Episode 53 - Mein Guman Nahi Yaqeen Hon By Nabila Abar Raja

قسط نمبر 53 - میں گمان نہیں یقین ہوں - نبیلہ ابر راجہ

ذیان نے بھاگ کر پھرتی سے انہیلر اٹھایا اور ان کی ناک سے لگایا۔
اتنے میں افشاں بیگم اور ملک ابیک کمرے میں داخل ہوئے۔ افشاں بیگم نماز پڑھ رہی تھیں نماز ختم کرنے کے بعد نوکرانی نے انہیں ذیان کی آمد کی اطلاع دی۔ وہ اسی کی طرف جارہی تھیں جب ملک ابیک سے سامنا ہوا۔ انہوں نے بیٹے کو بھی ذیان کی آمد کا بتایا۔ ان کی خوشی دیکھنے والی تھی۔
ابیک کو خوشگوار سی حیرت ہوئی۔
ذیان انہیلر ناک سے لگائے ان کی مدد کرنے کی کوشش کر رہی تھی۔ ملک ابیک پریشانی سے ملک جہانگیر کی طرف بڑھا۔ وہ سمجھ چکا تھا کہ بابا جان کو دمہ کا اٹیک ہوا ہے۔ اگلے پندرہ منٹ میں ذیان کے ساتھ ساتھ اس کی بھی بھرپور کوشش سے ملک جہانگیر کی حالت سنبھل چکی تھی۔ اب وہ پرسکون تھے۔ انہیں دمہ کا اٹیک ہوا تھا۔

(جاری ہے)

ابیک نے فارغ ہو کر سب سے پہلے اے سی بند کیا۔
”بیٹی کیسی ہو تم کب آئی۔ میں نماز پڑھ رہی تھی نوکرانی نے مجھے بتایا کہ تم آئی ہو تو نماز پڑھ کر فوراً ادھر آئی ہوں۔ تم بھی کہتی ہوگی کہ آتے ہی پریشانی سے واسطہ پڑ گیا۔“
ان کا اشارہ ملک جہانگیر کی اچانک بگڑ جانے والی طبیعت کی طرف تھا۔ انہوں نے قریب آ کر ذیان کا ماتھا چوما۔ ”ادھر یہاں میرے پاس بیٹھو۔
“ افشاں بیگم نے اپنے پاس اس کے لئے جگہ بنائی۔ وہ مڑی تو کمر پہ گرے بالوں کے آبشار نے خاص ردہم میں ہلکورے لئے۔ ”نہیں آنٹی اس میں پریشانی کیسی۔ بلکہ میں گھبرا گئی تھی۔ آپ کو بلانے کے لئے جانے ہی والی تھی کہ آپ لوگ خود ہی آگئے۔“ اس نے مدہم آواز میں وضاحت دی۔ ابیک نے اس کی طرف دیکھا پر ادھر نو لفٹ کا بورڈ آویزاں تھا۔ حالانکہ اس نے ذیان کو بڑی گرمجوشی سے سلام کر کے حال احوال دریافت کیا تھا۔
نوکرانی نے کمرے میں داخل ہو کر آہستہ آواز میں افشاں بیگم سے کچھ کہا۔ ذیان اس طرف متوجہ نہیں تھی اس لئے سن نہیں پائی۔ ”آؤ ذیان بیٹی ڈرائنگ روم میں چلتے ہیں یہاں ملک صاحب آرام کر رہے ہیں۔“ تو یہاں اِدھر ان کے پاس کون ہوگا؟“ اس نے فوراً سوال کیا۔
”اصل میں انکل کی طبیعت ٹھیک نہیں ہے اس لئے پوچھا ہے۔ ”افشاں بیگم کی نگاہیں خود پہ مرکوز دیکھ کر اس نے وضاحت کی۔
“ یہاں ابیک ہے ناں تم فکر مت کرو۔“ انہوں نے ہلکی سی مسکراہٹ سمیت اپنائیت بھری نگاہوں سے اس کی سمت دیکھا۔ ذیان نے ان کی معیت میں قدم آگے بڑھا دئیے۔
ڈرائنگ روم میں بڑی ٹیبل اشیاء، خوردو نوش سے پوری طرح بھری ہوئی تھی۔ افشاں بیگم نے اس کے نہ نہ کرنے کے باوجود بھی اس کے لئے بڑی پلیٹ خوب بھر دی۔ ”تم نے اس دن بھی کچھ نہیں کھایا تھا پر آج تمہیں کھانا کھائے بغیر جانے نہیں دوں گی۔
“ انہوں نے اسے اپنے ارادوں سے خبردار کیا۔ آنٹی میں نے ابھی اتنا کچھ کھا لیا ہے۔ رات کے کھانے کی تو ذرا بھی گنجائش نہیں ہے۔“ ”کہاں تم نے اتنا کچھ کھایا ہے چکھا ہی تو ہے۔ تم کھاؤ پیئو میں باورچی خانے سے ہو کر آتی ہوں۔“ ذیان کے لاکھ انکار کے باوجود انہوں نے اس کی ایک نہ مانی۔ اب باورچی خانے میں ذیان کے لئے خاص طور پہ اہتمام ہو رہا تھا۔
وہ دل ہی دل میں شرمندہ ہو رہی تھی کہ فضول میں ادھر آگئی ہے کیونکہ افشاں بیگم نے پیار بھرے اصرار کے ذریعے اسے پہلے ہی بہت کچھ کھلا دیا تھا۔ رات کے کھانے کے لئے وہ جگہ کہاں سے لاتی۔ افشاں بیگم اس کے پاس پھر سے آ کر بیٹھ گئی تھیں۔ انہوں نے اسے اپنی فیملی فوٹو البم دکھائی جس میں ان کی شادی کی لاتعداد تصاویر تھی۔ انہوں نے اسے معاذ کی فوٹوز خاص طور پہ دکھائی۔
تصویروں میں ہنستا مسکراتا معاذ بہت اٹکریکٹو لگ رہا تھا۔ اس کے ساتھ ابیک کے بچپن اور جوانی کے بھی بہت سے فوٹو گرافس تھے جو اس نے عدم دلچسپی کے ساتھ صرف اور صرف افشاں بیگم کا دل رکھنے کے لئے دیکھے۔ وہ اسے ان فوٹوؤں کے ساتھ جڑی تاریخ بھی بتا رہی تھیں۔ بہت دیر بعد انہوں نے بھاری بھرکم فوٹو البم واپس رکھی۔
”آنٹی میں ذرا انکل کو ایک نظر دیکھ آؤں؟“ اس نے سوالیہ نگاہوں سے ان کی طرف دیکھا۔
افشاں بیگم کو ملک جہانگیر کے لئے اس کی پریشانی دیکھ کر خوشی ہوئی۔ ”ہاں ہاں ضرور جاؤ میں بھی آرہی ہوں۔“ انہوں نے بخوشی رضا مندی کا اظہار کیا۔
انکل جہانگیر اب پہلے سے کافی بہتر حالت میں تھے اور ابیک کے ساتھ باتیں کر رہے تھے۔
”ادھر میرے پاس آ کر بیٹھ پتر۔“ ذیان بیڈ کے پاس پڑی کرسی پہ بیٹھنے والی تھی جب ملک جہانگیر نے بیڈ پہ اسے اپنے پاس بیٹھنے کا اشارہ کیا۔
ان کی زبان سے”پتر“ کا لفظ ادا ہونے کے بعد ذیان کو بہت اچھا لگا تھا۔ وہ ان کے حکم کے تعمیل میں ان کے پاس بیٹھ گئی۔ ملک جہانگیر نے اپنے کمزور ہاتھوں سے ذیان کا مومی سفید ہاتھ تھاما۔
”اس بچی نے آج میری بڑی مدد کی ہے ذرا سی دیر ہوجاتی تو میرا سانس ہمیشہ کے لئے رک جانا تھا۔“ ملک جہانگیر کا مخاطب ملک ابیک تھا۔ وہ ایک سانس بولنے کے بعد لمبے لمبے سانس لے رہے تھے۔
افشاں بیگم بھی آچکی تھیں۔ ”بہت خدمت گزار اور پیاری بچی ہے یہ۔“
انہوں نے پیار بھری نگاہ اس پہ ڈالی تو وہ شرمندہ ہوگئی۔ کیونکہ کمرے میں موجود تینوں نفوس کی توجہ اس کی طرف تھی۔” نہیں انکل ایسی تو کوئی بات نہیں ہے۔ میں نے آپ کی چھوٹی سی ہیلپ کی ہے کیونکہ آپ کی طبیعت بہت خراب ہو رہی تھی ناں۔“
وہ اس توجہ سے گھبرا رہی تھی۔ افشاں بیگم اور ابیک اس کی گھبراہٹ کو محسوس کر رہے تھے۔
پھر افشاں بیگم نے ہی اسے گھبراہٹ اور نروس پن کے حصار سے باہر نکالا۔ وہ ذیان کو خصوصی طور پہ بہت زیادہ توجہ دے رہی تھیں۔ کچھ محسوس کر کے اور سوچ کر ابیک کے لب گھنی مونچھوں تلے مسکرا اٹھے۔
                                           ###
افشاں بیگم نے رات کے کھانے پہ ملک ارسلان اور عتیرہ کو بھی اپنی طرف بلوا لیا تھا۔ ان دونوں کے آنے پہ ذیان کی گھبراہٹ قدرے کم ہوگئی۔
ان سب کو باتوں میں مصروف چھوڑ کر ذیان باہر آگئی۔ اندر کمرے میں بیٹھ بیٹھ کر وہ بور ہوگئی تھی۔ پھر افشاں بیگم کی حد درجہ توجہ اور محبت بھی اسے پریشانی کے ساتھ ساتھ شرمندگی و جھنجھلاہٹ سے دوچار کر رہی تھی۔ اس نے منظر سے ہٹ کر سکون محسوس کیا۔
                                           ###
ملک افتخار نے ارسلان کو اعلیٰ تعلیم کے حصول کی خاطر بیرون ملک بجھوانے کا فیصلہ کیا تھا۔
ارسلان نے بجھے دل کے ساتھ عتیرہ کو یہ خبر سنائی۔ کتنی دیر تو وہ اسے بے یقینی کے عالم میں تکتی رہی۔ ”تم جھوٹ بول رہے ہو ناں؟“ کاش کہ یہ جھوٹ ہی ہوتا“ لیکن حقیقت یہی ہے کہ بہت جلد پاکستان سے جارہا ہوں۔“
ارسلان کے لہجے میں گہری اداسی کی آمیزش تھی۔ ”لیکن تم تو اپنے بابا جان اور بھائی کو رشتہ مانگنے کے لئے ہمارے گھر بھیجنے والے تھے۔
“ عتیرہ نے شاکی نگاہوں سے تکتے ہوئے اسے یاد دلایا۔ ”بابا جان ضرور آئیں گے تمہارے گھر میرا رشتہ لے کر۔ لیکن جب میں پڑھ کے ڈگری لے کے آؤں گا تب۔“ ارسلان نے اسے دلاسہ دیا۔ ”میری تعلیم مکمل ہونے والی ہے۔ ابو جان کو میری شادی کی بہت زیادہ فکر ہے۔“ عتیرہ نے مجبوری بتائی۔” تم کہتی ہوتو میں جانے سے پہلے ان سے بات کرلوں۔“ ارسلان نے اس کی اداسی بھری آنکھوں میں جھانکا۔
” نہیں رہنے دو۔“ یہ مناسب نہیں ہوگا کہ تم خود ان سے بات کرو۔“ ”تو پھر تمہیں میری واپسی تک انتظار کرنا ہوگا۔“ وہ مضبوط لہجے میں بولا۔ ”میں انتظار کرلوں گی۔“ وہ آنکھوں کی نمی چھپاتے ہوئے زبردستی مسکرائی۔ ”تم آرام سے ہنسی خوشی مجھے الوداع کہو گی تو میں بھی یہ کڑا وقت تب ہی کاٹ پاؤں گا۔“ ”نہیں میں تمہیں الوداع نہیں کہوں گی۔ مجھے الوداع کہتے ہوئے ڈر لگتا ہے جیسے تم ہمیشہ کے لئے بچھڑ جاؤ گے۔
“ ”تم پاگل ہو بس اور کچھ نہیں۔“ ”ہاں مجھے پاگل کہہ لو پر میں تمہیں گڈ بائے نہیں کہوں گی۔“ ”میں تمہیں گڈ بائے بول کے جاؤں گا۔“ وہ اسے ستانے کے لئے بولا تو عتیرہ نے فوراً اس کے لبوں پہ اپنا ہاتھ رکھا۔ ”پلیز ارسلان مجھے کبھی بھی گڈ بائے مت بولنا میں جی نہیں پاؤں گی۔ مجھے تم سے بچھڑنے سے خوف آتا ہے۔“ ارسلان اس پا گل لڑکی کو دیکھتا رہ گیا۔
                                        ###

Chapters / Baab of Mein Guman Nahi Yaqeen Hon By Nabila Abar Raja