Episode 35 - Mein Guman Nahi Yaqeen Hon By Nabila Abar Raja

قسط نمبر 35 - میں گمان نہیں یقین ہوں - نبیلہ ابر راجہ

رنم کو گئے کافی دیر ہوچکی تھی۔ کومل اس کے جانے کے بعد کافی دیر بلا وجہ لان کے چکر کاٹتی رہی۔وہ اسی کے بارے میں مسلسل سوچ رہی تھی جانے گھر پہنچی ہوگی کہ نہیں۔یہاں سے نکلے ہوئے اسے دو گھنٹے سے اوپر ہوچکے تھے۔ وہ ناراض ہو کر اس سے رخصت ہوئی تھی اسے منانا دشوار امر تھا لیکن یہ کام تو کرنا ہی تھا۔ کومل نے اسے فون کرنے کا فیصلہ کیا۔ اس نے سیل فون اٹھا کر رنم کا نمبر ڈائل کیا۔
پر اس کا نمبر آف جارہا تھا۔ اس نے تین چار بار ٹرائی کیا لیکن ہر بار ایک ہی جواب ملا۔ اس نے فراز کا نمبر ڈائل کیا۔اس وقت کومل کے دل پہ بے پناہ بوجھ تھا وہ فراز سے شیئر کرنا چاہ رہی تھی۔ فراز رنم کا کلوز فرینڈ تھا اسے سمجھا بجھا کر کومل کی طرف سے اس کا دل صاف کرسکتا تھا۔
فراز نے فوراً فون ریسو کیا۔

(جاری ہے)

کومل کے بولتے ہی وہ جان گیا کہ وہ اس وقت بہت پریشان ہے۔

”کومل آر یو اوکے؟“ ”نو ناٹ ایٹ آل۔“ فراز رنم اپنا گھر چھوڑ کر میرے پاس آئی تھی لیکن میں نے سمجھا کر اسے گھر واپس بھیج دیا تھا وہ ناراض ہو کر گئی ہے مجھ سے۔ میں اس کے نمبر پہ کال کر رہی ہوں لیکن وہ پاور آف ہے۔ تم اس کی ناراضگی دور کرنے کی کوشش کرنا ہوسکتا ہے میں کل یونیورسٹی نہ آسکوں بہت ڈسٹرب ہوں۔“ جواب میں فراز نے اسے جو کچھ بتایا وہ کومل کے ہوش اڑانے کے لئے کافی تھا۔
وہ گھر نہیں گئی تھی سیدھی فراز کے پاس آئی تھی اور اب وہاں سے بھی غائب تھی۔ یعنی کومل کے سمجھانے کا اس پہ کوئی اثر نہیں ہواتھا۔ ”میں اپ سیٹ ہوں بہت۔ میرا خیال ہے اس نے فون پہ میری باتیں سن لی تھیں جو میں احمد انکل کے ساتھ کر رہا تھا۔ گیٹ پہ چوکیدار بھی نہیں تھا جو اسے روکتا یا مجھے انفارم کرتا۔“ فراز کی آواز سے اس کی دلی پریشانی کا اندازہ لگایا جاسکتا تھا۔
”فراز وہ کہاں گئی ہے۔ تم نے اس کے گھر سے معلوم کیا؟“ کومل کا سوال بہت سے اندیشے سمیٹے ہوئے تھا۔ ”ہاں میں نے ابھی ابھی کال کی ہے کسی ملازم نے اٹینڈ کی ہے کال اور بتایا ہے کہ رنم بی بی گھر پہ نہیں ہیں۔“ ”اس کا سیل فون بھی آف ہے۔“ کومل نے بتایا۔ ”سیل فون آف کر کے وہ اپنے گھر میں چھوڑ آئی ہے۔ اس لئے آف مل رہا ہے۔“ ”فراز تم نے احمد انکل کو بتایا اس کے بار ے میں۔
“ کومل نے محتاط ہو کر پوچھا۔ ”نہیں میں نے کچھ نہیں بتایا ہے۔ جب وہ مجھ سے پوچھیں گے تو بتاؤں گا ورنہ نہیں۔“ ”فراز وہ مجھ سے بھی تو پوچھیں گے ناں۔“ ”ڈونٹ وری کومل۔“ فراز نے اسے تسلی دی۔ ”وہ کہاں ہوگی اب؟“ ”مجھے جیسے ہی پتہ چلا کہ وہ ڈرائنگ روم میں نہیں ہے تو اسی وقت میں نے اسے پورے گھر میں تلاش کیا، ناکامی پہ میں نے اُسے اِدھر اُدھر قریب کے علاقے میں ڈھونڈا۔
ابھی تمہاری کال آنے سے پانچ منٹ پہلے ہی گاڑی پورچ میں کھڑی کر کے آیا ہوں۔“ فراز خود بہت پریشان تھا۔
”میں راعنہ سے کال کر کے پوچھتی ہوں اور اشعر سے بھی۔ ہوسکتا ہے وہ ان کی طرف ہو۔“ کومل پر امید تھی۔ ”اشعر کو میں نے کال کی تھی اس نے لاعلمی کا اظہار کیا ہے۔ باقی میرا نہیں خیال کہ وہ راعنہ کی طرف جاسکتی ہے۔ پھر بھی تم پوچھ لو۔“ فراز کے ساتھ رابطہ منقطع کر کے کومل نے فوراً راعنہ کو کال ملائی۔
فراز کا اندیشہ سچ ثابت ہوا۔ رنم اس کی طرف بھی نہیں تھی۔
                                      ###
امیر علی کا کمرہ ڈرائنگ روم کی مشرقی سمت میں واقع تھا اس لئے گھر کے دیگر حصوں میں ہونے والی سرگرمیوں کی سن گن بہت کم ان تک پہنچ پاتی تھی۔ جب تک کوئی بات مکمل طور پہ ان کے علم میں نہ لائی جاتی وہ آگاہی سے محروم رہتے۔
پر وہاب اور زرینہ کے جھگڑے کی آواز ان کی سماعتوں تک بھی پہنچی تھی اسی لئے انہوں نے زرینہ سے استفسار کیا۔
”یہ وہاب اتنا تیز کیوں چلارہا تھا؟“ دوائی کھاتے کھاتے انہوں نے اچانک سوال کیا۔ ”اس کا دماغ خراب ہو رہا ہے اور بس۔“ زرینہ نے ٹالنے کی کوشش کی۔ ”وہ ذیان کا نام بھی لے رہا تھا کیوں؟“ اس بار سوالیہ بے بسی ان کے لہجے سے واضح تھی۔ ”اصل میں وہاب کی مرضی ہے ذیان سے اس کا رشتہ ہوجائے پر آپا روبینہ ایسا نہیں چاہتیں انہوں نے خاندان کی ہی ایک لڑکی وہاب کے لئے پسند کر رکھی ہے۔
وہ میرے پاس آیا تھا کہ اس کی ماں کو سمجھاؤں۔“
زرینہ نے اعتماد سے جھوٹ بولا۔ ”یہ میرا گھر ہے کوئی مچھلی بازار نہیں ہے جو وہ اتنا شور شرابا کر کے گیا ہے۔“ امیر علی کا انداز بتا رہا تھا کہ انہوں نے بہت کچھ سن لیا ہے۔
”عفت خانم کو آپ کوئی صاف جواب دے ہی نہیں رہے ہیں ذیان کی کشتی جب تک کسی کنارے نہیں لگتی تب تک یہی ہوگا۔ آپ کو کتنی بار کہا کہ کمال کے رشتے کے لئے ہاں کردیں ورنہ ذیان کی ماں کی شہرت کی وجہ سے اس کے ساتھ یہی ہوگا۔
“ زرینہ نے ان کے زخموں پہ نمک چھڑکنے میں انتہا کردی تھی۔ جواباً وہ بے بسی سے اسے دیکھ کر رہ گئے۔ بہت سال پہلے انہوں نے ذرا سے شک کے پیچھے اپنا گھر اجاڑ کر زرینہ سے شادی رچائی تھی اور اسے ایک ایک کمزوری سے آگاہ کیا۔ زرینہ بیگم تب سے اب تک ان کی کمزوریوں سے کھیلتی آرہی تھی، ذیان کی صورت میں ایک جیتا جاگتا کھلونا بھی ان کے پاس تھا۔ ”بس کرو جاؤ زرینہ بیگم۔
میں نے بہت بڑی غلطی کی تھی“ امیر علی نے دونوں ہاتھوں سے سر تھام لیا تھا۔ وہ دور بیٹھی تمسخرانہ نگاہوں سے انہیں دیکھ رہی تھی۔
                                     ###
رنم کو اس ہوٹل میں کمرہ لینے میں کوئی دشواری پیش نہیں آئی تھی۔ ہوٹل بہت اچھا تھا، کمرہ بھی اس کی پسند کے عین مطابق تھا۔ وہ مختصر سامان سیٹ کر کے بیٹھی ہوئی تھی، اندر ہی اندر کوئی چیز رہ رہ کر پریشان کر رہی تھی۔ اس نے بیرے سے کھانا بھی کمرے میں ہی منگوایا۔
وہ نہیں چاہتی تھی کھانا ڈائننگ ہال میں کھائے اور کوئی وہاں پہچاننے والا مل جائے۔ مشکل سے چند نوالے اس نے زہر مار کیے۔ باقی کا کھانا جوں کا توں رکھا تھا، دل انجانے خدشات سے بھرا ہوا تھا۔
                                        ###

Chapters / Baab of Mein Guman Nahi Yaqeen Hon By Nabila Abar Raja