Episode 50 - Mein Guman Nahi Yaqeen Hon By Nabila Abar Raja

قسط نمبر 50 - میں گمان نہیں یقین ہوں - نبیلہ ابر راجہ

ذیان اور عتیرہ کافی لیٹ واپس آئیں۔ مغرب تو ہوہی چکی تھی۔ اس تاخیر کا سبب شہر سے گاؤں کا طویل فاصلہ تھا۔ پھر جیولر کے پاس انہیں کافی ٹائم لگ گیا تھا۔ عتیرہ نے ذیان کے لئے گولڈ کی اور دیگر جیولری خریدی تھی ڈائمنڈ کے ائیررنگز اور خوبصورت سی رنگ تو انہوں نے جیولر کی شاپ پہ ہی ذیان کو زبردستی پہنائی تھی۔
ذیان اس آنے جانے میں آج بہت تھک گئی تھی۔
اس کی تھکن دیکھتے ہوئے عتیرہ نے نوکرانی کو کوئی اشارہ کیا تو کچھ دیر بعد وہ ایک ٹب میں نیم گرم پانی لیے چلی آئی۔ پانی میں گلاب کے پھولوں کی پتیاں تیر رہی تھیں۔ عتیرہ کے حکم پہ یہ اس نے پانی والا ٹب صوفے پہ بیٹھی ذیان کے پاؤں کے پاس رکھ کر اس کے سوچنے سمجھنے سے بیشتر ہی اس کے پاؤں نرمی سے اٹھا کر ٹب میں ڈال دئیے۔

(جاری ہے)

وہ احتجاج کرنا چاہتی تھی پر نہ جانے کیوں عتیرہ کا چہرہ دیکھ کر خاموش ہوگئی۔

 نوکرانی نمک ملے پانی سے اس کے پاؤں دھو رہی تھی پانی میں گلاب کی پتیوں اور نمک کے ساتھ نا جانے کیا کیا کچھ ڈالا گیا تھا۔ کیونکہ پانی میں سے بڑی اچھی خوشبو آرہی تھی۔ نوکرانی نے اس کے پاؤں دھوکر صاف کردئیے تھے۔ اب وہ تولیے سے اس کے پاؤں صاف کر رہی تھی جب نیناں کمرے میں شاپر اٹھائے داخل ہوئی پیچھے ملک ارسلان بھی تھے۔ ذیان آنکھیں کھولے سیدھی ہو کر بیٹھ گئی۔
”آگئے آپ لوگ واپس اور میری بیٹی کیسی ہے لگتا ہے تھک گئی ہو۔“ وہ بیک وقت عتیرہ اور ذیان سے مخاطب ہوئے۔ ان کے منہ سے”میری بیٹی“ کا لفظ ذیان کو بہت عجیب سا لگا کیونکہ ابو نے بھی اسے میری بیٹی کہہ کر بلانا چھوڑ دیا تھا۔ وہ تو اس کی پرواہ ہی نہیں کرتے تھے۔ ”جی بس تھوڑی سی تھکن ہے۔“ نظریں جھکا کر اس نے محتاط انداز میں جواب دیا۔ ”ذرا دکھائیے تو کیا کیا شاپنگ کی ہے آپ نے۔
“ اس بار بھی ان کا مخاطب سو فی صد ذیان ہی تھی۔ ناچار وہ نیناں کے لائے گئے شاپر اٹھا کر ان کے پاس بیٹھ کر خریدی گئی چیزیں دکھانے لگی۔ انہوں نے ایک ایک چیز شوق اور دلچسپی سے دیکھی اور تعریف کی۔ عتیرہ ان دونوں کو دیکھ دیکھ کر نہال ہو رہی تھی۔ ملک ارسلان ذیان کو حد درجہٴ توجہ دے رہے تھے۔
نیناں اس رخ پہ کھڑی تھی کہ ذیان کا پورا چہرہ اور ہاتھ پاؤں اس کے سامنے تھے۔
وہ بڑی توجہ سے ارسلان کو مختلف چیزیں دکھانے میں مصروف تھی۔ برانڈڈ کپڑوں، جوتوں، پرفیومز، جیولری اور دیگر اشیاء کا ایک چھوٹا سا ڈھیر نیناں کی نگاہوں کے سامنے تھا۔ ذیان کے گلابی آمیزش لیتے سفید بے داغ پاؤں اس کے دل کو عجیب بے عنوان سی پریشانی اور جھنجھلاہٹ میں مبتلا کر رہے تھے۔ ”یہ سوٹ کل پہننا۔“ ملک ارسلان نے بلیک اور وائیٹ کانبینشن والا فراک نکال کر الگ سے رکھا۔
نیناں کے دل کو جیسے کسی نے مٹھی میں مسلا۔
احمد سیال بھی تو اس سے ایسی ہی فرمائشیں کرتے تھے دونوں مل کر شاپنگ کرتے وہ رنم کو ہر چیز کے بارے میں اپنی رائے دیتے اور اپنی پسند سے اس کے لئے خریداری کرتے۔ اور جب ان دونوں کو مل کر کسی جگہ جانا ہوتا تو وہ خود اس کے لیے جانے والے کپڑے سلیکٹ کرتے۔
پورے دن میں پہلی مرتبہ ذیان کے ہونٹوں پہ بے ریا مسکراہٹ نمودار ہوئی۔
اس نے اثبات میں سر ہلایا جیسے کہہ رہی ہو ہاں میں کل یہی کپڑے پہنوں گی۔ رنم سے یہ منظر مزید برداشت نہیں ہو رہا تھا اس لئے وہاں سے ہٹ گئی۔ اسے ایسا لگ رہا تھا جیسے ذیان کو دیکھ دیکھ کر وہ احساس کمتری کا شکار ہو رہی ہے۔
کھانا کھا کر ذیان اوپری منزل پہ اپنے بیڈ روم میں آگئی۔ لائیٹ جلا کر اس نے سب سے پہلے پردے سرکائے تو نگاہ دوسرے کمرے کی طرف اٹھ گئی۔
برآمدے کی سب لائیٹیں آن تھیں پر سامنے کوئی بھی نظر نہیں آرہا تھا۔ سونے سے پہلے اس نے ٹھنڈے پانی سے شاور لیا تو طبیعت کی سب تھکن اور بوجھل پن دم توڑ گیا۔ تکیہ سرتلے رکھے وہ سونے کے لیے دراز ہوئی تو بہت جلد نیند کی وادیوں میں اتری۔
ابیک سونے کے لئے اپنے بیڈ روم میں داخل ہوا۔ نیچے وہ ملک جہانگیر اور افشاں بیگم کے پاس بیٹھا ہوا تھا۔
ملک جہانگیر نے پھر سے اس کی شادی کا موضوع چھیڑ رکھا تھا۔ اس بار جیسے اس نے اپنی مجبوری بتائی۔ ”بیٹا شادی اور دیگر کام سب ساتھ ساتھ چلتے ہیں۔“ جہانگیر نے اس کی بات کو چنداں اہمیت نہ دی۔ بھلا ہوا افشاں بیگم کا جو انہوں نے ذیان کی آمد کا قصہ چھیڑ دیا تب کہیں جا کر ان کی توجہ ابیک کی شادی سے ہٹی۔ وہ خیر مناتا ان کے پاس سے اٹھ آیا۔
کمرے کی لائیٹیں آن تھیں۔
ملازم مغرب سے پہلے اس کے بیڈ روم اور اوپری حصے کی تمام بتیاں جلا دیتے تھے۔ اس نے شرٹ اتار کربیڈ پہ رکھی اور واش روم میں آگیا۔ نہانے کے بعد وہ نائیٹ شرٹ اور ٹراؤزر میں ملبوس باہر آیا۔ شیشے کے سامنے کھڑے ہو کر گیلے بالوں میں حسب معمول برش پھیرا۔ ملک جہانگیر کی باتوں کو از سر نو سوچتے ہوئے اس نے کمرے کا دروازہ کھولا اورباہر آگیا۔ جہاں دیوار کے ساتھ پھولوں کے گملے ترتیب سے رکھے ہوئے تھے اور پاس ہی ایک کرسی پڑی تھی وہ اکثر یہاں آکر بیٹھتا تھا۔
وہ جیسے ہی کرسی پہ دراز ہوانگاہ اچانک ارسلان چچا کے گھر کی طرف اٹھی۔ اس کی نگاہوں کا مرکز اوپری منزل پہ واقع عین اس کے کمرے کے سامنے والا کمرہ تھا۔ اندر زیرو پاور کے بلب کے ساتھ بیڈ لیمپ بھی آن تھا۔ سب پردے سمٹے ہوئے تھے اس لئے منظر واضح تھا۔ سامنے بیڈ پہ اوندھے منہ ایک نسوانی وجود محو خواب تھا کیونکہ کھلے لمبے بال اس سوئے ہوئے وجود کے اردگرد بکھرے ہوئے تھے۔
اس کی معلومات کے مطابق اوپری حصہ خالی تھا خالی ان معنوں میں کہ سامان تو سب کمروں میں تھا پر کوئی رہتا نہیں تھا۔
عتیرہ چچی اور ارسلان چچا نیچے رہائش پذیر تھے۔ نوکروں کے لئے الگ رہائشی حصہ مخصوص تھا۔ اچانک اسے یاد آیا کہ حویلی میں عتیرہ چچی کی بیٹی بھی تو آئی ہے۔ سو فی صد وہ یہی ہوگی۔ ملک ابیک نے اندازہ لگایا، اسے دوسری بار دیکھنا نامناسب محسوس ہوا اس لئے بیڈ روم میں آ کر لیٹ گیا۔
ذیان صبح خاصی دیر بعد بیدار ہوئی۔ ہلکا پھلکا ناشتہ کرنے کے بعد فارغ ہوئی تو نوکرانی مطلع کرنے آئی کہ آپ کے کپڑے استری ہوچکے ہیں آپ تبدیل کرلیں۔ یہی وہ سوٹ تھا جو ملک ارسلان نے الگ نکال کر رکھا تھا۔ ذیان تبدیل کر کے آئی تو وہی نوکرانی ہاتھوں میں موتیے کے گجرے لیے کھڑی تھی۔ ذیان کی دونوں کلائیوں میں اس نے گجرے پہنائے۔ ”چھوٹی بی بی آپ بہت سوہنی ہیں۔
“ اس نے ذیان کو بغور دیکھتے ہوئے تعریف کی تو وہ جھینپ سی گئی۔ نوکرانی نے اسے بڑی دلچسپی سے دیکھا۔
ذیان ٹی وی لاؤنج میں آئی تو عتیرہ بھی وہیں بیٹھی تھیں۔ انہوں نے اس کے لئے اپنے پاس جگہ بنائی تو وہ اُدھر ہی بیٹھ گئی۔ ٹی وی پہ مشہور زمانہ ایک ٹاک شو آن آئیر تھا۔ ذیان کی نظریں بظاہر ٹی وی سکرین پہ اور ذہن کسی اور شے کی طرف مرتکز تھا۔
عتیرہ ٹی وی دیکھنے کے ساتھ ساتھ اُس سے اِدھر اُدھر کی چھوٹی چھوٹی باتیں کر رہی تھیں جن کا جواب وہ سر ہلا کر بے دھیانی میں دے رہی تھی جب ملک ابیک کمرے میں داخل ہوا۔ ملک ابیک خوشبوؤں میں بسا نک سک سا رہتا۔ اسے دیکھ کر جیسے زندگی اور تازگی اور احساس فضا پہ حاوی ہو رہا تھا۔ ”السلام علیکم“ اس کی آواز سے گرمجوشی اور اپنائیت جھلک رہی تھی۔
ذیان نے سلام کا جواب بہت مدھم آواز میں دیا۔ وہ فوراً پہچان گئی تھی رات اپنے سامنے والے کمرے میں اس نے جس نوجوان کو دیکھا تھا وہ یہی تھا۔ ”کب آئے ہو بیٹا تم اور سب ٹھیک ہے ناں؟“ عتیرہ نے کھڑے ہو کر جس محبت سے اس کا ماتھا چوم کر حال احوال دریافت کیا تھا وہ ذیان کو ابیک کی اہمیت بتانے کے لئے کافی تھا۔
”چچی جان میں کل شام کو آپ کی طرف آیا تھا سوچا مہمانوں سے بھی ملاقات ہوجائے مگر آ پ لوگ نہیں ملے میں نے سوچا ابھی جا کر خیریت معلوم کر آؤں۔
“ اس کا اشارہ ذیان کی طرف تھا۔ بات کرتے کرتے ملک ابیک نے ایک نظر اس کی طرف دیکھا۔ ذیان کے چہرے کے تاثرات میں کسی بھی قسم کی گرمجوشی اور مروت نہیں تھی۔ ”ابیک یہ میری بیٹی ذیان ہے اور ذیان پہ افشاں بھابھی اور جہانگیر بھائی کا بڑا بیٹا ابیک ہے۔ وہی جہانگیر بھائی جن کے گھر جانے کا میں نے تمہیں بولا تھا۔“ عتیرہ نے تعارف کروایا۔ ذیان عدم دلچسپی کا اظہار کرتے ہوئے ٹی وی دیکھ رہی تھی۔ ابیک نے میزبانی کے اصول نبھاہتے ہوئے خود سے بات کا آغاز کیا۔ ”ذیان آپ کی کیا مصروفیات ہیں آج کل کیا کر رہی ہیں؟“ اس نے جھٹ سے جواب دیا۔ ”میں کچھ نہیں کرتی۔“ عتیرہ شرمندہ سی ہوگئیں۔ ذیان کا انداز لٹھ مارنے والا تھا۔

Chapters / Baab of Mein Guman Nahi Yaqeen Hon By Nabila Abar Raja