Episode 37 - Mein Guman Nahi Yaqeen Hon By Nabila Abar Raja

قسط نمبر 37 - میں گمان نہیں یقین ہوں - نبیلہ ابر راجہ

کرب کی ایک لہر پورے وجود میں ایک ثانیے کے لئے بیدار ہوئی۔ دل اس اجنبی لڑکی کی طرف کسی معصوم بچے کی مانند ہمک رہا تھا۔ اپنی اس کیفیت سے وہ خود بھی حیران تھی۔لڑکی کے چہرے کی اُداسی دیکھ کر اس کا اپنا دل گہری اُداسی میں ڈوب گیا تھا۔ بہت ضبط کے باوجود جب عتیرہ سے رہا نہیں گیاتو وہ اٹھ کر اس کے ٹیبل کی طرف آگئیں۔ جو اَب بھی خوفزدہ ہرنی کی مانند اِدھر اُدھر دیکھ رہی تھی۔
اس کی آنکھوں میں کسی خوف کے گہر ے سائے صاف دکھائی دے رہے تھے۔
”کیا میں یہاں آپ کے پاس بیٹھ سکتی ہوں؟“ عتیرہ کی نرم شائستہ آواز پہ وہ چونک کر اس کی طرف متوجہ ہوئی ۔ اب اس کے چہرے پہ خوف کے سایوں کی جگہ ایک رسمی مسکراہٹ نظر آرہی تھی پر اس میں بھی ہزاروں سوال اور خدشے تھے۔ جانے یہ کون تھیں اور کیوں اس کے پاس آئی تھیں۔

(جاری ہے)

”میں کھانا کھا رہی تھی جب آپ پہ نظر پڑی آپ پریشان لگ رہی ہیں۔

“ ”پلیز بیٹھیے۔“ عتیرہ کا لہجہ، لباس اور شکل و صورت ہرگز بھی نظر انداز کیے جانے کے قابل نہ تھی تبھی رنم نے انہیں بیٹھنے کی آفر کی۔ وہ ہلکی سی مسکراہٹ کے ساتھ شکریہ ادا کرتے ہوئے بیٹھ گئیں۔ اگلے دس منٹ میں رنم ان کے ساتھ کافی اطمینان سے باتیں کر رہی تھی۔ ملک ارسلان اپنے ایک شاعر دوست کے ساتھ کسی ادیب سے ملنے گئے ہوئے تھے۔ انہوں نے عتیرہ کو بھی ساتھ چلنے کی آفر کی تھی پر اس نے نرمی سے منع کردیا۔
تبھی تو وہ یہاں اکیلے کھانا کھا رہی تھیں۔ ملک ارسلان کے ساتھ نہ جانے کی صورت میں ہی تو ان کی ملاقات نیناں نامی اپنی اپنی سی لگنے والی لڑکی سے ہوئی تھی۔ ایک لحاظ سے اچھا ہی ہوا تھا ورنہ وہ اسے کیسے ملتیں۔ دل کی اس بے اختیار کیفیت پہ وہ خود بھی حیران تھیں۔ نیناں اپنے کمرے میں جا چکی تھی۔ عتیرہ نے اسے اپنا کانٹیکٹ نمبر دیا تھا اور ہوٹل کے روم کے بارے میں بھی بتایا تھا۔
رنم نے انہیں اپنا نام نیناں بتایا تھا۔ عتیرہ نے اسے کافی ساری باتیں کی تھیں۔ سوال پوچھے تھے پر وہ صفائی سے ٹال گئی تھی۔
ملک ارسلان رات کو کافی لیٹ ہوٹل واپس آئے۔ عتیرہ بے تابی سے ان کا انتظار کر رہی تھی۔ محبوب بیوی کے چہرے پہ دبا دبا جوش انہیں ایک نظر ڈالتے ہی محسوس ہوگیا تھا۔ وہ بہت خوش نظر آرہی تھی۔ وہ نیناں کے بارے میں بات کر رہی تھی۔
ملک ارسلان اس کی اسقدر دلچسپی محسوس کر کے خود بھی پوری توجہ سے سن رہے تھے۔ ”جانے کیا بات ہے پہلی ہی نظر میں وہ مجھے اپنی اپنی سی لگی ہے۔ کچھ پریشان اور کھوئی کھوئی سی تھی میں نے بہت پوچھا پر اس نے بتایا نہیں۔“ ”توکل پوچھ لینا۔“ ارسلان نے مسکراتے ہوئے مشورہ دیا۔ ”ہاں میں نے اسے اپنا سیل نمبر بھی نوٹ کروایا ہے اور روم نمبر بھی بتایا ہے۔
“ عتیرہ فوراً بولی۔ ”تو ہماری بیگم کو وہ لڑکی بہت پسند آگئی ہے۔“ ملک ارسلان محبت بھری نگاہوں سے انہیں دیکھ رہے تھے۔ ”اسے دیکھ کر مجھے بہت کچھ یاد آگیا ہے۔ یہاں پہلو میں چبھن ہو رہی ہے۔“
عتیرہ اچانک سنجیدہ ہوگئیں۔ ان کا مسکراہٹ سے مزین روشن چہرہ اور جوت دیتی نگاہیں بجھ سی گئی تھیں۔ ملک ارسلان اچھی طرح جانتے تھے اب کیا ہوگا کیونکہ عتیرہ ان کی طرف سے کروٹ بدل کر لیٹ گئی تھیں۔
بظاہر آنکھیں بند کیے وہ سو رہی تھیں مگر حقیقت میں ایسا نہیں تھا۔ آج کی شب ان پہ بہت بھاری تھی۔ انہوں نے خیالوں ہی خیالوں میں ماضی کا تکلیف دہ سفر طے کرنا تھا۔ اس کے اختتام پہ ان کا درد اور بھی بڑھ جاتا تھا۔ یہ برسوں سے ہو رہا تھا لیکن ابھی تک اس اذیت ناک سفر کا پہلا پڑاؤ ہی ختم ہونے میں نہیں آرہا تھا۔ ملک ارسلان ان کی اذیت اور درد سے واقف ہونے کے باوجود انجان بنے ہوئے تھے وہ نہیں چاہتے تھے عتیرہ کا بھرم ٹوٹے۔
بدحواسی میں رنم نے پورا بیگ چھان مارا تھا۔ ایک ایک چیز باہر نکال کر دیکھی۔ نہ جیولری نہ پیسے نہ ہی کریڈٹ کارڈز۔ صرف اے ٹی ایم کارڈز پڑے اس کا منہ چڑا رہے تھے۔ اس نے موہوم سی امید کے سہارے دوسرا بیگ کھولا کہ شاید اس نے سب چیزیں بے دھیانی میں وہاں رکھ دی ہوں پر وہاں تو صرف استعمال کے کپڑے اور دیگر اشیاء تھیں۔ اس کا جی چاہ رہا تھا دھاڑیں مار کے روئے۔
اب اس کے پاس پھوٹی کوڑی تک نہ تھی۔ وہ صرف ایک بار رات کو کھانا کھانے دوسرے الفاظ میں اندرونی گھٹن اور خلفشار سے پیچھا چھڑانے کے لئے کمرے سے باہر گئی تھی۔ اس دوران سب کچھ صفائی سے پار کیا گیا تھا۔ اس بات کا اسے سو فی صد یقین تھا۔
یہ حادثہ اس کے ساتھ رات کو ہوا تھا۔ اب دوپہر ہو چلی تھی وہ صدمے کی حالت میں بیٹھی تھی۔ دوپہر سے شام ہوگئی وہ باہر نہیں نکلی۔
روم سروس کی طرف سے کھانا آیا اس نے دروازہ ہی نہیں کھولا۔ اس کی حالت ابتر ہو رہی تھی۔ رات سر پہ تھی۔ ایک بار پھر دروازے پہ دستک ہوئی۔ اس نے خود کو سنبھالتے ہوئے دروازہ کھولا۔ بیرا کھانا لایا تھا۔ رنم نے پیچھے ہٹ کر اسے اندر آنے کا راستہ دیا خود وہ دروازے کے پاس کھڑی تھی کہ بیرا جائے تو وہ دروازے اندر سے لاک کرے۔ پر وہ کھانے کی ٹرے رکھ کر اس طرح کھڑا رنم کو دیکھ رہا تھا۔
”آپ پریشان لگ رہی ہیں کوئی پرابلم ہے بتائیں۔“ ہوٹل کا معمولی سا ملازم بڑے معنی خیز انداز میں پوچھ رہا تھا جیسے رنم کا اس سے بڑا ہمدرد ہی نہ ہو۔ ”تم سے مطلب جاؤ یہاں سے۔“ رنم کا فطری غصہ عود کر آیا۔ 
”میں آپ کے بہت کام آسکتا ہوں صرف ایک موقعہ دیں مجھے۔ مجھے سب معلوم ہے آپ اکیلی ہیں پریشان ہیں آپ کے پاس کچھ نہیں ہے۔ میں آپ کے سب مسئلے حل کر سکتا ہوں اگر آپ !!!…“ رنم کے غصے کے باوجود اس نے اپنی بات جاری رکھی۔
اس کے ادھورے فقرے کا مفہوم وہ اچھی طرح جان گئی تھی۔ ”یہاں سے فوراً نکل جاؤ میں منیجر سے تمہاری شکایت کردوں گی۔“ وہ اسے کھوکھلے لہجے میں دھمکی دے رہی تھی۔
 ہوٹل کے اس ملازم کو اس کی مجبوری اور کمزوری کا احساس تھا تب ہی تو ڈھٹائی سے کھڑا مسکرا رہا تھا۔ ”میں رات کام ختم کر کے آؤں گا۔ میری بات مانو گی تو فائدے میں رہو گی۔ ویسے مجھے تم گھر سے بھاگی ہوئی لگتی ہو۔
تمہارا عاشق عیش کرنے کے بعد تمہیں چھوڑ گیا ہے۔ اور تم اب مشکل میں ہو۔ اکیلی لڑکی ہو سب ہوٹل سٹاف کی نگاہوں میں آگئی ہو۔ چند دن کی بات ہے سب نے تمہیں بہتی گنگا سمجھ کر ہاتھ دھونے ہیں اس لئے بہتری اسی میں ہے کہ مجھ سے سیٹنگ کرلو۔ فائدے میں بھی رہو گی اور سب سے بچ بھی جاؤ گی۔ اچھی طرح سوچ لو۔ ورنہ تم جیسی اکیلی لڑکی کو مار کر غائب کردینا کوئی بڑی بات نہیں ہے۔
“ وہ انسانی نفسیات کا ماہر لگ رہا تھا رنم کے چہرے کے اتار چڑھاؤ سے بہت کچھ بھانپ گیا تھا۔ رنم بالکل سن تھی جیسے۔ وہ مسکراتا ہوا چلا گیا۔ اس کے جانے کے بعد رنم نے دروازے بند کیا اوربیگ میں ہاتھ مار کر اپنا سیل فون ڈھونڈا۔ وہ ہوتا تو ملتا۔ اسے یاد آیا وہ اپنا سیل فون تو آف کر کے اپنے بیڈ روم میں ہی چھوڑ آئی تھی۔ وہ اس وقت کو پچھتا رہی تھی جب سیل فون گھر چھوڑ کر نکلی تھی۔
اس کے دل میں اچانک ہی خیال آیا تھا کہ وہ اپنے گھر فون کرے پپا کو سب کچھ بتا دے اورپھر دیکھے کہ وہ کیسے ان ہوٹل والوں کی ایسی کی تیسی کرتے ہیں۔ مگر اس کے پاس فون نہیں تھا پیسے بھی نہیں تھے پر وہ ہوٹل کے ریسپشن سے تو فون کر سکتی تھی۔ اس خیال نے اس کے قدموں میں تیزی بھردی۔ اگلے پانچ منٹ میں وہ ہوٹل کے ریسپشن پہ موجود تھی۔ وہاں پہ اس وقت ہوٹل سٹاف کے تین نوجوان کھڑے تھے۔
تینوں نے اسے معنی خیز نگاہوں سے دیکھا۔ اس نے بے ربط ٹوٹے پھوٹے الفاظ میں مدعا بیان کیا تو ایک آدمی کی مسکراہٹ گہری ہوگئی۔ گویا اس کے کمرے میں کھانا سرو کرنے والے بیرے نے ٹھیک ہی کہا تھا کہ وہ اس کے سب ساتھیوں کی نظروں میں آگئی ہے۔ ایک نے جیسے اس کی غیر ہوتی حالت پہ ترس کھاتے فون اس کی طرف کھسکایا۔ وہ ریسیور اٹھائے خالی الذہنی کے عالم میں پپا کا نمبر یاد کرنے کی کوشش کر رہی تھی لیکن اسے نمبر یاد نہیں آرہا تھا حالانکہ پپا کا نمبر اسے ازبر تھا اس نے تین بار پپا کا نمبر یاد کر کے ڈائل کرنے کی کوشش کی پر اسے ناکامی ہوئی۔ اس ناکامی پہ اس کی حالت غیر ہو رہی تھی۔ 

Chapters / Baab of Mein Guman Nahi Yaqeen Hon By Nabila Abar Raja