Episode 95 - Mein Guman Nahi Yaqeen Hon By Nabila Abar Raja

قسط نمبر 95 - میں گمان نہیں یقین ہوں - نبیلہ ابر راجہ

وہاب، ملک ابیک کے سامنے ان کے ڈرائنگ روم میں موجود تھا۔ اس کے پاس تکلیف دہ انکشافات کا خزانہ تھا۔ ”ذیان اور میں شروع سے ہی ایک دوسرے سے محبت کرتے ہیں۔ ایک دوسرے کو دیکھ کر جی رہے تھے ہم۔ امیر خالو کی مرضی سے ہمارا رشتہ طے ہوا۔ سب کچھ ٹھیک چل رہا تھا، ذیان کے گریجویشن کر لینے کے بعد ہماری شادی ہونی تھی۔ پر زرینہ خالہ کو کسی صورت ہماری خوشی منظور نہیں تھی۔
انہیں شروع سے ہی ذیان سے چڑ تھی کیونکہ وہ ان کی سوکن کی بیٹی تھی۔ ساری عمر انہوں نے ذیان سے نفرت کی، میری امی کو ذیان پسند تھی۔ میں اسے اس نفرت بھرے ماحول سے نکالنا چاہتا تھا۔ بظاہر خالہ نے ہنسی خوشی سب قبول کرلیا تھا۔ امیر خالو کے مرتے ہی انہوں نے میری اور ذیان کی شادی کرنے سے انکار کردیا۔ انہیں خوف تھا کہ اس شادی کی صورت میں ذیان کو اس کے باپ کے ترکے میں سے حصہ دینا پڑے گا کیونکہ میں نے خالہ کو صاف صاف کہا تھا کہ میں ذیان کے ساتھ مزید کوئی ناانصافی برداشت نہیں کروں گا۔

(جاری ہے)


خالہ نے سازش تیار کی اور خالو کا گھر بیچ کر غائب ہوگئیں۔ خود انہوں نے ذیان کو زبردستی یہاں پہنچا دیا۔ میری محبت کو قتل کردیا۔ مجھے کچھ دن قبل ہی اطلاع ملی کہ میری محبت تو کسی اور کی زوجیت میں ہے۔ وہ اپنی خوشی سے اپنی مرضی سے یہاں نہیں آئی ہے ظالم دنیا نے ہمیں ایک دوسرے سے الگ کردیا ہے۔ ذیان کچھ دن اور وہاں رک جاتی تو ہم کورٹ میرج کر کے اب تک ایک ہوجاتے، وہ میری محبت ہے۔
میں کتنی مشکلات سے گزر کر یہاں تک پہنچا ہوں۔ میرے لیے خوشی کا پہلو یہ ہے کہ ذیان نے میری محبت کو اب تک سینے سے لگا کر رکھا ہوا ہے۔
 اس نے مجھے بتایا ہے کہ اس نے اپنی محبت اپنا وجود اب تک کسی کو نہیں سونپا ہے۔ میں اسی اعتماد کے سہارے یہاں تک پہنچا ہوں۔ آپ میرے ساتھ کچھ بھی کرسکتے ہیں۔ چاہیں تو مجھے دھکے دے کر نامراد کر کے ذلیل و خوار کر کے یہاں سے نکال دیں چاہیں تو میری محبت میری جھولی میں ڈال کر مجھے بامراد کردیں سب آپ پہ ہے ملک ابیک۔
“ وہ بات کے اختتام پہ اچانک اس کے پاؤں پہ جھک گیا۔ اور اس کے دونوں پاؤں پکڑ لیے۔ ملک ابیک بھونچکا ہو کر اسے دیکھ رہا تھا۔ اس نے بمشکل اپنے پاؤں اس سے چھڑائے۔ وہاب کی اداکاری بے حد غضب کی اور جاندار تھی۔ دھڑ دھڑ دھڑ ساتوں آسمان اس کے سر پہ گرے تھے۔ اپنی گفتگو میں وہاب نے جس طرف اشارہ کیا تھا ملک ابیک بخوبی اس کی تہہ تک پہنچ گیا تھا۔
ذیان نے پہلی رات ہی آتم توش والا ڈرامہ کر کے ابیک کو خود سے دور رہنے پہ مجبور کردیا تھا۔ شادی سے پہلے ہی وہ اس سے کترائی کترائی اور گریز پا رہتی۔ جیسے یہ شادی اس کی مرضی کے بغیر زبردستی ہو رہی ہے۔ گویا اس کا چپ چپ رہنا گریزپائی کسی کے قریب نہ ہونا سب کچھ وہاب کی محبت کی وجہ سے تھا۔
اسے وہاب سے ملنے سے پہلے اس بات کا علم نہیں تھا کہ ذیان کن حالات میں ملک محل تک پہنچی ہے۔
گویا اس کی سوتیلی ماں نے اسے اور وہاب کو دور کرنے کے لیے یہاں بھیجاتھا۔ جب وہ شادی کا کارڈ دینے کے لیے شہر امیر علی کے گھر گئے تو ان کی بیوہ وہ گھر چھوڑ کر کسی نامعلوم مقام پہ رہائش اختیار کر چکی تھیں گویا وہاب اپنی بات میں سچا تھا۔ ذیان کے اور اس کے مابین کیسے تعلقات ہیں اس کا علم ان دونوں کے سوا صرف اللہ کو تھا مگر وہاب بھی ان کے تعلقات کی ذاتی نوعیت سے آگاہ تھا ظاہر ہے اسے بتانے والی ذیان تھی۔
اس کی بیوی، اس کے ماں باپ کی من چاہی لاڈلی بہو۔ من میں کسی اور کی چاہت کے دیپ جلائے دلہن بن کر ابیک کے گھر میں آئی تھی۔ جس طرح وہاب نے اسے اس بات سے آگاہ کردیا تھا ایسے ذیان اسے بتا دیتی تو وہ کبھی بھی اس کے ساتھ شادی نہ کرتا۔ وہاب اپنی محبت اور جذبوں میں سچا تھا تب ہی تو اس کے پاؤں میں جھک گیا تھا۔ اس کے آنسو مگر مچھ کے تو نہیں تھے اس کا دل دکھی تھا اس کی محبت چھن گئی تھی اس کے ارمانوں کا خون ہوا تھا۔
اس لیے وہ مرد ہو کر بھی رو رہا تھا۔
دکھ، اذیت، کرب کیا ہوتا ہے کوئی اس وقت ابیک سے پوچھتا۔ وہاب کا ایک ایک جملہ اس کے ذہن پہ ہتھوڑے برسا رہا تھا ایسے لگ رہا تھا اس کا وجود روح میں ڈھل گیا ہو اور اس کی روح کو کانٹوں پہ گھسیٹا جارہا ہو۔ وہ اپنے ہمزاد کو مجسم اپنی نگاہوں کے سامنے دیکھ سکتا تھا۔اس کا ہمزاد تکلیف میں تھا شدید تکلیف میں۔
وہ تکلیف میں بھی ہنس رہا تھا ابیک پہ۔ ابیک اس سے چھپ رہا تھا چہرہ چھپا رہا تھا۔ وہ اس کا مذاق اڑا رہا تھا۔
”ملک ابیک تم نے کتنا بڑا دھوکا کھایا ہے۔ تم اس لڑکی کو دلہن بنا کر لائے ہو جو کسی اور کو پسند کرتی ہے۔ اور تم اور تم بھی تو اسے پسند کرتے ہو محبت کرتے ہو جو وہاب کو چاہتی ہے۔“ وہ اسے آئینہ دکھا رہا تھا۔
ملک ابیک کے چہرے پہ اذیت رقم تھی۔
وہ کوشش کے باوجود بھی وہاب سے ایک لفظ بھی نہ کہہ پایا تھا۔ اس نے جواب میں وہاب سے اتنا بھی نہیں کہا کہ تم جو اتنے بڑے بڑے دعوے کر رہے ہو تمہارے پاس اس کا کوئی ثبوت بھی ہے کہ نہیں۔ وہاب اس کی مسلسل خاموشی سے اپنے من پسند نتائج اخذ کر چکاتھا۔
”آپ بس مجھ پہ ایک احسان اور کرنا…“ وہاب نے التجائیہ انداز میں ابیک کی سمت دیکھا۔ ابیک نے شکست خوردہ آنکھیں اس پہ جما دیں۔
”میری آمد کی اطلاع کسی کو نہیں ہونی چاہیے۔“ ”کیوں؟“ ابیک پہلی بار بولا۔ ”ذیان پاگل ہے ایسا نہ ہو کچھ الٹا سیدھا کربیٹھے۔“ وہاب کی طرف سے عجیب جواب موصول ہوا۔
مرد کبھی عورت پہ کھل کر اعتبار نہیں کرتا خاص طور پہ اس عورت پہ جو اس کی بیوی بھی ہو۔ اپنی شریک حیات کے بارے میں جھوٹی سچی ذرا سی بات اسے بدگمان کرسکتی ہے چاہے لمحہ بھر کے لیے ہی سہی وہ برگشتہ ضرور ہوتا ہے۔
تصدیق اورتحقیق کی ضرورت تو بعد میں پڑتی ہے پہلا مرحلہ شک اور بدگمانی سے بچنے کا ہوتا ہے اور وہ عورت خوش قسمت ہوتی ہے جس کا شوہر اس کی طرف سے لمحہ بھر کی بدگمانی کا بھی شکار نہ ہو۔
ابیک ذیان سے محبت کرتا تھا۔ اسے نکاح کے بندھن میں باندھنے کے بعد ابیک نے بہت سے خواب بھی آنکھوں میں سجا لیے تھے۔ اور وہاب ان خوابوں کو کرچی کرچی کرنے چلا آیا تھا۔
آتم توش والا قصہ کھلنے کے بعد ابیک ذیان کو سنبھلنے کا اپنی محبت کو پہچاننے کا موقعہ اور وقت دے رہا تھا تاکہ وہ اس کے جذبوں کی سچائی سے واقف ہو کر خود اپنی محبت کا اقرار کرے۔
اور اس کے بعد اس میں تبدیلی کا عمل شروع ہوگیا تھا۔ اس کی خاموشی ٹوٹ گئی تھی۔
اس نے ملک محل کو اپنا گھر تسلیم کرلیا تھا۔ بابا جان اور امی اس سے خوش تھے۔
خاص طور پہ بابا جان اسے بہت پیار کرتے تھے تو افشاں بیگم واری صدقے جاتی، رہ گیا معاذ تو وہ ذیان کا دوست تھا۔ ذیان نے سب سچائیوں کو تسلیم کرلیا تھا۔ ماضی کی تلخیوں اور کڑواہٹ کو فراموش کر کے وہ حال میں جینا شروع کر چکی تھی۔ ابیک صرف اس کی انا کی شکست کا انتظار کر رہا تھا کیونکہ وہ محسوس کر رہا تھا کہ ذیان کو اس کا رویہ ہرٹ کرنے لگا ہے۔
وہ اسے شکوہ کناں نگاہوں سے دیکھتی ہے بولتی کچھ نہیں ہے۔ صرف ایک بار اسے بول دے کہ ابیک میں تمہاری محبت پہ ایمان لے آئی ہوں۔ ابیک کو محسوس ہو رہا تھا اس کا انتظار زیادہ طول نہیں پکڑے گا ذیان کی توانائی اور حوصلہ کمزور ہوتا جارہا تھا۔
جہاں وہ تھک کر گر پڑتی ابیک اسے اٹھا کر سینے میں چھپا لیتا۔ اس کا انتظار جوں کا توں تھا کہ اب وہاب اس کی جنت کو دوزخ بنانے چلا آیا تھا۔
وہ اس کی جنت میں آگ لگانے آیا تھا۔ اور اپنا کام مکمل کر کے گیا۔ ملک ابیک کسی کو بتائے بغیر شہر آگیا۔ وہ نہیں چاہتا تھا کہ کوئی اس کی شکست خوردگی کا تماشہ دیکھے۔
اسے اپنے آپ کو خود ہی سنبھالنا تھا حوصلہ دینا تھا اپنے آنسو خود صاف کرنے تھے۔
###
”ہا ہا ہا ہا ذیان میں ہار کربھی جیت گیا ہوں۔ تم یہاں آ کر یہ سمجھتی تھی کہ مجھ سے محفوظ ہو گئی ہو۔
یہ تمہاری بھول تھی۔ اب تم ابیک کی طرف سے طلاق نامے کا انتظار کرو۔“
وہ فون پہ بات کرتے ہوئے اونچی آواز میں قہقہے لگا رہا تھا۔ ”بکواس بند کرو اپنی۔ ابیک محبت کرتے ہیں مجھ سے۔ وہ ایسا کبھی نہیں کرسکتے۔“ وہ خود کو یقین دلانے کی کوشش کر رہی تھی۔“ ایسا بہت جلد ہونے والا ہے۔ اور جب تمہیں طلاق مل جائے تو سیدھی میرے پاس چلی آنا میرے دل کے دروازے کھلے ہیں تمہارے لیے۔
ویسے میں ملک ابیک کے پاس آیا تھا تمہارے ڈرائنگ روم میں تمہارے شوہر کی میزبانی سے مستفید ہو کر گیا ہوں۔“
وہ اسے ترنگ میں آ کر بتا رہا تھا۔ ”وہاب تم نے یہ سب اچھا نہیں کیا ہے۔ ابیک سمیت کوئی بھی تمہاری بات کا اعتبار نہیں کرے گا۔ تم جھوٹ بولتے ہو بکواس کرتے ہو۔“ وہ مسلسل اسے جھٹلا رہی تھی۔ ”میرا تو فائدہ ہی فائدہ ہے ایک طرف سے پیسے ملے ہیں تو دوسری طرف سے تم ملی ہو۔
ہا ہا ہا۔“
 کامیابی کے نشے میں سرشار وہاب نے ایک اور اہم بات کا انکشاف کیا۔“ کس نے دئیے ہیں پیسے تمہیں؟“ وہ ہذیانی انداز میں بولی۔ ”اسی نے جو آج کل ابیک کے پیچھے پاگل ہے۔“ وہ اسی انداز میں بولا تو ذیان کے ذہن میں تارے کی مانند ایک نام چمکا۔ ذیان کی طرف سے مسلسل خاموشی پہ وہاب کو محسوس ہوا جیسے اس نے بہت بڑی غلطی کردی ہے۔ ذیان فون بند کر چکی تھی، اب وہ ریسیو کرنے والی نہیں تھی۔ ذیان نے اسی ٹائم معاذ سے رابطہ کیا۔ معاذ ہمیشہ اسے اچھے مشورے دیتا تھا۔

Chapters / Baab of Mein Guman Nahi Yaqeen Hon By Nabila Abar Raja