Episode 78 - Mein Guman Nahi Yaqeen Hon By Nabila Abar Raja

قسط نمبر 78 - میں گمان نہیں یقین ہوں - نبیلہ ابر راجہ

جس پہ جن عاشق ہوگیا تھا۔اب اسی حسین و جمیل بہو کو جن سے بچانے کے لیے عامل جلالی باوا”ملک محل“ میں خاص عمل کرنے آرہے تھے تو کسی کو بھی منع نہیں کرنا چاہیے تھا۔ملک جہانگیر کو ابیک کو حویلی سے باہر بھیجنے پہ اعتراض تھا ویسے وہ شانت تھے۔افشاں بیگم نے انہیں منا لیا تھا۔اب عتیرہ کو ملک ابیک سے خود بات کرنی تھی۔ ایک مشکل مرحلہ ابھی سر کرنا باقی تھا۔

عتیرہ کو ملک ابیک سے بات کرنے کے لیے مناسب الفاظ ہی نہیں مل رہے تھے۔موضوع ہی ایسا تھا انہیں ابیک سے جھجک محسوس ہو رہی تھی۔جبکہ وہ ان کے تاثرات اور ہاتھ پاؤں کی اضطراری حرکات سے ہی الجھن محسوس کر رہا تھا۔ ”چچی جان آپ نے کوئی خاص بات کرنی ہے؟“وہ ان کا تذبذب بھانپ چکا تھا۔ کچھ دیر وہ بے بسی سے اسے تکتی رہیں جیسے بولنے کے لیے حوصلہ اکٹھا کر رہی ہوں۔

(جاری ہے)

”ہاں ابیک بیٹا مجھے ذیان کے سلسلے میں بات کرنی ہے۔“ آخر انہوں نے ہمت کرہی لی۔ وہ ہمہ تن گوش تھا۔ ”جی چچی جان آپ کہیے میں سن رہا ہوں۔“وہ بہت نرم انداز میں گویا ان کی حوصلہ افزائی کر رہا تھا۔ ”تمہیں پتہ تو ہے ذیان کے جن نے جو دھمکی دی ہے۔ مجھے بہت ڈر لگتا ہے۔ میرا دل ہے کہ کچھ عرصے کے لیے اسے اپنے ساتھ لے جاؤں۔شاید وہ ٹھیک ہوجائے۔
اس کے لیے تمہاری اجازت چاہیے۔“ ”چچی جان اگر آپ یہ سمجھتی ہیں کہ ذیان مجھ سے دور رہ کر ٹھیک ہوجائے گی تو بے شک آپ اسے لے جائیں۔“ ابیک کے لہجہ میں لطیف سا طنز تھا۔ عتیرہ محسوس ہی نہ کرپائی۔ وہ تو خوش تھیں کہ ابیک نے اجازت دے دی ہے۔“
میں اس کا روحانی علاج کراؤں گی۔ کیونکہ ڈاکٹر وغیرہ کے بس کا یہ کام ہی نہیں ہے۔“ ابیک کا دل چاہا ان کی جہالت پہ اپنا سر پیٹ لے۔
”چچی جان مجھے خود آپ سے بات کرنی تھی مجھے شہر میں اپنے کچھ کام نمٹانے ہیں۔ ایک دو ماہ تو میں مصروف رہوں گا۔ ذیان کو ٹائم بھی نہیں دے پاؤں گا آپ نے تو میری بہت بڑی مشکل حل کردی ہے۔ ذیان آپ کے پاس رہے گی تو میں اپنے کام سکون سے کر پاؤں گا۔ اس دوران میں گاؤں نہیں آسکوں گا۔“ ابیک کی بات پہ عتیرہ کا دل خوشی سے جھوم اٹھا۔ مسئلہ ان کا بھی حل ہوچکا تھا۔
عامل جلالی باوا نے رازداری کی شرط رکھی تھی۔ عتیرہ نے ویسے بھی ابیک کو تفصیلات سے آگاہ نہیں کیا تھا یہ بھی عامل جلالی باوا کی ہی ہدایت تھی کہ زیادہ لوگوں کو علم نہیں ہونا چاہیے ورنہ ذیان پہ آنے والا جن غصے میں آسکتا تھا جس سے چلہ ناکام ہونے کا خطرہ تھا۔ ابیک دو ماہ کے لیے شہر جارہا تھا اس کی غیر موجودگی میں ذیان کا علاج کامیابی سے مکمل ہوتا اور گھر واپسی پہ وہ اسے بالکل ٹھیک ٹھاک ملتی۔
ملک ابیک نے چچی کے چہرے پہ پھیلتے سکون کے رنگوں کو فوراً دیکھ لیا تھا۔ ایک تلخ سی مسکراہٹ اس کے لبوں پہ آگئی جو عتیرہ بیگم پہلے کی طرح دیکھ ہی نہ پائیں۔ ان کا دل تو عامل جلالی باوا کی ملک محل میں آمد، ذیان کے علاج میں ہی اٹکا ہوا تھا۔ ویسے بھی وہ تھوڑی خود غرض ہوگئی تھیں۔ ابیک کے بارے میں اس کی پریشانی اور احساسات کے بارے میں انہوں نے بطور خاص کچھ سوچا نہیں تھا۔
معاذ ساری رونقیں اپنے ساتھ سمیٹ کر لے گیا تھا۔ اس کی موجودگی سے ایک تازگی اور زندگی کا احساس تھا۔ سارا دن وہ اودھم مچائے رکھتا نت نئی شرارتیں کرنا اس کا مشغلہ تھا۔وہ جب تک ملک محل میں رہا نیناں اس کی موجودگی سے پریشان ہی رہی۔بظاہر لاپرواہ اور شرارتی معاذ در حقیقت بہت حساس تھا۔ قدرت نے اس کو اپنی حساسیت کی بدولت خاص خوبی عطا کی تھی۔
وہ معمولی سے معمولی بات کو بھی فوراً محسوس کرتا۔ چھوٹی چھوٹی تفصیلات اس کے علم میں آجاتیں دوسرے جن کو نظر انداز کرتے وہ ان کا جائزہ لیتا۔ اکثر ایسی باتیں وقوع پذیر ہوتیں جن کو وہ گہرائی میں جا کر محسوس کرتا۔ وہ اس بار ملک محل میں زیادہ عرصہ نہیں رہا تھا پر نیناں کے بارے میں اس کی رائے اوروں سے مختلف تھی۔ ابیک بھائی کی شادی میں اس نے دو بار نیناں کی نگاہوں کی چوری پکڑی تھی۔
ایک بار اپنے تئیں وہ سب سے چھپ کر ذیان کو نفرت سے گھور رہی تھی جبکہ ابیک بھائی کے لیے اس کے انداز کچھ اور تھے۔
جانے سے پہلے معاذ کا دل چاہا کہ وہ ابیک بھائی کو اپنے خیالات سے آگاہ کرے پھر اس نے ارادہ بدل دیا۔ احمد سیال کے گھر میں پائی جانے والی ان کی بیٹی کی تصویریں اور نیناں کی ان کی بیٹی سے مشابہت بھی حیران کن تھی۔ وہ اس کا ذکر بھی ابیک سے کرنا بھول گیا تھا۔
نیناں کی شخصیت خاصی پراسرار اور شک و شبہے کے دائرے میں لپٹی ہوئی تھی۔
اس کے جانے کے بعد نیناں کم از کم خوش تھی۔
کیونکہ معاذ کی موجودگی اسے خائف ہی رکھتی تھی۔ہر پل ہر لحظہ اسے دھڑکا لگا رہتا جیسے معاذ اس کے بارے میں جانتا ہو۔ جبکہ ملک محل میں آنے اور ملک ابیک کو دیکھنے کے بعد اس کی پوری کوشش تھی کہ اس کی شخصیت کا راز کسی پہ بھی عیاں نہ ہو۔
جب سے وہ یہاں آئی تھی اپنی شخصیت ذات اور پہچان کو اس نے نیناں کے رنگ میں ڈھال لیا تھا۔ رنم بہت دور بہت پیچھے رہ گئی تھی۔ شروع شروع میں وہ روئی پچھتائی پھر زندگی کے اس رنگ نے اسے بہت کچھ سکھایا بتایا۔ ملک ابیک ہو بہو اس کے آئیڈیل کے روپ میں تھا پر وہ اسے پا نہیں سکتی تھی وہ کسی اور کا تھا۔ دکھ کے ساتھ خوشی بھی ملی احمد سیال زندہ تھے۔
ابیک اس کا آئیڈیل کسی اور کا تھا اور رنم نے اپنی پسند کی ہر چیز پائی تھی۔ پہلے اس نے ضد کی خاطر گھر چھوڑا اب ملک ابیک جسے وہ چپکے چپکے چاہنے لگی تھی اس کی خاطر کچھ بھی کرسکتی تھی۔ ویسے بھی ذیان کی نگاہوں میں اس کے انداز سے کبھی رنم نے ایک لحظے کے لیے محبت محسوس نہیں کی تھی۔ وہ عورت تھی اور عورت کی مخصوص حس اس معاملے میں بہت تیز ہوتی ہے۔
ابیک اس کے نصیب میں ہوتا تو وہ اس کے قدموں میں بچھ بچھ جاتی دیوتا بنا کر اس کی پوجا کرتی۔ رنم نے ساری عمر اپنی مرضی کی تھی۔ لیکن ملک ابیک ایسا مرد تھا جسے دیکھتے ہی اس کے دل میں ہلچل مچی تھی۔ یہ وہی مرد تھا جس کے پیچھے وہ تمام عمر آنکھیں بند کر کے چل سکتی تھی ہر حکم بجالاسکتی تھی۔ ہر بات میں اس کی مان سکتی تھی۔
وہ کتنی بے وقوف اور احمق تھی جس آئیڈیل کو پانے کے لیے گھر چھوڑ کر نکلی تھی وہ رشتے کی صورت خود اس کے گھر آیا تھا۔
پاپا نے کتنی بار کہا تھا تم کہو تو میں ملک جہانگیر کی فیملی کو بلواؤں۔ آخری بار اسی بات پہ تو اس کی پپا سے لڑائی ہوئی تھی۔ وہ ملک جہانگیر کو گھر بلوانا چاہ رہے تھے اور وہ گھر چھوڑنا چاہ رہی تھی۔ من پسند مرد اسے کتنی آسانی سے سیدھے راستے سے مل رہا تھا اور وہ بے وقوف ہر آسائش پریوں جیسی زندگی عیش و آرام کو ٹھوکر مار کر گھر سے نکل پڑی تھی۔
اس کا احساس زیاں ختم ہونے میں نہیں آتا تھا اس کے لیے ملک ابیک کا رشتہ آیا تھا۔
وہ ہمیشہ پہلے نمبر پہ رہے گی، وہ خود کو بہلاتی۔ اسے ملک ابیک کو ہر صورت ہر قیمت پہ حاصل کرنا تھا۔ وہ ذیان سے شادی کر کے بھی نامراد رہا تھا۔ پر اس کی نامرادی کی عمارت پہ ہی اپنا خوابوں کا محل تعمیر کرنا تھا۔ اس کی دعا تھی کہ وہ کبھی بھی ذیان کے قریب نہ جاسکے۔
رنم کی حسیات ملک ابیک کے معاملے میں بہت شارپ تھیں۔ اسے پتہ تھا وہ ذیان کی وجہ سے بہت اداس اور اپ سیٹ ہے۔ اس کے دل کو کچھ ہونے لگتا۔ کاش ایک دن ایسا آئے جب ملک ابیک اس کے لیے پریشان ہو۔ اس کے دل کی گہرائیوں سے دعا نکلتی۔ کاش کوئی معجزہ رونما ہو اور ملک ابیک اس کا ہوجائے۔ دل میں شور مچاتے جذبوں پہ بند باندھنا اب اس کے لیے ممکن نہیں رہا تھا۔
ساری عمر اس نے من پسند چیزیں حاصل کی تھیں اسے امید تھی ہمیشہ کی طرح اس بار بھی وہ اپنی من پسند مراد آسانی سے پا لے گی۔ کسی طرح بھی اسے ملک ابیک کا مزاج آشنا ہونا تھا اس کا قرب اور اعتبار حاصل کرنا تھا۔ وہ آج کل جن خطوط پہ سوچ رہی تھی اس کی وجہ اس کا نیناں والا راز بہت جلدی افشاء ہونے کا خطرہ تھا کیونکہ اب اسے اپنے جذبات پہ قابو نہیں تھا۔
اس کا دل چاہتا ابیک سے روز ملاقات ہو وہ اسے ڈھیروں باتیں کرے پہروں تکتی رہے۔
ملک محل میں اور نیناں کے روپ میں اس کی خواہش پوری ہونانا ممکن تھا۔ اسے اپنی اصل شخصیت میں رنم کے روپ میں واپس آنا تھا۔ وہ رنم جو احمد سیال کی اکلوتی لاڈلی بیٹی تھی۔ احمد سیال بزنس ٹائیکون دولت جن کے گھر کی لونڈی تھی۔ وہ اسی احمد سیال جیسے بااختیار شخص کی بیٹی تھی۔ احمد سیال ملک جہانگیر کے گہرے دوست تھے۔ ذیان ملک ابیک کی زندگی سے باہر ہوجاتی تو اسے ملک ابیک کی زندگی میں آنے سے کوئی بھی نہیں روک سکتا تھا۔
وہ آسیب زدہ لڑکی کسی طرح بھی تو ملک ابیک کے قابل نہیں تھی۔
                                     ###

Chapters / Baab of Mein Guman Nahi Yaqeen Hon By Nabila Abar Raja