے لئے لگے رہے ورنہ تمہاری اس سے ملاقات ہو جاتی ۔ ذیان خاموشی سے سر ہلائے جارہی تھی۔
ابیک ملک ارسلان کے ساتھ کورٹ سے واپس آچکا تھا۔ دونوں ایک ساتھ ایک ہی گاؤں میں گئے تھے۔
واپسی پہ ملک ارسلان نے اسے کھانے کے لئے روک لیا۔ کھانا تیار تھا صرف ٹیبل پہ لگانا تھا۔ نیناں نے ملک ارسلان کی واپسی کا سنتے ہی کھانا اپنی نگرانی میں لگوایا۔ وہ کھانے کی ڈشز اور ڈائننگ ہال کا جائزہ لے رہی تھی جب ملک ارسلان، ابیک کے ساتھ ڈائننگ ہال میں پہنچے۔ اب یہ اتفاق کی بات تھی کہ نیناں کا آج پہلی بار، ملک ابیک کے ساتھ سامنا ہوا تھا۔
حالانکہ اسے”ملک محل“ میں آئے کافی دن ہو چلے تھے۔ ایک اجنبی صورت ملک ارسلان کے گھر ابیک نے پہلی بار دیکھی تھی لہٰذا اس نے سوالیہ نگاہوں سے ان کی طرف دیکھا۔ ”یہ نیناں ہے اور ہم…“ وہ نیناں کی موجودگی کے خیال سے بہت آہستہ آواز میں بات کر رہے تھے۔ ابیک نے کھوجتی نگاہوں سے نیناں کا جائزہ لیا تو اس نے ابیک کو سلام کیا۔ پڑھا لکھا مہذب لہجہ تھا کپڑے بھی اس نے طریقے سلیقے کے پہن رکھے تھے اس لئے اس نے نیناں کو غور سے دیکھا تھا۔
وہ اس کے دیکھنے سے اپنے آپ میں بے چینی سی محسوس کر رہی تھی۔ لیکن اس کے بعد ابیک نے دوبارہ نیناں کی طرف نہیں دیکھا۔ بلکہ ارسلان کے ساتھ باتوں میں مگن ہوگیا۔ نیناں وہاں سے جاچکی تھی۔ ملک ارسلان اب کھل کر نیناں کے بارے میں بتا رہے تھے۔
”بس اس بے چاری کا دنیا میں کوئی نہیں ہے۔ عتیرہ بہت نازک اور خدا ترس دل کی مالک ہے جھٹ سے اپنے ساتھ لے آئی۔
ہمیں اس کی موجودگی سے کوئی تکلیف یا پریشانی نہیں ہے۔ سارا دن حویلی میں لگی رہتی ہے۔ عتیرہ اس کے بارے میں تم سے بات کرنا چاہتی ہے۔ مجھے کہہ رہی تھی کہ ابیک سے کہوں گی انڈسٹریل ہوم اور سکول بنوانے کے بعد اسے بھی وہیں رکھ لو۔ پڑھی لکھی لڑکی ہے بہت کام آئے گی محنتی بھی ہے۔“ ملک ارسلان نے نیناں کے ہوٹل میں ٹکراؤ اور اس کے ساتھ پیش آنے والا واقعہ گول کردیا تھا۔
پر ابیک کو رہ رہ کر ایک عجیب سا احساس ہو رہا تھا۔ نیناں کی پوری شخصیت سے کسی بھی قسم کی بے چارگی اور درماندگی کا اظہار نہیں ہو رہا تھا جس کا تذکرہ ابھی ابھی ارسلان چچا نے کیا تھا۔ اس نے چچا کے سامنے اپنے خیالات کا اظہار کرنا مناسب نہیں سمجھا اس نے ان کی بات پورے غور سے سنی اور کسی بھی قسم کے تبصرے سے گریز کیا۔
”تمہاری چچی تو شاپنگ کر کے ابھی تک نہیں لوٹی ہیں۔
“ارسلان کلائی میں پہنی گھڑی پہ ٹائم دیکھ رہے تھے۔ ”چچا میں رات کو آؤں گا۔“ ”ہاں تب میری بیٹی سے بھی مل لینا۔“ ملک ارسلان کے لہجے کا یہ رنگ بہت انوکھا سا تھا۔ وہ یک ٹک انہیں دیکھنے لگا۔ ”عتیرہ بہت خوش ہے۔ جب سے میں اسے بیاہ کر یہاں لایا ہوں تب سے وہ اتنی خوش کبھی نہیں ہوئی۔“ عتیرہ کا نام لیتے ہی ملک ارسلان کے لہجے میں محبت اتر آتی تھی۔
ابھی ابھی ابیک نے بھی یہ مظاہرہ دیکھا تھا۔ ملک ارسلان چچا اور عتیرہ چچی کی محبت کی کہانی سے وہ بہت اچھی طرح واقف تھا۔ دل سے وہ ان کی عزت کرتا تھا کیونکہ ابیک ان کی اعلیٰ ظرفی اور وسعت قلبی کا شاہد تھا۔ عتیرہ چچی کی بیٹی کا علم اسے کچھ برس پہلے ہوا تھا جب عتیرہ چچی پہ ڈیپریشن کا شدید حملہ ہواتھا توانہوں نے کمرے میں رکھی گئی ہر چیز توڑ دی تھی اور خود کو بھی زخمی کرلیا تھا تب ہاسپٹل میں ابیک نے ارسلان چچا کو طویل کوریڈور میں ٹہلتے اور اپنے آنسو چھپاتے دیکھا تھا۔
اس نے جرأت کر کے چچا سے پوچھا تھا۔ تب انہوں نے اسے سب بتا دیا کہ عتیرہ چچی کی اس شدید بگڑتی حالت کا سبب کیا ہے۔ ابیک کے بس میں ہوتا تو ان کی بیٹی کہیں سے لا کر ان کے سامنے کھڑی کردیتا۔ کیونکہ ارسلان چچا اور عتیرہ چچی اسے ماورائی اساطیری داستانوں کے کردار لگتے جو زندہ ہو کر ملک محل میں آگئے تھے۔
”چچا جان یہ تو اچھی بات ہے اللہ کرے چچی اب ایسے ہی خوش رہیں۔
“ ابیک نے دل کی گہرائی سے دعائیہ جملہ بولا تھا جس پہ ارسلان کا آمین کہنا بے ساختہ تھا۔
”تمہاری چچی کل سے اتنی خوش ہیں کہ مجھے بھی نظر انداز کر دیا ہے۔“ ملک ارسلان نے ہنستے ہوئے لطیف سا شکوہ کیا۔ ”چچی ایسی نہیں ہیں کہ آپ کو نظر انداز کریں۔“ اس نے پورے وثوق سے کہا۔
”ہاں تم ٹھیک کہہ رہے ہو میں تو بس ایسے ہی آج ذرا اسے تنگ کرنے کا موڈ بنا رہا تھا۔“
ارسلان چچا کی آنکھوں میں شرارت ناچ رہی تھی۔ اس بار ابیک کا قہقہہ بے ساختہ تھا۔
                                            ###

Chapters / Baab of Mein Guman Nahi Yaqeen Hon By Nabila Abar Raja