Episode 6 - Mein Guman Nahi Yaqeen Hon By Nabila Abar Raja

قسط نمبر 6 - میں گمان نہیں یقین ہوں - نبیلہ ابر راجہ

ملک جہانگیر کی طبیعت اب کافی بہتر تھی۔ تب ہی تو وہ ڈیرے پہ آئے تھے۔ ڈیرے پہ روز محفل جمتی انکے دوست احباب، مزارعے، عام لوگ ضرورت مند، اپنی اپنی مشکلات مسائل لڑائی جھگڑے لے کر انکے پاس آتے۔ وہ کسی کو مایوس نہیں کرتے تھے۔ بے انتہا نرم دل اور مہربان تب ہی تو انکے پاس آنے والے دعائیں دیتے رخصت ہوتے ملک جہانگیر نے اپنے پرکھوں کی عزت و روایت ابھی تک قائم رکھی ہوئی تھی۔

ملک ابیک بھی انکے ساتھ ڈیرے پہ موجود تھا۔ دوپہر کے بعد ملنے ملانے والے اٹھ کر گئے تو ملک ابیک انکے ساتھ ڈیرے سے باہر آگیا۔ کھیتوں کے کنارے بنی پگڈنڈی پہ دونوں آہستہ آہستہ چل رہے تھے۔ کچھ عمر کا تقاضہ اور کچھ ملک جہانگیر کی صحت پہلے جیسی نہیں رہی تھی ان کی حرکات صحت سستی اور کمزوری تھی ابیک صرف ان کی وجہ سے چھوٹے چھوٹے قدم اٹھا رہا تھا۔

(جاری ہے)

تاحد نظر سبزہ اور ہریالی تھی پنجاب کے مغربی حصے میں واقع یہ گاؤں ملک جہانگیر کے آباؤ اجداد نے آباد کیا تھا یہاں کی مٹی بڑی زرخیز تھی۔ ہرسال مختلف پھلوں سبزیوں اور فصلوں کی بہترین پیداوار ہوتی جو گاؤں سے شہر کی منڈیوں تک پہنچائی جاتی پہلے ملک جہانگیر ان سب کاموں کی نگرانی خود کرتے تھے۔ کیونکہ ملک ابیک اور ملک معاذ تب اپنی اپنی تعلیم کے سلسلے میں گاؤں سے باہر تھے۔
ابیک تو اپنی انجینئرنگ کی تعلیم مکمل کرچکا تھا جبکہ معاذ اعلیٰ تعلیم کے حصول کی خاطر ملک سے باہر تھا۔
ابیک کے تعلیم سے فارغ ہونے کے بعد اب تمام امور کی انجام دہی کی ذمہ داری سب اسی کے سپرد تھی۔ اس کا ایک پاؤں شہر تو ایک گاؤں میں ہوتا۔ شہر میں بزنس کی دیکھ بھال کے ساتھ ساتھ وہ کچھ فلاحی کاموں میں بھی پیش پیش تھا۔ ملک جہانگیر اس سے بے پناہ خوش تھے۔
وہ عادات و اطوار میں ہو بہو ان کا پر تو تھا۔
”بابا جان میرے ذہن میں ایک منصوبہ آیا ہے“ اس کی بات پہ ملک جہانگیر کے بڑھتے قدم رک گئے۔ وہ اسکی طرف پلٹے۔ ”کیسا منصوبہ پتر“ بابا جان میں چاہتا ہوں کہ شہر کی طرح گاؤں میں بھی کچھ فلاحی منصوبوں پہ کام شروع کیا جائے؟“ پتر تمہاری بات میں بڑی جان ہے مجھے بہت خوشی ہوئی ہے کہ تم اپنے علاوہ بھی کچھ سوچتے ہو۔
تم نے کچھ اچھا ہی سوچا ہوگا۔ مجھے کوئی اعتراض نہیں ہے۔ ”تھینک یو بابا جان۔ میں اس پہ جلد ہی پیپر ورک کروں گا“ ان کی طرف سے تائید اور حوصلہ افزائی پا کر وہ بہت مسرور تھا۔
”کرو پتر نیک کام میں دیر کیسی“ انکے چہرے پہ بیٹے کے لئے محبت و شفقت تھی۔ ابیک نے انکے دونوں ہاتھ پکڑ لئے۔ ”بابا جان آئیے میں آپ کو جیپ تک چھوڑ کر آتا ہوں میں بعد میں مزارعوں سے مل کر زمینوں کا ایک چکر لگا کر آؤں گا۔
ملک جہانگیر کا سانس بار بار پھول رہا تھا نقاہت کی وجہ سے وہ اور بھی سست ہو رہے تھے۔ انہوں نے اثبات میں سر ہلایا گویا انہیں واپس جانے پہ اعتراض نہیں تھا۔ وہ خود انہیں جیپ تک چھوڑ کر آیا۔ رحیم داد نے فوراً سے بیشتر گاڑی سٹارٹ کی اور ملک جہانگیر کو حویلی لے کر روانہ ہوگیا۔
جیپ نگاہوں سے اوجھل ہوئی تو تب ابیک نے قدم آگے بڑھائے۔
کھیتوں سے ہرے ہرے پھلوں کے باغات کا سلسلہ شروع تھا۔ وہ پیدل چلتا ادھر جارہا تھا۔ فضا میں سیب لیموں اور مالٹے کی مہک رچی ہوئی تھی۔ اس نے پوری سانس لے کر اس مہک کو گویا اپنے سینے میں اتارا۔
مزارعے باغوں میں اپنے فرائض کی انجام دہی میں مصروف تھے اسے اپنی طرف بڑھتا دیکھ کر سب ہی ہوشیار ہوگئے۔ ابیک نے سب سے دعا سلام کی۔ وہ اس وقت مالٹوں کے باغ میں تھا۔
تاحد نظر مالٹے کے پیڑ ہی پیڑ نظر آرہے تھے۔ موسمی پھل سے لدے پیڑ اس امر کی نشان دہی کر رہے تھے کہ اس بار خوب پیداوار ہوئی ہے اسے دلی اطمینان سا محسوس ہوا۔
باغات سے آگے کافی زمین خالی پڑی تھی وہ اس طرف آ کر کھوجتی نگاہوں سے جائزہ لے رہا تھا۔ یہ خالی قطعہٴ اراضی اسکے منصوبے کے لئے عین مناسب تھی۔ واپس جا کر اس نے اس سلسلے میں عملی اقدام کرنا تھا۔
کچھ پہلو اسکے ذہن میں واضح تھے کچھ کے بارے میں غور و فکر کرنا تھا۔
                                      ###
موسم کے تیور آج کافی شدت پہ مائل تھے۔ معمول سے زیادہ سردی ماحول میں رچی بسی صاف محسوس کی جاسکتی تھی۔ ذیان نے سردی سے ٹھٹھرتے ہاتھوں کو آپس میں رگڑا۔ وہ صحن میں ٹہلنے کے ارادے سے نکلی تھی، دھوپ دیواروں سے ڈھلنے کی تیاری میں تھی۔
وہ جونہی صحن میں آئی ایک ثانیے کے لئے کپکپا سی گئی کیونکہ باہر سرد ہواؤں کا راج تھا۔ اس نے گرم شال مضبوطی سے اپنے گرد لپیٹ لی۔ چند چکر لگانے کے بعد جب دانت سردی سے بجنے لگے تو اس نے کمرے کی راہ لی۔ وہ مڑ کر واپس ہونے کو تھی جب اپنے پیچھے وہاب کی پرجوش اور شوخ آواز سنائی دی۔
”حسین لوگو السلام علیکم“ وہاب کی کھنکتی آواز پہ خود بہ خود ہی اسکے قدم رکے اور اس نے ایک ثانیے کے لئے رخ موڑ کر وہاب کی طرف دیکھا۔
”وعلیکم السلام“ اس کا عام سا لہجہ اور انداز کسی بھی قسم کے جذبے سے عاری تھا۔ وہاب کو دکھ سا ہوا۔ ”آنٹی اندر ہیں“ وہ ڈرائینگ روم کی طرف اشارہ کر کے بوا کی طرف آگئی۔ اس کا خیال تھا کہ وہاب چلا گیا ہوگا زرینہ بیگم کی طرف مگر وہ تو اسکے پیچھے پیچھے کچن میں آگیا جہاں بوا چائے بنانے میں مصروف تھیں۔ اسے دیکھ کر ہلکا سا مسکرائیں”کیسے ہیں وہاب میاں“ انکے لہجے میں احترام کے ساتھ محبت بھی تھی۔
وہاب نے سر کے اشارے سے جواب دیا۔ اس کی تمام تر توجہ ذیان کی طرف تھی۔جو اب سٹول پہ بیٹھی پاؤں ہلا رہی تھی۔ ریڈ کلر کی ایمبرائیڈری والے سوٹ اور شال میں اس کی گلابی رنگت دمک رہی تھی۔ مناسب قد وقامت پر کشش چہرہ، گہری غزالی آنکھیں وہ حسین مجسم تھی کسی شاعر کا جیتا جاگتا تخیل اسکے حسن بلا خیز نے وہاب کے دن رات کا سکون و قرار لوٹ لیا تھا۔
وہ ابھی تک اس پہ اپنا حال دل آشکارا نہ کر پا رہا تھا۔ کیونکہ ذیان کی سرد مہری بیگانگی اسے یہ ہمت کرنے ہی نہیں دیتی تھی۔
”وہاب میاں آپ اندر چلیں میں چائے لاتی ہوں“اسے دروازے پہ ہنوز ایستادہ دیکھ کر انہوں نے جیسے اسے کوئی احساس دلانے کی کوشش کی تو وہ کھسیانا سا ہو کر بالوں میں ہاتھ پھیر کر رہ گیا۔
ذیان وہیں سٹول پہ برا جمان نوکمنٹ کا مکمل اشتہار بنی ہوئی تھی۔
وہ مایوس ہو کر زرینہ خالہ کی طرف آگیا۔ ”کب آئے تم“انہوں نے بوا کی معیت میں اسے آتا دیکھ کر فوراً سوال کیا۔ بوا چائے اور دیگر لوازمات کے ساتھ تھیں۔
”ابھی آیا ہوں بس“اس نے ڈھٹائی سے جواب دیا۔بوا چائے رکھ کر پلٹ گئی تھی۔جواباً انہوں نے وہاب کو تیکھی نگاہوں سے دیکھا پر وہ نظر انداز کر کے پیالی میں چائے ڈالنے لگا۔
                                     ###
رات آخری پہر میں داخل ہونے کو تھی پر نیند وہاب کی آنکھوں سے کوسوں دور کھڑی ہاتھ مل رہی تھی۔
سخت سردی کے باوجود اس کا لحاف تہہ کیا ہوا بستر کی پائنتی کی طرف رکھا تھا۔وہ صوفے پہ بیٹھا سگریٹ کے کش لگا رہا تھا۔ ذیان سرخ لباس میں ملبوس جیسے اسکے کمرے میں گھوم پھر رہی تھی۔ وہ اسکے حسن بلاخیز کے سامنے مکمل طور پہ کب کا سرنگوں ہوچکا تھا۔ وہاب کے دل میں ذیان کو حاصل کرنے کی تمنا پچھلے چار سال سے انگڑائیاں لے رہی تھی۔ لیکن ان چار سالوں میں وہ ایک بار بھی حال دل کہنے کی کوشش میں کامیاب نہیں ہوپایا تھا۔
اب ہر گزرتے دن کے ساتھ یہ بات اسکی مردانگی کے لئے چیلنج بنتی جارہی تھی۔ ”میں تمہیں حاصل کر کے رہوں گا ذیان امیر احمد“ اس نے ہتھیلی کا مکہ بنا کر دوسرے ہاتھ پہ مارا۔ وہاب کی آنکھوں میں عجیب سی چمک تھی اور چہرے پہ پراسرار مسکراہٹ۔
                                       ###

Chapters / Baab of Mein Guman Nahi Yaqeen Hon By Nabila Abar Raja