Episode 8 - Mein Guman Nahi Yaqeen Hon By Nabila Abar Raja

قسط نمبر 8 - میں گمان نہیں یقین ہوں - نبیلہ ابر راجہ

زرینہ بیگم اور روبینہ دونوں سر جوڑے بیٹھی تھیں۔ زرینہ آدھا گھنٹہ پہلے ہی عجلت میں پہنچی تھی اسے واپسی کی بھی جلدی تھی کیونکہ امیر احمد کی طبیعت نارمل نہیں تھی انہیں ہمہ وقت دیکھ بھال کی ضرورت پڑتی وہ رابیل کو ضروری ہدایات دے کر گھر سے نکلی تھی۔
”پھر کیا سوچا تم نے زرینہ؟“ انہوں نے منہ قریب کرتے ہوئے رازدارانہ انداز میں پوچھا”میں نے صرف سوچا نہیں ہے عمل کرنے کی بھی ٹھان لی ہے۔
جتنا جلدی ہوسکتا ہے ذیان کی شادی کرنی ہے… ورنہ یہ فتنہ لڑکی میری آئندہ آنے والی زندگی میں بھی آگ لگا سکتی ہے۔“زرینہ کالہجہ نفرت آمیز تھا۔ ”کہتی تو تم ٹھیک ہو۔ میرے وہاب کا حال نہیں دیکھا ہر دو دن بعد تمہارے گھر پہنچا ہوتا ہے“روبینہ نے تائید کی۔ ”مگر وہاب جیسے اس کی نگاہوں میں کیا حیثیت رکھتے ہیں۔

(جاری ہے)

“ ”کیوں کیا ہے میرے وہاب کی حیثیت کو۔

اچھا کماتا ہے شکل و صورت والا ہے بھرپور مرد ہے“ زرینہ کی بات پہ روبینہ تڑپ ہی تو گئی۔ زرینہ نے ان کی جذباتی حالت دیکھ کر فوراً اپنی بات کا تاثر زائل کرنے کی کوشش کی”میرا یہ مطلب نہیں ہے کہ خدانخواستہ وہاب یا آپ کم حیثیت ہیں۔ میں تو ذیان کی بات کر رہی تھی کہ وہ بہت اونچی اڑان میں ہے“
”میری بلا سے جو بھی ہے مجھے فرق نہیں پڑتا“ ”مگر وہاب کو ضرور پڑتا ہے اس کا دل ذیان میں اٹک گیا ہے“ زرینہ معنی خیز لہجے میں بولی تو روبینہ نے اسے بے بسی سے دیکھا”میں کیا کروں شروع میں سمجھ ہی نہیں پائی کہ تمہارے گھر کے اتنے چکر کیوں لگاتا ہے۔
مگر خیر! ابھی تک اس نے کھل کر اپنے منہ سے کچھ نہیں کہا ہے۔ ”روبینہ اب پرسکون تھی۔ ”آپا بہت جلد وہ اپنے منہ سے پھوٹے گا میں اس طوفان کو آپ کے گھر کی طرف بڑھتا دیکھ رہی ہوں“ ”ہائے اللہ نہ کرے…“ روبینہ نے دل پہ ہاتھ رکھ لیا۔ ”آپا فکر مت کریں میں بہت جلد کوئی حل نکال لوں گی“ زرینہ نے ان کی اُڑی ہوئی رنگت دیکھ کر تسلی دی۔
                                    ###
ٹی وی کا ریموٹ کنٹرول اسکے ہاتھ میں تھا اور وہ بلا ارادہ خالی الذہنی کے عالم میں مختلف ٹی وی چینل بدلے جارہی تھی۔
کسی بھی جگہ وہ ذہن و نظر کو مرکوز نہیں کر پا رہی تھی۔ اسے وہاب کے اندر کمرے میں آنے کی خبر ہی نہیں ہوئی۔ چند ثانیے بعد اسے کسی کی تیز نظروں کی تپش کا احساس ہوا تو وہ ریموٹ چھوڑ کر فوراً سیدھی ہوئی۔ وہاب پر شوق و پرتپش نگاہوں سے اسے دیکھے جارہا تھا۔
سفید دوپٹہ جھٹک کر اس نے سر پہ لیا۔ ”آنٹی ابو کے کمرے میں ہیں وہاں تشریف لے جائیں“ وہ ہمیشہ کی طرح سرد مہر لہجے میں بولی۔
چہرے کے تاثرات میں خود بہ خود ہی لاتعلقی در آئی تھی۔
”ادھر سے ہی ہو کر آرہا ہوں“ وہ ڈھٹائی سے بولا تو ذیان اٹھ کھڑی ہوئی۔ ”آپ تشریف رکھیے میں بوا کو دیکھ کر آؤں کیا بنا رہی ہیں“ اس نے بمشکل تمام لہجے کو مزید روکھا ہونے سے روکا۔ وہ جاتی ذیان کی پشت کو بے بسی سے دیکھ کر رہ گیا۔ اسکے لمبے بالوں کی چٹیا اوڑھے گئے دوپٹے سے نیچے تک نکلتی کمر کی طرف جاتی صاف دکھائی دے رہی تھی اسکے گلابی پیروں کی نرم و نازک ایڑھیاں مکمل طور پہ وہاب کی نگاہوں کی زد میں تھیں۔
وہ غصے و سرد مہری سے جارہی تھی اور وہ اس کی ایک ایک ادا نقش کر رہا تھا۔ ذیان سراپا غزل تھی اور یہ غزل پس منظر کے ساتھ بھی حسین تھی۔
”اُف کیا کروں میں اب تو لگتا ہے میں پاگل ہوجاؤں گا“ وہاب سر کے بال مٹھی میں جکڑتے صوفے پہ بیٹھ گیا۔ سامنے ٹی وی سکرین پہ مغنیہ درد بھرے لہجے میں نغمہ سرا تھی۔ ”اے محبت تیرے انجام پہ رونا آیا“
وہاب کا دل دہل سا گیا اس نے فوراً چینل تبدیل کردیا۔
”اگر ایسا ہوا تو بہت برا ہوگا… میں نے ہارنا نہیں سیکھا ہے… ہر قیمت پہ ذیان کو حاصل کر کے رہوں گا دیکھتا ہوں کون مجھ سے ٹکرانے کی ہمت کرتا ہے تہس نہس کردوں گا زمین آسمان ایک کردوں گا“ وہاب خیالوں کی رو میں بہتا بہت دور نکل چکا تھا۔
زرینہ بیگم، امیر علی کے جسم کے فالج سے متاثرہ حصے کی مالش کر رہی تھیں۔ جب سے انہیں فالج ہوا تھا تب سے اس نے ان کی دیکھ بھال کی ذمہ داری خود سنبھال لی تھی۔
مالش کرنا وقت پہ دوا دینا ڈاکٹر کی بتائی ہوئی مخصوص ورزشیں اور فزیو تھراپی وہ سب کچھ خود کرتی بہت ہوا تو آفاق سے مدد لے لی لیکن زیادہ کام خود سنبھالا ہوا تھا۔ وہ شوہر پرست عورت تھی۔ اس خوبی کے امیر احمد بھی معترف تھے۔
مالش کرنے کے بعد انہوں نے زیتون کے تیل کی بوتل اپنی مخصوص جگہ پہ رکھی اور جا کر واش روم میں ہاتھ دھوئے ہاتھ خشک کرنے کے بعد وہ دوبارہ انکے پاس آکر بیٹھ چکی تھی۔
”اللہ آپ کو صحت دے آپ کا سایہ بچوں کے سر پہ سلامت رہے وقت کا کچھ پتہ نہیں چلتا۔ میں بہت پریشان رہتی ہوں۔ ذیان اور رابیل دونوں جوان ہیں انکے بعد آفاق اور مناہل ہیں ہمیں اپنا فرض ادا کرتے کرتے بہت دیر لگ جائے گی“زرینہ بیگم نے اپنا پسندیدہ موضوع چھیڑ دیا یہ ایسا تھا کہ وہ اس پہ گھنٹوں بے تکان بحث کرسکتی تھی اسلئے امیر احمد نے انہیں ٹوکنے کی کوشش نہیں کی۔
”میں نے اس دن آپ سے ذیان کے بارے میں بات کی تھی پھر کیا سوچا آپ نے؟“وہ کرید میں لگی تھی۔ ”میں نے کہا تو تھا ابھی وہ پڑھ رہی ہے اتنی عمر تو نہیں ہے اسکی کہ فوراً جلد بازی سے کام لیتے ہوئے شادی کردوں“ وہ اس دن کی طرح آج بھی اس بات پہ قائم تھے اور یہی واحد بات زرینہ کو چبھی۔ یہ تو جیسے تیسے کا ناسور بن گئی تھی۔
”آپ خود بیمار ہیں۔
ذیان کے بعد ہماری اور بھی ذمہ داریاں ہیں۔ آپ خواہ مخواہ جذباتی ہو رہے ہیں۔ میں ذیان کی دشمن نہیں ہوں جو اس کے لئے برا سوچوں گی۔“
زرینہ کی بات میں وزن تھا پر امیر علی ذیان کے مستقبل کے ارادوں سے آگاہ تھے وہ اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے کے بعد اپنے پاؤں پہ کھڑا ہو کر اس گھر سے فرار اختیار کرنا چاہتی تھی۔ اپنے اس ارادے کا اظہار اس نے کچھ سال پہلے واشگاف الفاظ میں کیا تھا، وقتاً فوقتاً وہ دہراتی اور اپنے عزم کو مضبوط کرتی مگر پہلے اسکے ارادے میں گھر سے راہ فرار شامل نہیں تھا۔
اب تو اس کی آنکھوں اورلہجہ میں ہلکی ہلکی سرکشی بھی محسوس ہونے لگی تھی امیر علی کرتے تو کیا کرتے۔ ذیان کی کالج کی تعلیم بھی ابھی مکمل نہیں ہوئی تھی خود وہ معذور اور لاچار ہو کر بستر پہ تھے۔ اپنی بے بسی و لاچاری کا انہیں اچھی طرح ادراک تھا تب ہی تو خاموش ہوجاتے۔
اس خاموشی پہ زرینہ کڑھتی۔ انہیں یہ ایک آنکھ نہ بھاتی۔ ابھی بھی امیر علی نے آنکھیں بند کرلی تھیں جو ان کی طرف سے بات چیت ختم ہونے کا اظہار تھا۔
زرینہ غصہ دل میں دبائے باہر آئی۔ بیرونی گیٹ لاک تھا۔ رحمت بوا بھی اپنے کمرے میں جاچکی تھی۔ ذیان کے کمرے کا دروازہ بند تھا لیکن بند دروازے کے نیچے سے روشنی کی ہلکی سی لکیر باہر آرہی تھی۔ کھڑکیوں پہ بھاری پردے پڑے تھے کیونکہ موسم سرد تھا۔
وہ ٹھنڈی سانس بھرتی دوبارہ کمرے میں آئی۔ باہر سکون تھا لیکن انکے دل میں امیر علی کی خاموشی سے ہلچل مچی ہوئی تھی۔
پہلی تلخی اور پہلا دن باوجود کوشش کے وہ آج بھی نہ بھول پائی تھی۔
کمرہ سادے انداز میں سجا ہوا تھا وہ گھونگھٹ اوڑھے سرگھنٹوں پہ رکھے بیٹھی تھی۔ کبھی کبھی نگاہیں اٹھ کر ادھر ادھر بھی دیکھ لیتی مگر اس کی نگاہوں کا مرکز کمرے کا دروازہ تھا جہاں سے کسی کو گزر کر اس تک پہنچنا تھا۔ امیر علی کے بارے میں اس کی سہیلیوں، رشتہ داروں اور بڑی بہن روبینہ نے بہت کچھ بتایا تھا۔
وہ امیر اور صاحب جائیداد تھا اسکے گھر نوکر کام کرتے دروازے پہ دو دو گاڑیاں کھڑی تھیں اور وہ خود بھی تو جاذب نظر شکل و صورت کا مالک تھا۔ زرینہ نے کسی نہ کسی طرح اس کی ایک جھلک دیکھ لی تھی جب وہ دعوت پہ انکے گھر آیا۔ پھر سب سے تعریفیں سن سن کر اسے شادی سے پہلے ہی اپنی قسمت پہ رشک آنے لگا۔ خوشیوں کے پنڈولے میں جھولا جھولتے وہ بھول گئی تھی کہ چاند میں بھی داغ ہوتا ہے۔
امیر علی کے ساتھ بھی ایسا معاملہ تھا وہ چڑھتے چاند کی مانند روشن اور مکمل تھا مگر داغ کی صورت میں ایک بیٹی بھی ہمراہ تھی۔
ملنے جلنے والیوں اور خاص طور پہ روبینہ آپا نے اسکی بیٹی کے حوالے سے زرینہ کو مفید مشورے سے نوازا تھا جو اس نے گرہ میں باندھنے میں دیر نہیں لگائی۔ آگے بڑھتے قدموں کی آہٹ پہ زرینہ کی منتظر نگاہوں کو قرار سا آگیا۔
 
امیر علی اسکے قریب آکر بیٹھ چکے تھے۔ تم پتہ نہیں کیا کیا تصورات لے کر میرے گھر آئی ہوگی تمہارے خوابوں میں کوئی شہزادہ بسا ہوگا تم سوچتی ہوگی خوابوں کی حسیں راہ گزر پہ میرا ہاتھ تھام کر محبوبہ کی طرح چلتی رہو اور میں عاشق بن کر تمام عمر تمہارے وجود کا طواف کرتا رہوں معذرت چاہوں گا میں تمہاری سوچوں پہ پورا نہیں اتر پاؤں گا“انکی عجیب دل کھانے والی باتیں سن کر زرینہ سر اٹھا کر آنکھیں کھول کر ان کی طرف دیکھنے پہ مجبور ہوگئی۔
اسکی نگاہوں میں حیا سے زیادہ سوال مچل رہے تھے۔ ”میں عورت کی بے وفائی اور مکاری کا ڈسا ہوا ہوں“ امیر علی کے لہجے میں بے پناہ نفرت تھی۔ اس وقت زرینہ نے جاتی عقل کے آخری سرے تھامنے چاہے۔ ”میں سب جانتی ہوں اور مجھے اس کا بہت دکھ بھی ہے“ اس نے شرم بالائے طاق رکھتے ہوئے امیر احمد کے ہاتھ پہ اپنا ہاتھ تسلی دینے والے انداز میں رکھا۔ تو انہوں نے جذباتی سہارا میسر آتے ہی کمزور مرد کی طرح بکھرنا شروع کردیا۔
”میں نے اپنی بیٹی اس… گالی) عورت سے چھین کر ہمیشہ تڑپتے رہنے کی سزا دی ہے۔ ساری عمر سسک سسک کر روئے گی تم نے میری بیٹی کو ماں کا پیار دینا ہے کل وہ یہاں آجائے گی اپنے گھر آج میری بوا رحمت کے پاس ہے وہ اسے میری رشتے کی ایک پھوپھی کے گھر لے گئی ہیں بہت رو رہی تھی… میں اسکے سلسلے میں کوئی کوتاہی برداشت نہیں کروں گا۔ وہ ہماری بیٹی پہلے ہے اورتم میری بیوی بعد میں ہو۔
ملن کی اولین ساعتوں میں ایسے کڑوے نصیحت بھرے جملے سن کر زرینہ کے سارے کومل جذبوں پہ اوس آگری وہ امیر علی سے ایک لفظ تک نہ کہہ پائی۔ وہ پہلی بیوی کے بارے میں بہت کچھ بتاتے رہے ان کی ساری باتوں سے زرینہ نے یہی نتیجہ اخذ کیا کہ ان کی پہلی بیوی کردار و سیرت کے لحاظ سے اچھی عورت نہیں تھی اور اس نے شوہر کو بے وفائی کا گہرا گھاؤ لگایا ہے۔ زرینہ نے اسے دیکھا نہیں تھا مگر اوروں کی زبانی سن رکھا تھا کہ ذیان کی ماں خاصی حسین عورت ہے۔
                                      ###

Chapters / Baab of Mein Guman Nahi Yaqeen Hon By Nabila Abar Raja